"RBC" (space) message & send to 7575

جو کام کوئی نہ کر سکا

پاکستان، دنیا اور ہر جگہ سب کچھ کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ سمت متعین ہو، دل میں تڑپ ہو، جذبہ موجزن اور رہنما استقلال، ہمت اور خلوص کا پیکر ہو۔ کام چاہے معمول کی سرگرمی ہو یا کوئی بڑا منصوبہ، اس کی انجام دہی کے لیے ریاضت، محنت اور لگن درکار ہوتی ہے۔ کئی دہائیوں سے قومی سوچ پر طاری جمود، سیاست اور اقتدار پر قابض چند خاندان اور کرپشن کا راج مایوسی کے سوا کیا دے سکتا تھا۔ اچھے کام کو پہچاننے، اور اس کی تعریف کرنے میں تامل فطری بات ہے۔ سب سے بڑھ کر سیاسی جانب داری کا رجحان، جو میرے نزدیک معاشرے میں تقسیم پیدا کرنے اور پروان چڑھانے کا موجب ہے، مخالف کے قابلِ تعریف اور قابلِ تقلید اقدامات کو منفی انداز میں پیش کرتا ہے۔ پلاسٹک کے تھیلوں کا استعمال اسلام آباد کی شہری اور دیہی آبادیوں میں قانوناً ممنوع قرار دینا، اور اس پر عمل کرانا کوئی معمولی کام نہیں۔ ان پلاسٹک کے تھیلوں کو عوامی زبان میں شاپرز کہا جاتا ہے؛ حالانکہ انگریزی مفہوم کے مطابق شاپرز کا مطلب خریدار ہوتا ہے۔ بہرحال ہمارے ہاں پلاسٹک کے تھیلوں کے لیے یہی لفظ مستعمل ہے۔ ان صفحات پر بہت سے قلم کار اور مبصرین ماحولیاتی آلودگی، خصوصاً ان شاپرز کے استعمال میں بے پناہ اضافے، ان کی وجہ سے گلی کوچوں میں آلودگی اور آبی گزرگاہوں میں رکاوٹ پر لکھتے رہتے ہیں۔ ان پر پابندی نہ لگانے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ہم سب کی سنی گئی ہے۔ حکومت نے اسلام آباد میں شاپرز کا استعمال ممنوع قرار دے دیا ہے۔ یہ اچھا اقدا م ہے۔ ایسا کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن یہ قانون باقی ملک کے لیے کیوں نہیں؟
ماحولیات کی تحریک سے وابستہ سب لوگوں کے ذہن میں یہ سوال موجود ہے۔ قیاس ہے کہ حکومت زیادہ محاذ نہیں کھولنا چاہتی۔ دوسرے، وہ ایک محدود پیمانے پر تجربہ کرنا چاہتی ہے کہ ایک شہر میں اس قانون کا نفاذ کیسے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ وہ تجارت کے پیشے سے وابستہ لوگوں اور عام شہریوں کا ردِ عمل بھی معلوم کرنا چاہتی ہو گی۔ خاکسار کو کئی جگہوں پر جانے اور خریداری کرنے کا اتفاق ہوا ہے جہاں شاپر کے متبادل کپڑے کے تھیلے، جو وہیں خرید کیے جا سکتے ہیں، دستیاب ہوتے ہیں، یا خاکی کاغذ کے لفافے استعمال کیے جاتے ہیں۔ کم از کم بڑی دکانوں نے شاپرز ترک کر دیے ہیں۔ لیکن ہر جگہ ایسا نہیں۔ کوہسار مارکیٹ میں پرچون کی واحد دکان کھلم کھلا شاپرز استعمال کر رہی ہے۔ اُن کی فرسودہ دلیل یہ تھی کہ اُن کے شاپرز قابلِ تحلیل ہیں۔ شاپرز بنانے والی کمپنیوں نے ایک نشان بنا کر لکھنا شروع کر دیا ہے کہ یہ تحلیل ہو جائیں گے۔ لیکن یہ سب دھوکہ ہے۔ دنیا میں ابھی تک ایسا کوئی کیمیاوی عمل دریافت نہیں کیا جا سکا جو شاپرز کو مٹی کے قدرتی ذرات میں تبدیل کر دے۔ 
ڈھیل کا وقت اب ختم ہو جانا چاہیے۔ قانون پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔ مزید ڈھیل سے اس قانون کا حشر بھی وہی ہو سکتا ہے جو بلوچستان کے قانون کا ہوا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو اس قانون کے مطابق جرمانے کیے گئے ہوں، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تھوک دکانوں پر توجہ ہے جو شاپر بیچنے کا کاروبار کرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک دکان اسلام کی سب سے بڑی مارکیٹ میں ہفتے کے دن تلاش کی۔ اس کی شیلفوں پر ہر قسم کے لفافوں اور تھیلوں کو دیکھا۔ شاپرز بالکل موجود نہیں تھے۔ ان کے متبادل کے طور پر خاکی لفافے موجود تھے۔ اس کے علاوہ ردی اخبار سے بنائے گئے لفافے، کپڑے اور پلاسٹک کے تھیلے جو بار بار استعمال کیے جا سکتے ہیں، موجود پائے۔ ماحول کی صفائی کے احساس کی نسبت جرمانے کا خوف غالب ہے۔ ایک نہیں، تین مختلف پھل والوں کے پاس گیا‘ سب خاکی لفافے میں پھل ڈال رہے تھے۔ لیکن اس دوران تبدیلی سرکار کو کھر ی کھری بھی سنا رہے تھے۔ اکثر کا کہنا تھا کہ کیا صرف اسلام آباد پر ایک قانون لاگو کر کے تمام پاکستان کو صاف کیا جا سکتا ہے؟ ایک مایوسی یہ بھی تھی کہ جب پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہو گی تو شاپرز دوبارہ واپس آ جائیں گے؛ چنانچہ وہ ناحق تکلیف اٹھا رہے ہیں۔
یہ خدشہ بے بنیاد نہیں، مگر مایوسی کی کوئی بات نہیں۔ اس دوران لوگوں کا مزاج، اقدار اور ترجیحات تبدیل کرنا ضروری ہے۔ اصل تبدیلی تو عوام کی سوچ میں لانی ہے۔ اس کے بغیر قانون کی طاقت اور گرفت کمزور رہے گی۔ دوسری طرف یہ دلیل بھی وزنی ہے کہ قانون کی سختی کے بغیر بگڑے ہوئے مزاج اور عادات تبدیل نہیں ہوتیں۔ اسلام آباد میں شہری ماحول کو آلودگی سے پاک کریں۔ دیگر شہر بتدریج اس کی پیروی کرتے جائیں گے۔ 
اسلام آباد میں شاپرز کے علاوہ بھی بہت سے مسائل ہیں، لیکن چلیں ابتدا تو ہوئی۔ شاپرز پر مکمل پابندی اور اسے مطلق برداشت نہ کرنے کی حکومت کی سنجیدگی اس قانون کو کامیاب بنائے گی۔ اس شہر میں زیادہ تر کا تعلق نوکر شاہی، تجارت، تعلیم اور خدمات کے شعبوں سے ہے۔ کچھ شعور بھی موجود ہے، ذرا ہلکی سی ٹھوکر کی ضرورت تھی۔ مجموعی صورت دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ اس کا اثر ہو چکا۔ جن افراد سے اس ضمن میں تبادلہ خیال کا موقع ملا، وہ خوش تھے کہ ہمارا شہر شاپرز کی آلودگی سے پاک ہونے جا رہا ہے۔ اس قانون سے پہلے کچھ صارفین کی عادت رہی ہے کہ وہ کپڑے یا پٹ سن کے تھیلے اپنے ساتھ لے جاتے تھے کہ شاید دیگر افراد بھی ان کی مثال کی پیروی کریں، لیکن ایسا نہ ہوا۔ اب قانون تمام خریداروں کو ایسا کرنے پر مجبور کرے گا۔ لوگ خریداری پر جانے سے پہلے کپڑے کے تھیلے تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر نہ ملیں تو اُنہیں بھی بازار سے خریدنا پڑتا ہے۔ 
ڈی ایچ اے لاہور نے چند ماہ قبل شاپرز پر پابندی کا آغاز کیا۔ وہاں فوج یا اس کے ذیلی اداروں نے جب کسی قانون پر عمل درآمد کرانا ہو تو لوگوں کے کانوں میں گھنٹیاں بجنا شروع ہو جاتی ہیں۔ خوشگوار تبدیلی لاہور کے ان علاقوں میں دیکھنے میں آئی، لیکن ہر جگہ نہیں۔ شاپرز سے جان چھڑانے کے راستے میں سب سے بڑی فرسودہ سوچ یہ ہے کہ اس کا کوئی متبادل نہیں۔ متبادل ہے، اور ہمیشہ سے ہی تھا۔ لازم ہے کہ حکومت ماحول کی پاکیزگی کو اپنا نصب العین بنائے، اور مستقل مزاجی سے ہماری زندگیوں کو پلاسٹک کے پھیلتے ہوئے زہر کے اثرات سے بچائے۔ ہمارے ملک کی شاید ہی کوئی آبی گزر گاہ، نہر، دریا، یا جھیل ہو جو شاپرز یا پلاسٹک کی استعمال شدہ بوتلوں سے پاک ہو۔ فطرت کا دائمی حسن برقرار رکھنا ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ مگر ہمارے معاشرے کے بگاڑ کی ابتدا مقتدر حلقوں کی بد عنوانی، عوام دشمنی، حرص، لالچ اور سیاست کو کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے ہوئی۔ یہ دو چار برس کا قصہ نہیں؛ چنانچہ سدھرنے میں بھی دیر لگے گی۔ لیکن ایسا ہونا ممکن ہے۔ روشن خیال سماجی حلقوں، ماحولیاتی تنظیموں اور متحرک فکری رہنمائوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عمل سے مثال قائم کریں، اور اس قومی تحریک میں اپنا حصہ ڈالیں۔
وزیر اعظم عمران خان کی مقبولیت، قومی اور عالمی شہرت اُن کی غیر روایتی سیاست، اور خصوصاً تعلیم، صحت اور ماحولیات کے شعبوں میں غیر معمولی دلچسپی بلکہ اُن کے تبدیلی کے منشور کے اہم ستون ہیں۔ خیبر پختونخوا میں ایک ارب سے زیادہ درخت لگانا ناقابلِ یقین معلوم ہوتا تھا لیکن اُن کی قیادت میں اُن کی ٹیم نے ایسا کر دکھایا۔ اب سارے ملک میں پانچ ارب درخت لگانے کا منصوبہ جاری ہے۔ اُنھوں نے ماحولیات، کرپشن اور احتساب کو ملک اور قوم کے اہم ترین سیاسی مسائل بنا دیا ہے۔ ماضی کے قومی رہنما ان امور کو نہ اہم سمجھتے تھے اور نہ ہی ان کی بابت سنجیدہ تھے۔ دنیا کے معاشروں کی سیاست اور منصوبہ بندی پر نظر دوڑائیں تو یہ مسائل ہر جگہ سرفہرست ملیں گے۔ 
کپتان کو پلاسٹک بیگز کے خلاف تحریک کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ روایتی سیاست دان اس پر کچھ حلقوں کے رد عمل سے خائف ہو جاتے تھے۔ یقینا ماحول کی صفائی سے کچھ حلقوں کے مفاد پر ضرب پڑے گی، لیکن جب شاپرز کا متبادل بازار میں دستیاب ہو گا تو مزاحمت ختم ہو جائے گی۔ اس وقت سارے ملک میں شاپرز پر پابندی نہیں۔ اس کے لیے دیر کی گنجائش نہیں، یہ پابندی آج ہی لگنی چاہیے۔ ہم پر اپنی آنے والی نسلوں کا قرض ہے۔ ہم نے اُنہیں فطری ماحول فراہم کرنا ہے جو قدرت کی منشا اور اُن کا پیدائشی حق ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں