"RS" (space) message & send to 7575

خان صاحب کا سیاسی مستقبل

بانی پی ٹی آئی عمران خان جیل میں ہیں‘ وہ اس کی تمام تر ذمہ داری مقتدرہ اور اپنے سیاسی حریفوں پر ڈالتے ہیں‘ ان کے اس الزام کو درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا انہوں نے اس بحران سے نکلنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کی؟ اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ جب بھی مذاکرات کی بات چلتی ہے تو خان صاحب شرائط عائد کر دیتے ہیں اور برملا کہتے ہیں کہ وہ کسی صورت سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ایسے ماحول میں جہاں ایک فریق لچک دکھانے کو تیار نہ ہو اور مصالحت کے بجائے تصادم کو ترجیح دے‘ وہاں بات چیت کا عمل کیسے آگے بڑھ سکتا ہے؟ خان صاحب کا سخت گیر اور غیر لچکدار رویہ ان کی موجودہ مشکلات کی بڑی وجہ ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو بھی سخت ترین حالات سے دوچار ہونا پڑا۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی‘ بے نظیر بھٹو کو جلاوطنی اور قید کا سامنا کرنا پڑا جبکہ میاں نواز شریف بھی کئی بار جیل گئے‘ ان کی حکومتیں گرائی گئیں۔ مشرف دور میں انہیں خاندان سمیت جلاوطن کیا گیا لیکن ان جماعتوں نے مزاحمت کے ساتھ ساتھ مذاکرات اور حکمت عملی کا راستہ بھی اپنایا۔انہوں نے اپنے کارکنوں کو بھی مایوس نہیں ہونے دیا یہی وجہ ہے کہ ہر بحران کے بعد یہ جماعتیں پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ ابھر کر سامنے آئیں۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی نے ہر قدم عجلت میں اٹھایا اور ایک کے بعد ایک ایسی غلطی کی جو اس کی طاقت کو کمزور کرتی گئی۔
سیاسی جماعت کی اصل طاقت اس کے کارکنان ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی نے اپنے کارکنوں کو ''حقیقی آزادی مارچ‘‘ اور دیگر احتجاجی کالز کے ذریعے اس قدر تھکا دیا کہ ان میں اب دوبارہ سڑکوں پر نکلنے کا جذبہ کمزور ہو چکا ہے۔ بغیر کسی واضح مقصد کے بار بار احتجاج سے کارکنوں میں مایوسی اور بے مقصدیت کا احساس پیدا ہوا۔ 9 مئی کے واقعات نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پارٹی کے لیے اپنے کارکنوں کو دوبارہ متحرک کرنا ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ سیاسی بصیرت کا تقاضا تھا کہ متحرک کارکنوں کی توانائی کو غیر ضروری طور پر ضائع کرنے کے بجائے اسے منظم کیا جاتا اور صرف فیصلہ کن مواقع کے لیے محفوظ رکھا جاتا۔ پی ٹی آئی کی دوسری بڑی کمزوری اس کے داخلی اختلافات ہیں۔ ایک مضبوط سیاسی جماعت کی قیادت مشکلات میں متحد رہتی ہے لیکن پی ٹی آئی میں اختلافات کی خبریں وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہتی ہیں۔ خیبرپختونخوا میں حکومت ہونے کے باوجود صوبائی قیادت کا آپس میں اختلافات میں الجھے رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ پارٹی اندرونی طور پر مستحکم نہیں۔ اس داخلی انتشار نے نہ صرف کارکنوں کے حوصلے پست کیے بلکہ پارٹی کی عوامی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ سیاسی بصیرت رکھنے والی جماعتیں اندرونی اختلافات کو چھپا کر یا حل کر کے ایک متحد چہرہ پیش کرتی ہیں‘ پی ٹی آئی مگر ایسا مظاہرہ نہ کر سکی۔ پاکستان تحریک انصاف نے ماضی میں صوبائی اور قومی اسمبلیوں کو تحلیل کر کے ایک بڑی سیاسی غلطی کی تھی۔ اب قائمہ کمیٹیوں کی رکنیت سے استعفے دے کر اسی غلطی کو ایک بار پھر دہرایا جا رہا ہے۔ پارلیمانی نظام میں قائمہ کمیٹیاں حکومت کو جوابدہ ٹھہرانے اور قانون سازی کے عمل میں اپوزیشن کے کردار کے لیے نہایت اہم ہوتی ہیں۔ یہ کمیٹیاں اپوزیشن کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرتی ہیں جہاں وہ نہ صرف بلوں پر تفصیلی بحث کر کے ان میں ترامیم تجویز کر سکتی ہے بلکہ مختلف وزارتوں اور محکموں کی کارکردگی کا جائزہ لے کر حکومت کا احتساب بھی ممکن بناتی ہے۔ اسی طرح قائمہ کمیٹیاں اپوزیشن کو اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے اور حکومت کے ساتھ بات چیت کے دروازے کھلے رکھنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں۔ قائمہ کمیٹیوں سے استعفے دے کر پی ٹی آئی نے نہ صرف اپنی پارلیمانی طاقت گنوا دی ہے بلکہ حکومت کو پارلیمنٹ کے اندر جوابدہ ٹھہرانے کا ایک اہم موقع بھی ضائع کر دیا ہے۔ ایسے موقع پر پی ٹی آئی نے گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ حاجی گلبر خان اور پی ٹی آئی کے 10 اراکین جی بی اسمبلی‘ جن میں 9 وزرا بھی شامل ہیں‘ کو پارٹی کے خلاف سازش کرنے‘ فارورڈ بلاک بنانے اور پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے کے الزام میں برطرف کر دیا۔ یہ فیصلہ اس بات کا عکاس ہے کہ پارٹی پارلیمانی سیاست کے بجائے سڑکوں کی سیاست کو ترجیح دے رہی ہے‘ پی ٹی آئی کے اس طرزِ سیاست کو قطعی طور پر دانشمندانہ سیاسی حکمت عملی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
خان صاحب کی سیاسی جدوجہد آج ایک ایسے دوراہے پر ہے جہاں ان کے فیصلوں نے ان کی پارٹی کو غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ ان کی سیاست میں عوامی مقبولیت تو ہے مگر اس کے ساتھ حکمت‘ بصیرت اور لچک کا فقدان نظر آتا ہے۔ خان صاحب کے بیانات اور فیصلوں سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ وہ مذاکرات پر تصادم کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ سیاسی مسائل کا حل سیاسی میز پر ہی ممکن ہوتا ہے۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی وہ بحرانوں کا شکار ہوئیں‘ تو انہوں نے لچک اور بات چیت سے ہی راستے تلاش کیے۔ خان صاحب نے مگر اس روایت کو نظر انداز کیا ہے۔ خان صاحب کو جذباتی سیاست کے بجائے حقیقت پسندی پر مبنی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔ خان صاحب اس وقت قید میں ہیں اور ان پر متعدد مقدمات ہیں جن سے باہر نکلنے کا واحد راستہ قانونی اور آئینی طریقہ کار ہے۔ سوشل میڈیا پر دیے گئے بیانات رائے عامہ کو تو ہموار کر سکتے ہیں‘ لیکن ان سے قانونی مقدمات میں کوئی ریلیف نہیں ملتا۔ سیاسی میدان میں کامیابی کے لیے ٹھوس اور لچکدار منصوبے کی ضرورت ہوتی ہے‘ جو خان صاحب کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر بنانا ہو گا۔
باجوڑ میں دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن علاقے کو شدت پسند عناصر کی دوبارہ آماجگاہ بننے سے روکنے کیلئے شروع کیا گیا‘ جرگے کے ذریعے مصالحت کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی تھیں آخری حل کے طور پر آپریشن شروع کیا اور کافی حد تک علاقہ کلیئر ہو چکا ہے‘ اب خان صاحب کی طرف سے صوبائی حکومت سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اس آپریشن کو رکوائے کیونکہ اس سے اہلِ علاقہ کو پریشانی کا سامنا ہے۔ اس کے پیچھے بھی عوامی حمایت حاصل کرنا مقصود ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ خان صاحب جیل میں ہوتے بھی عوام کو مشکلات سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔ خان صاحب کا یہ عمل بھی ظاہر ہے وفاق کے خلاف ہے‘ قومی سلامتی سے متعلق بیانات دیتے وقت جس محتاط رویے کی ضرورت ہوتی ہے خان صاحب بالعموم اس رویے کو ترجیح نہیں دیتے ہیں۔ ان کا موجودہ حالات کو سقوطِ ڈھاکہ سے تشبیہ دینا نہ صرف غیر حقیقت پسندانہ ہے بلکہ تاریخی حقائق سے بھی متصادم ہے۔ آج کے حالات 1971ء سے بہت مختلف ہیں۔ پاکستان کے عوام پہلے سے کہیں زیادہ باشعور اور سیاسی طور پر فعال ہیں لیکن خان صاحب نے اس عوامی شعور کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کے بجائے اسے صرف اپنی ذاتی جدوجہد کا حصہ بنا لیا ہے۔ خان صاحب کی سیاسی تقدیر اب ان کی اپنی حکمت عملی پر منحصر ہے۔ اگر وہ اپنی سخت گیر پوزیشن کو ترک کر کے دانشمندی اور لچک کا مظاہرہ کریں تو نہ صرف اس بحران سے نکل سکتے ہیں بلکہ ایک نئی قوت کے طور پر دوبارہ ابھر بھی سکتے ہیں‘ تاہم اگر وہ اسی غیر لچکدار مؤقف پر قائم رہے تو یہ بحران ان کی پارٹی اور سیاسی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں