کس کو معلوم نہیں کہ تازہ ہوا اور صاف پانی فطرت کے تحفے، اور انسانی، حیوانی اور نباتاتی زندگی اور صحت کی بنیادی ضرورت ہیں۔ پاکستان کے شہروں میں بسنے والوں کو اب یہ نصیب نہیں۔ بارش کے بعد شاید چند گھنٹوں تک فضا گردوغبار، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کے دھوئیں سے پاک رہے؛ تازہ ہوا میں سانس لینے کا صرف یہی ایک مختصر وقفہ ہوتا ہے۔
کسی کو پروا نہیں کہ ہم کس طرح آلودگی پھیلا رہے ہیں۔ درحقیقت ہم آلودگی میں زندگی بسر کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ چند روز قبل کئی دہائیوں کے بعد لاہور کی بیڈن روڈ کے ایک قدیمی ریستوران میں ایک عشائیے سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ ریگل چوک کی مخالف سمت پیدل چل کر وہاں پہنچا۔ وہاں ایک سے زیادہ کھانے پینے کی مشہور جگہیں، بجلی کے سامان کی بے شمار دکانیں اور آئس کریم بار موجود ہیں۔ دونوں جانب دیکھنا، اور ہر سمت دوڑتے ہوئے موٹر سائیکلوں سے ٹکرانے سے بچنا آسان کام نہ تھا۔ پیدل چلنے والوں سے کہیں زیادہ موٹر سائیکل تھے۔ چلتے ہوئے دائیں، بائیں، سامنے، پیچھے، ہر طرف سے برق رفتاری سے نمودار ہونے والے بائیکرز سے بچنا ایک سعیٔ پیہم تھی، دم بھر غفلت کی گنجائش نہ تھی۔ ہر آن دھڑکا سا لگا ہوا تھا کہ بپھرے ہوئے بائیک کی زد میں نہ آ جائیں۔ اس سے پہلے بھی کئی شہروں میں اس ابتلا سے گزر چکا ہوں۔ مشاہدے کے لیے شہروں اور دیہات کی گلیوں میں چلنا ضروری ہوتا ہے۔ آج بھی بس جی چاہ رہا تھا کہ لاہور کے ان علاقوں کو دیکھوں جہاں طالب علمی کے زمانے میں گھوما کرتے تھے۔ ماضی میں کھو جانے کی تمنا تھی، بشرطیکہ کوئی موٹر سائیکل سوار ہسپتال نہ پہنچا دے۔ خیر اس برق رفتار ٹریفک کے بے ہنگم بہائو کے بیچ چلتا، بچتا، سمٹتا، گاہے لڑکھڑاتا، اور ان تمام سرگرمیوں کے درمیان دھوئیں اور گردوغبار سے بوجھل فضا میں سانس لینے کی جبری مشقت سے گزرتا سوچ رہا تھا کہ روزانہ ان تنگ سڑکوں پر آنے جانے والے دکاندار، تاجر، ٹھیلے والے، سبزی فروش، گاہک اس آلودہ ماحول میں کس طرح زندگی بسر کرتے ہیں؟
ہر سمت پھیلتے ہوئے لاہور میں آلودگی جان نہیں چھوڑتی۔ میری یونیورسٹی ڈی ایچ اے میں ہے، جسے جدید شہری آبادی کہا جا سکتا ہے۔ یہاں بھی کھڑکیاں اور دروازے بند رکھنے کے باوجود گاڑیوں سے نکلتا دھواں نہ صرف فضا میں معلق رہتا ہے، بلکہ کمرے کی ہر چیز پر کاربن کی تہہ سی بنا دیتا ہے۔ زندگی نام ہی سانس لینے کا ہے۔ ہمارے پھیپھڑے، دل اور خون کی باریک نالیاں کس قدر جلے ہوئے ڈیزل اور پٹرول کا دھواں برداشت کرنے کی سکت رکھتی ہیں؟ ہم کب تک فطرت سے لڑتے ہوئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھ سکتے ہیں؟
