میں گزشتہ کئی روز سے چین میں ہوں۔ یوں تو اس سے قبل بھی متعدد بار چین کا سفر کیا ہے اور بطورِ پاکستانی مجھے ہمیشہ یہاں بے پناہ عزت و احترام ملا ہے‘ اس لیے چینی عوام کے پاکستانیوں سے دوستانہ رویے سے میں بخوبی واقف ہوں‘ مگر اس بار کا تجربہ کچھ منفرد تھا۔اس سال مئی میں ہونے والی پاک بھارت جنگ کے بعد چینی شہریوں کے چہروں پر خوشی کی ایک ایسی لہر دیکھی جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ہم نے چین کے مختلف شہروں کا رخ کیا‘ جن میں بیجنگ‘ شمالی بندرگاہی شہر ہائیکو‘ سیاحتی ساحلی شہر سنیا اور گوانگزو شامل ہیں۔ ہم جہاں بھی گئے اور جن گلی کوچوں سے گزرے‘ ہر موڑ ‘ ہر چوک پر ہمیں ایک حیران کن اور غیر متوقع تجربہ ہوا۔ جونہی مقامی لوگوں کو یہ معلوم ہوتا کہ ہم پاکستان سے ہیں‘ ان کی آنکھوں میں ایک خاص چمک آ جاتی۔ وہ جس والہانہ محبت اور گرم جوشی کا اظہار کرتے‘ ہم نے ایسی محبت کا مشاہدہ پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ یہ رویہ محض دوستانہ نہیں تھا بلکہ ایک ایسے رشتے کی عکاسی کرتا تھا جسے ''عقیدت مندانہ‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ محبت کے یہ والہانہ جذبات دیکھ کر بطورِ پاکستانی ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ چین میں اُردو زبان بالکل نہیں سمجھی جاتی اور انگریزی زبان بھی آفیشلز کے علاوہ بہت کم لوگ بولتے یا سمجھتے ہیں مگر زبان کی یہ رکاوٹ بھی ان کی محبت کی راہ میں حائل نہ ہو سکی۔ اشاروں کنایوں میں انہوں نے اپنے جذبات اور محبت کا اظہار کیا۔ بالخصوص پاکستانی پائلٹوں کی طرف سے بھارتی رافیل طیارے گرائے جانے پر ان کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ ان کے چہرے پر وہی مسرت نظر آئی جو کسی پاکستانی کے چہرے پر اپنی افواج کی کامیابی پر دکھائی دیتی ہے۔ یہ لمحے اتنے جذباتی تھے کہ انہیں الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ چین میں اپنے قیام کے دوران ہمیں کئی جگہوں پر مباحثوں‘ مکالموں اور عام لوگوں سے گفتگو کا موقع ملا۔ جب بھی چینی شہریوں کا ہم سے سامناہوتا اور انہیں یہ معلوم ہوتا کہ ہم پاکستان سے ہیں تو ان کی خوشی دیدنی ہوتی۔ وہ فوری طور پر پاکستان کی بہادری اور قربانیوں کو سراہتے اور اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کرتے۔ یہ عام شہریوں کی سطح پر پاکستان کے ساتھ ایک گہرے جذباتی اور روحانی رشتے کا عکاس تھا۔ایک اور حیران کن مشاہدہ یہ تھا کہ ہمیں اپنی افواج پر جتنا فخر ہے‘ چینی شہری بھی پاکستانی افواج پر ایسے ہی فخر کا اظہار کرتے نظر آئے۔ وہ پاکستانی افواج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور بہادری کی کھل کر تعریف کرتے۔ وہ افواجِ پاکستان کو خطے میں امن و استحکام کی علامت قرار دیتے ہیں۔ یہ مشترکہ فخر اور اعتماد دونوں قوموں کو مزید قریب لاتا ہے۔گزشتہ کئی دہائیوں سے دونوں ریاستوں کے درمیان تعلقات تو مضبوط تھے ہی مگر بھارت کو حالیہ جنگ میں سبق سکھانے کے بعد چین کے عام شہریوں کا پاکستان کے ساتھ مضبوط تعلق اور والہانہ محبت مزید نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے۔ یہ تعلق اب صرف سفارتی یا اقتصادی نہیں رہا بلکہ یہ عوام کی سطح پر ایک گہرے جذباتی رشتے میں ڈھل چکا ہے‘ ایک ایسا رشتہ جو دوستی سے بڑھ کر ہے۔ ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ یہ دوستی آنے والے وقتوں میں مزید گہری اور مستحکم ہو گی اور خطے میں امن و خوشحالی کی ضامن بنے گی۔
چین میں ہمارے حالیہ قیام کے دوران ہی فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے چین کا سرکاری دورہ کیا اور بیجنگ میں چینی سیاسی و عسکری قیادت کے ساتھ ان کی ملاقاتوں نے دونوں ملکوں کے درمیان سٹریٹجک شراکت داری کی گہرائی کو از سر نو واضح کیا ہے۔ ان ملاقاتوں میں کھل کر باہمی اعتماد اور مشترکہ عزائم کا اظہار کیا گیا۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے چین کے نائب صدر ہان ژینگ اور وزیر خارجہ وانگ ای سے ملاقاتیں کیں‘ ان ملاقاتوں میں پاکستان اور چین کی آہنی دوستی کی پختگی اور سٹریٹجک شراکت داری کی ازسرِ نو توثیق کی گئی۔ اس اعلیٰ سطحی تبادلۂ خیال میں خطے اور دنیا کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال کا بھی جائزہ لیا گیا‘ خاص طور پر پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت بڑھتے ہوئے روابط پر بھی بات چیت کی گئی۔ دونوں ممالک نے جیو پولیٹکل چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مربوط حکمت عملی اپنانے پر بھی زور دیا۔ ہمارے لیے یہ انتہائی فخر کا لمحہ تھا جب چینی قیادت نے پاکستان کی خودمختاری‘ کثیرالجہتی تعاون اور طویل مدتی علاقائی استحکام کے عزم کو دہرایا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ چینی قیادت نے پاکستان کی مسلح افواج کو جنوبی ایشیا میں امن کی ضامن اور ایک مضبوط قوت قرار دے کر ان کی قربانیوں اور کردار کو سراہا۔ یہ الفاظ پاک فوج کی خطے میں امن و استحکام کے لیے کی جانے والی کوششوں کا عالمی سطح پر واضح اعتراف ہیں۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی چینی عسکری قیادت سے ملاقاتوں میں دفاعی اور سکیورٹی تعاون کے کئی اہم پہلوؤں پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی۔ انسداد دہشت گردی کے لیے مشترکہ اقدامات‘ باہمی تربیت‘ دفاعی جدیدیت اور ادارہ جاتی روابط کو مضبوط بنانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال ہوا۔ دونوں جانب سے اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے آپریشنل ہم آہنگی اور سٹریٹجک تعاون کو مزید بڑھایا جائے۔ چینی عسکری قیادت نے پاکستان کے ساتھ اپنی دفاعی شراکت داری پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے علاقائی امن کے فروغ میں پاکستان کے کلیدی کردار کو سراہا۔ جواباً فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے چین کی مستقل حمایت پر تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور عسکری شعبے میں تعاون کو مزید وسعت دینے کے عزم کا اعادہ کیا جو اس تاریخی دوستی کو مزید مضبوط بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ یہ دورہ درحقیقت پاک چین تعلقات میں ایک نئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ اعلیٰ سطح کا دورہ اور تمام مشاہدات ایک اہم حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مئی کی پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان کی مسلح افواج نے خطے میں نمایاں مقام حاصل کر لیا ہے‘ جسے چینی قیادت نے نہ صرف کھل کر تسلیم کیا ہے بلکہ سراہا بھی ہے۔ یہ محض رسمی بات نہیں بلکہ اس کے مستقبل پر گہرے سٹریٹجک اثرات مرتب ہوں گے۔ جہاں ایک طرف یہ چینی حمایت اور پاکستان کی بڑھتی ہوئی عسکری ساکھ بھارت کی خطے میں قائم اجارہ داری کو ختم کر دے گی‘ وہیں چین کا یہ واضح اعلان عالمی سطح پر بھارت کی آواز کو مزید کمزور کر نے کا باعث بنے گا۔ چین کے ساتھ اس گہرے تعاون کے ہماری معیشت پر بھی انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے‘ جو سی پیک کے تحت مزید مستحکم ہوں گے۔ پاکستان نے جس طرح عسکری میدان میں اپنی برتری ثابت کی ہے‘ ہم پختہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان معاشی میدان میں بھی اپنے قدم جمائے گا اور خطے کی ترقی میں ایک اہم سٹیک ہولڈر بن کر ابھرے گا۔ یہ نیا دور پاک چین دوستی کی لازوال کہانی کا ایک روشن باب ہے جو خطے میں امن اور خوشحالی کی نئی راہیں کھولے گا۔