"RS" (space) message & send to 7575

سیاسی قیادت کے غیر محتاط بیانات

کسی بھی ملک کی سیاسی قیادت کے بیانات محض الفاظ نہیں ہوتے بلکہ وہ اس ملک کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایک اعلیٰ منصب پر فائز شخصیت کا غیر محتاط بیان نہ صرف ملک کی اندرونی سیاست میں ہلچل مچا سکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کی ساکھ اور مفادات کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے کچھ عرصہ قبل ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ ہم طالبان کو گرفتار کرتے ہیں لیکن ادارے انہیں رہا کر دیتے ہیں۔ یہ بیان داخلی سیاست کے تناظر میں دیا گیا تھا لیکن اس کے نتائج بین الاقوامی سطح پر ظاہر ہوئے۔ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت‘ جو ہمیشہ پاکستان کو دہشت گردی کی حمایت کرنے والا ملک ثابت کرنے کی کوشش میں رہتا ہے‘ نے اس بیان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں پاکستان کے خلاف ثبوت کے طور پر پیش کیا۔ بھارتی حکام نے مؤقف اختیار کیا کہ ایک صوبائی وزیراعلیٰ کا یہ بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کے ادارے دہشت گرد عناصر کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف حکام کے مطابق بھارت نے اس بیان کو پاکستان کے خلاف چارج شیٹ کے طور پر پیش کیا۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی لسٹ میں شامل ہونا کیوں اتنا خطرناک ہے۔ ایف اے ٹی ایف ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکنے کے لیے معیار قائم کرتا ہے۔ جب کوئی ملک اس معیار پر پورا نہیں اترتا تو اسے گرے لسٹ میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کو اکتوبر 2022ء میں 52ماہ تک اس لسٹ میں رہنے کے بعد ہٹایا گیا تھا۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں شمولیت کسی بھی ملک کے لیے سنگین نتائج کا باعث بنتی ہے جو اس کی معیشت اور عالمی ساکھ کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ سب سے اہم مالیاتی پابندیاں ہیں۔ اگرچہ ایف اے ٹی ایف براہِ راست کوئی پابندی نہیں لگاتا لیکن اس کی گرے لسٹ میں شمولیت عالمی مالیاتی اداروں جیسے آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے لیے ایک انتباہ ثابت ہوتی ہے‘ جس کے بعد وہ اس ملک کو قرضوں اور مالی امداد کی فراہمی میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی کمی واقع ہوتی ہے کیونکہ بین الاقوامی سرمایہ کار ایسے ملک کو غیرمستحکم اور خطرناک سمجھتے ہیں‘ جس سے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے۔ گرے لسٹ میں شامل ہونے کا ایک اور نقصان بین الاقوامی تجارت میں رکاوٹیں ہیں۔ ملک کے تجارتی لین دین پر سخت جانچ پڑتال بڑھ جاتی ہے جس کے نتیجے میں درآمدات اور برآمدات میں تاخیر اور اضافی اخراجات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ تمام عوامل ملک کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ گرے لسٹ میں شمولیت دنیا کو یہ پیغام دیتی ہے کہ یہ ملک منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں کر رہا اور اسے مالیاتی طور پر غیرمستحکم اور خطرے میں گھرا ہوا ملک سمجھا جاتا ہے۔
بھارت جانتا ہے کہ گرے لسٹ میں رہنے کی پاکستان نے کیا قیمت چکائی ہے اس لیے ہماری معیشت میں حالیہ بہتری اور پاکستان پر عالمی اداروں کے اعتماد کو دیکھتے ہوئے بھارت دوبارہ کوششوں میں ہے کہ کسی طرح پاکستان کو دوبارہ اس لسٹ میں شامل کرایا جائے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے اپنے سیاسی رہنماؤں کے بیانات دشمن کو اس کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب کسی پاکستانی رہنما کے بیان نے ملک کو نقصان پہنچایا ہو۔ 2020ء میں عمران خان کی کابینہ کے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے یہ کہہ کر پوری دنیا میں ہلچل مچا دی تھی کہ پاکستانی پائلٹس کے لائسنس جعلی اور مشکوک ہیں۔ اگرچہ بعد میں ان کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا اور اکثر پائلٹس کلیئر ہو گئے لیکن اس وقت تک بہت نقصان ہو چکا تھا۔ ان کے اس غیرمحتاط بیان کے نتیجے میں کئی ممالک نے قومی ایئر لائن پی آئی اے پر پابندیاں عائد کر دیں جس سے قومی ادارے کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ موصوف کو اپنے بیان پر کوئی پچھتاوا نہیں تھا اور وہ ڈھٹائی سے اپنے مؤقف پر قائم رہے۔ مارچ 2017ء کی بات ہے جب پاکستان سپر لیگ کا دوسرا ایڈیشن تھا‘ انتظامیہ نے اس کا فائنل لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں کرانے کا فیصلہ کیا‘ اسے طویل عرصے بعد ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر کئی عالمی شہرت یافتہ کھلاڑیوں نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد فرنچائزز نے ایسے غیر ملکی کھلاڑیوں کو شامل کیا جو پاکستان میں کھیلنے کے لیے تیار تھے۔ بھارت نے بھی کئی کھلاڑیوں کو پاکستان جانے سے روکنے میں منفی کردار ادا کیا لیکن تمام رکاوٹوں کے باوجود کچھ کھلاڑی پاکستان آنے پر رضا مند ہو گئے۔ یوں دیکھا جائے تو یہ پاکستان کی بڑی کامیابی تھی مگر عمران خان نے پی ایس ایل کے فائنل کے انعقاد پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جو چند کھلاڑی آئے ہیں وہ بڑے نام نہیں ہیں بلکہ پھٹیچر اور ریلو کٹے ہیں جنہیں پیسے دے کر لایا گیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں‘ جب پاکستان بین الاقوامی سطح پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ کرکٹ کے لیے ایک محفوظ ملک ہے اور ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کی راہ ہموار ہو رہی تھی‘ ایک بڑے سیاسی رہنما اور سابق کرکٹ کپتان کا یہ بیان منفی تاثر پیدا کرنے کا باعث بنا۔ اس بیان نے نہ صرف ان غیر ملکی کھلاڑیوں کی توہین کی جنہوں نے پاکستان آ کر کرکٹ کو واپس لانے کے لیے ہمت دکھائی بلکہ اس نے پاکستان کے اس مثبت پیغام کو بھی دھندلا دیا جو ہم دنیا کو دینا چاہتے تھے۔ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اکثر رہنما عالمی کھلاڑیوں سے متعلق خان صاحب کے اس بیان پر شرمندگی کا اظہار کرنے کے برعکس تاویلیں پیش کرتے رہے کہ کرکٹ میں یہ اصطلاحات رائج ہیں۔
یہ واقعات ایک تلخ حقیقت کو نمایاں کرتے ہیں کہ قومی قیادت کے لیے ذمہ داری کا احساس اور محتاط رویہ ناگزیر ہے۔ محض پوائنٹ سکورنگ‘ حریفوں پر سبقت حاصل کرنے‘ یا جذبات کی رو میں بہہ کر ایسے بیانات دینا جو قومی مفاد کے منافی ہوں‘ نہ صرف ناقابلِ قبول ہے بلکہ ایک جرم کے مترادف ہے۔ قیادت کا بنیادی فرض ہے کہ وہ ہر بیان دینے سے قبل اس کے داخلی اور بین الاقوامی اثرات کا گہرا جائزہ لے۔ انہیں یہ ادراک ہونا چاہیے کہ ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ محض جملے نہیں ہوتے بلکہ یہ قومی پالیسیوں اور ریاست کے مؤقف کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ الفاظ دشمن ممالک کے ہاتھ میں خطرناک ہتھیار بن سکتے ہیں‘ جس کا استعمال وہ عالمی پلیٹ فارمز پر ملک کو بدنام کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی ہو گی کہ غیر ذمہ دارانہ بیانات کی قیمت ہمیشہ قوم کو چکانی پڑتی ہے۔ یہ قیمت طویل عرصے تک پابندیوں‘ مالی نقصانات اور عالمی سطح پر ہماری ساکھ کی تباہی کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ ایک لمحے کی واہ واہ کے لیے دیا گیا بیان ملک کی برسوں کی محنت پر پانی پھیر سکتا ہے۔ ایک مضبوط اور مستحکم قوم کی بنیاد غیر متزلزل قیادت کے محتاط فیصلوں اور بیانات پر رکھی جاتی ہے کیونکہ قومی وقار کو کسی بھی ذاتی یا جماعتی مفاد کی خاطر قربان نہیں کیا جا سکتا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں