ملکِ عزیز کی گزشتہ دو دہائیوں کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ اس عرصہ میں قومی استحکام میں دو سیاسی جماعتوں کی مفاہمت اور سیاسی تدبر کا اہم کردار رہا ہے۔ فروری 2024ء کے عام انتخابات کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان جو حکومتی بندوبست عمل میں آیا‘ وہ بظاہر مجبوری لگتا ہے مگر درحقیقت یہ سیاسی پختگی اور قومی مفاد کی ترجیح کا شاندار مظہر ہے۔ یہ درست ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی موجودہ حکومت کی بقا پیپلز پارٹی کی حمایت پر منحصر ہے مگر اسی نازک توازن میں مستقبل کی کامیابیوں کا راز پنہاں ہے۔ یہ حکومتی سیٹ اَپ بتاتا ہے کہ دونوں جماعتیں اپنے اختلافات کے باوجود لندن میں طے پانے والے میثاقِ جمہوریت کی پاسداری کا عزم رکھتی ہیں۔ حکومت سازی کے عمل کا سب سے غیرروایتی اور تاریخی فیصلہ پیپلز پارٹی کی جانب سے وفاقی وزارتوں سے دستبرداری تھا۔ ماضی میں پی ڈی ایم حکومت کے دورمیں اور اس سے قبل کی حکومتوں میں ہم بارہا دیکھ چکے ہیں کہ اختیارات کی تقسیم اور ہر اتحادی کو خوش کرنا آسان کام نہیں۔ اتحادی بن کر کچھ وزارتیں تو لے لی جاتی ہیں مگر کوئی بھی اتحادی حکومتی فیصلوں کی مکمل ذمہ داری قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ اس تناظر میں حکومتی اتحادی ہوتے ہوئے بھی پیپلز پارٹی کا وزارتیں نہ لینے کا مؤقف سیاسی بالغ نظری کی دلیل ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے پیپلز پارٹی کے اس فیصلے کو ایک موقع کے طور پر دیکھا۔ حکومت کو یکسوئی کے ساتھ ملکی معاملات بالخصوص معاشی بحران سے نمٹنے کا مکمل اختیار مل گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کو ہر چھوٹے بڑے فیصلے کیلئے اتحادیوں کی لمبی فہرست کو راضی کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ یک جماعتی کنٹرول اور مضبوط فیصلہ سازی ہی ہے جس کے باعث حکومت نے معاشی اور اقتصادی میدان میں کئی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ یہ مسلم لیگ (ن) کی حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے کہ وہ مشکل فیصلے کر کے ملک کو استحکام کی راہ پر گامزن کر رہی ہے۔ درحقیقت پیپلز پارٹی کا حکومت سے باہر رہنا مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی اور جوابدہی کو شفافیت فراہم کرتا ہے جو مضبوط حکمرانی کی علامت ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ ہمارے ہاں جمہوری اقدار پنپ رہی ہیں۔ مثالی باہمی تعاون کے باوجود اتحادیوں کے تعلقات میں ناراضی اور تحفظات کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان حالیہ کشیدگی سیلاب متاثرین کی امداد کے معاملے پر سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی نے اپنی پہچان اور فلاحی ویژن کو مدنظر رکھتے ہوئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت متاثرین کو فنڈز فراہم کرنے کی خواہش ظاہر کی‘ جس پر حکومتِ پنجاب نے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ حکومتِ پنجاب کا یہ مؤقف درست تھا کہ پیپلز پارٹی اس اقدام سے سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ حکومتِ پنجاب سیلاب متاثرین کی مدد اپنے طریقۂ کار اور صوبائی دائرہ کار کے تحت کرنا چاہتی ہے تاکہ امداد کی تقسیم میں مکمل جوابدہی اور شفافیت رہے۔ امدادی کارڈز پر مریم نواز کی تصویر کا فیصلہ بھی صوبائی حکومت کی خود مختاری اور سیاسی ویژن کا عکاس ہے۔ اس اقدام سے مسلم لیگ (ن) نے صوبائی معاملات میں سیاسی مداخلت کے دروازے بند کرکے مشکل مگر اصولی سیاست کا راستہ اختیار کیا۔
دونوں جماعتوں کی سیاسی تاریخ اور مزاج سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان موجودہ اختلافات محض وقتی ابھار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں اپنے قائدین کی رہنمائی میں نظام کو چلتا رہنے دینے اور میثاقِ جمہوریت کو قائم رکھنے کا عزم رکھتی ہیں۔ 2008ء تا 2013ء‘ پیپلز پارٹی کی حکومت کو جب دہشت گردی‘ توانائی بحران اور عدالتی محاذ آرائی جیسے شدید بحرانوں کا سامنا تھا تو مسلم لیگ (ن) نے میثاقِ جمہوریت کا پاس رکھا حالانکہ اس وقت مسلم لیگ (ن) پر ''فرینڈلی اپوزیشن‘‘ ہونے کے الزامات بھی لگے لیکن جمہوری استحکام کی خاطر میاں نواز شریف کی قیادت نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو گرنے نہیں دیا۔ اسی طرح 2013ء تا 2018ء‘ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو خان صاحب کے آزادی مارچ کے باعث درپیش بڑی احتجاجی تحریک کا سامنا کرنا پڑا تو اس وقت پیپلز پارٹی کی قیادت نے اصولی مؤقف اپنایا۔ آصف علی زرداری کی جانب سے میاں نواز شریف کو یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ وہ ڈٹ جائیں ان کی حکومت نہیں گرنے دی جائے گی۔ یہ تعاون اس قدر مضبوط تھا کہ میاں نواز شریف کو اقامہ کیس میں نااہل کرنے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم رہی۔
بڑی جماعتوں کی قیادت میں جمہوری عمل کی یہ سوچ اس لیے بھی ناگزیر ہے کہ ملک کو اس وقت ماضی کے بحرانوں سے کہیں زیادہ سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے کمزور معیشت کو سنبھالا ہے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ کیے گئے سخت معاہدوں پر عمل درآمد جاری ہے۔ اس نازک موڑ پر کسی بھی قسم کا سیاسی عدم استحکام‘ چاہے وہ اتحادیوں کی ناراضی کی صورت میں ہو یا اپوزیشن کی محاذ آرائی کی شکل میں‘ معاشی بحالی کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ وفاقی حکومت کی ناکامی کا بالواسطہ اثر ملک کے مجموعی نظام اور صوبائی معیشت پر پڑے گا۔ وزارتوں سے دوری کے باوجود پارلیمان کے اندر اہم قانون سازی میں تعاون فراہم کرنا پیپلز پارٹی کے قومی مفاد کو ترجیح دینے کے عزم کو تقویت دیتا ہے۔ یہ سیاسی تدبر وقتی نہیں بلکہ طویل مدتی ویژن کا عکاس ہے ایسے میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا بھی فرض بنتا ہے کہ اتحادیوں کی اہمیت کو نظرانداز نہ کرے۔ اگرچہ یک جماعتی کنٹرول تیزی سے فیصلے کرنے میں مدد دیتا ہے لیکن مشاورتی عمل اور اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لینا جمہوری نظام کی اساس ہے۔ یہ یقینی بنانا ہو گا کہ پیپلز پارٹی کے جائز تحفظات کو دور کیا جائے اور ایسے معاملات جہاں وفاق اور صوبوں کے دائرہ کار میں مداخلت کا شبہ ہو‘ وہاں سیاسی لچک کا مظاہرہ کیا جائے۔ پاکستان کے عوام نے دونوں بڑی جماعتوں کو آئینی اداروں کو چلانے کا مینڈیٹ دیا ہے‘ اور اس مینڈیٹ کی تکمیل کیلئے سیاسی یکجہتی کو ہر صورت برقرار رکھنا ہو گا۔
لندن میں طے پانے والا میثاقِ جمہوریت محض ایک معاہدہ نہیں تھا بلکہ ملک کی بڑی سیاسی قوتوں کا وہ تاریخی عہد تھا جس نے آئینی حکمرانی کی پائیداری کی بنیاد رکھی۔ موجودہ اتحادی تعلقات اور ان میں پیدا ہونے والی عارضی کشیدگی کا حل بھی اسی میثاق کی روح میں پنہاں ہے۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری دونوں اس عہد کے معمار اور پاسدار ہیں اور ان کی قیادت کا مضبوط ہاتھ موجودہ صورتحال کو بگاڑ کے بجائے سیاسی سدھار کی طرف لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دونوں قائدین بخوبی جانتے ہیں کہ سیاسی محاذ آرائی کا فائدہ صرف ان قوتوں کو پہنچتا ہے جو جمہوری عمل کو پٹڑی سے اتارنا چاہتی ہیں لہٰذا امید یہی ہے کہ جو اختلافات سیلاب متاثرین کی امداد یا صوبائی مداخلت جیسے معاملات پر نظر آ رہے ہیں وہ بات چیت اور مفاہمت سے حل ہو جائیں گے۔ دونوں جماعتوں نے گزشتہ دو دہائیوں میں ایک دوسرے کی حکومتوں کو آئینی مدت پوری کرنے میں جس طرح تعاون فراہم کیا ہے‘ وہ سیاسی بلوغت کا عملی نمونہ ہے۔ ملک کی دونوں بڑی جماعتوں میں جب تک میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری موجود ہیں‘ تب تک وہ میثاقِ جمہوریت کی پاسداری کریں گے۔