گریٹا تھنبرگ ابھی سکول کی بچی ہے، مگر موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اس قدر متحرک کہ سنجیدہ سیاست دان، ماحولیاتی تحریک کے کارکن اور عام شہری اُس کے جذبے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ گزشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کی طرف سے منعقد کی جانے والی عالمی کانفرنس نیویارک میں ہوئی تو نوجوان گریٹا نے للکار کر کہا کہ ہماری نسل کو، آپ کو، جرأت کیسے ہوئی کہ آپ اپنے طرزِ زندگی سے دنیا میں آنے والے بچوں کو صاف ہوا اور پانی سے محروم کر دیں۔ یہ عالمی میڈیا کا کمال ہے کہ معاشرتی، ماحولیاتی اور انسانی حقوق کی تحریکیں جہاں بھی اٹھتی ہیں، جو بھی اُنہیں منظم کرتا ہے، اُن کی آواز دور دور تک گونجتی ہے۔ مغرب کو اس بات کا احساس ہے، لیکن ترقی کے نام پر موسمیاتی تبدیلیوں سے چشم پوشی اور بات ہے۔ خود غرضی کی انتہا ہے کہ اپنی دولت کی مزید افزائش کے لیے نہ بگڑتے ہوئے ماحول کے اثرات کی پروا ہے، نہ اپنی ذمہ داری کا احساس۔
صنعتی انقلاب کے پھیلتے ہوئے عالمی اثرات نے ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں ایسے طاقتور اقتصادی اور سیاسی طبقات پیدا کر دیے ہیں جن کا مفاد مغرب جیسا صنعتی ڈھانچہ اور صارف پر مبنی معاشرہ قائم کرنے میں ہے۔ اس کا اوّلین، اور دائمی اصول یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیدا کرو، زیادہ سے زیادہ بیچو، اور زیادہ سے زیادہ صرف کرو۔ مشینیں چلیں گی، ہر طرح کی اشیا تیار ہوں گی، منافع ہو گا، اور ہاں، لوگوں کو روزگار بھی ملے گا۔ اس کے ساتھ معاشی رفتار کا پُرکشش اصول جڑا ہوا ہے کہ صنعتکار کی خوشحالی کا مثبت اثر رفتہ رفتہ زیریں طبقات پر ہو گا، تمام معاشرہ خوشحال ہو جائے گا، غربت ختم ہو جائے گی۔ واہ، کیا عمدہ تصور ہے!
مغرب کی ترقی کی مثالیں دے کر نوآبادیاتی نظام سے لے کر موجودہ نوآبادیاتی نظام تک ہم نے خود کو، اور اپنی آنے والی نسلوں کو دھوکہ دیا ہے۔ حرص، لالچ اور دولت کی دھن میں بے لگام معاشروں میں یہ بات کرنا کہ صنعتی انقلاب نے جو تباہ کاری مغرب میں ماحولیاتی اعتبار سے کی ہے، ذرا اُس کی طرف دھیان کر لیں، اتنا آسان نہیں۔ مگر یہ بات دھرائی جانی چاہیے۔ مغرب کی غلطیوں سے سیکھنا ہو گا۔ اس وقت سائنسدان اور سو چ سمجھ رکھنے والے حلقے عالمی درجہ حرارت کے خطرناک حد تک بڑھ جانے کی طرف توجہ دلا رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ کاربن ایندھن کا استعمال ہے۔ دوسری طرف ہمارے سابق حکمران ساہیوال جیسے زرعی خطے میں کوئلے سے چلنے والے بجلی کے پلانٹس لگاتے رہے۔ پتا نہیں پرویز مشرف کہاں سے شوکت عزیز کو ڈھونڈ لائے تھے؟ اُن کی یہ بات آج تک سمجھ میں نہیں آئی کہ اُنھوں نے کس طرح پاکستان کے بینکاری نظام کو جاپان کی کارساز کمپنیوں کا سہولت کار بنا دیا۔ کمپنیاں بڑی تعداد میںکاریں بنائیں، بینک اُنہیں فنانس کریں، ملک تیل کی درآمد بڑھائے، اور لوگ کاریں چلائیں۔ اُن کے نزدیک معاشی ترقی کا یہی پیمانہ تھا۔ یہ کھیل صرف کمزور ریاستوں میں ہی کھیلے جاتے ہیں۔ صنعتی ترقی کا ماحول، قدرتی وسائل اور معمول کی انسانی ضروریات کے تابع ہونا ضروری ہے‘ لیکن یہاں تو ایک خوفناک کھیل رچایا گیا، جس کے اثرات ہر گلی، ہر گھر اور ہر انسانی جسم کے خلیوں تک پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
''اسیرانِ جمہوریت‘‘ اور جمہوریت کے علمبرداروں کے کارناموں کو بھی سامنے رکھیں۔ متوسط اور بالا طبقات کے لوگ جب موٹروے پر گاڑیاں دوڑاتے ہیں تو میاں نواز شریف کی عقل اور بصیرت پر اش اش کر اٹھتے ہیں کہ دیکھو، اگر یہ نہ بنائی جاتی تو پرانی قومی شاہراہوں پر ہماری گاڑیاں تانگوں اور سائیکلوں کی بھیڑ میں پھنس جاتیں۔ درست، مگر متبادل تو پاکستان ریلوے کو جدید کرنا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ٹرین ڈیزل انجن کی بجائے بجلی کے انجن سے چلائی جاتی (کئی دہائیاں پہلے لاہور اور خانیوال کے درمیان ٹرین بجلی سے چلتی تھی)، لیکن ایک منصوبے کے تحت حکمرانوں نے ریلوے کو تباہ کر دیا تاکہ نجی بس کمپنیوں کی چاندی ہو۔ اب اس چاندی نے فضا کو دھوئیں سے بھر دیا ہے۔ اربن ٹرانسپورٹ پر پھر کبھی بات ہوگی، لیکن محض یاددہانی کیلئے کہنا ہے کہ لاہور، اسلام آباد اور پنجاب کے دیگر شہروں کے اندر اور شہروں کے درمیان چلنے والی سرکاری بس سروس کو کس نے ختم کیا؟ جی وہی میاں نواز شریف۔ عذر یہ تھا کہ خسارے میں ہے، نیز حکومت کا کام بسیں چلانا نہیں۔ ستم یہ کہ ایک عشرے کے بعد اُن کے ذہن میں میٹرو بنانے کا خیال آن دھمکا۔ بس پھر کیا تھا، نہایت تندی سے میٹرو منصوبے پر کام شروع ہو گیا۔ بہت نقصان ہو چکا، مگر اب ازالہ ممکن نہیں۔
لاہور کے قریب کبھی صاف‘ شفاف پانی والا دریائے راوی بہتا تھا، لیکن اب یہ بدبودار، سیاہ پانی والے گندے نالے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ لاہور شہر کا گندہ پانی، اور صنعتوںکے بیکار مادے اس میں بلا روک ٹوک گرائے جاتے ہیں۔ کبھی رنگ روڈ پر سفر کریں تو سٹیل ملوں کا سیاہ دھواں لاہور کو گھیرے میں لیتا دکھائی دیتا ہے۔ کہاں ہیں ہماری حکومتیں؟ ہماری شہری تنظیمیں؟ سب کو کسی مسیحا کی تلاش ہے کہ کوئی آئے گا اور بگڑے ہوئے ماحول کو صاف کر دے گا۔ یہ سب خود فریبی ہے۔ خطرے کے پیشِ نظر شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبانے کے مترادف۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کو ایک سماجی، سیاسی اور مذہبی مسئلے کے طور پر اجاگر کیا جائے، کہ پاکیزگی تو جزوِ ایمان ہے۔ منصوبہ بندی ماحولیاتی عوامل سے ہم آہنگ ہو۔ خدا کے لیے ایک بے لگام صارف معاشرہ پیدا نہ کریں۔ ہمیں جدید، د ل فریب، چکاچوند ترقی کے فلسفے کو رد کرکے اپنے ماحول سے ہم آہنگ ترقی کے نظریے کو اپنانا ہو گا۔ ہمیں کسی ایسی ترقی یا خوشحالی کی ضرورت نہیں جس کے نتیجے میں ہم صاف ہوا میں سانس بھی نہ لے سکیں۔