"RBC" (space) message & send to 7575

دھرنے کا کھیل

دھرنے کی روایت تحریکِ انصاف اور عمران خان صاحب نے ڈالی تھی۔ 2014ء میں وہ مجمع لے کر ڈی چوک میں آ دھمکے تھے۔ ہر روز میلہ سا لگتا‘ ہر طرف روشنیاں، گانے، کھانے پینے کے سٹال، نوجوانوں کی یلغار، کئی خاندانوں کی بچوں سمیت آمد، الغرض شام کو خوب رونق ہوتی۔ خاں صاحب ہر روز لمبی لمبی تقاریر کرتے، گرجتے برستے، حکومت گرانے کی دھمکی دیتے، گھر بھیجنے کے دعوے کیے جاتے۔ انہوں نے دھرنے کا خوب فائدہ اٹھایا۔ کئی ماہ تک برقی ذرائع ابلاغ پر چھائے رہے۔ بد عنوانی کے خلاف بیانیہ ارزاں کیا‘ مخالفین کی بد عنوانی کی داستان سنائی؛ نئے پاکستان کی نوید دی؛ جبکہ طاہرالقادری صاحب کے متوازی دھرنے سے اُنہیں سیاسی اور نفسیاتی تال میل بھی حاصل رہا۔ عمران خان ایک طرف؛ جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں، بشمول چوہدری برادران اور قومی مہاجر تحریک دوسری جانب۔ دھرنے سے عمران خان کی سیاست، مقبولیت اور عوام میں متبادل قیادت کا تصور اجاگر ہوا۔ 
خاکسار نے تقریباً تین مرتبہ دھرنے میں جا کر حالات کا جائزہ لیا۔ ایوب خان مخالف تحریک اور ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی سیاست کا عملی حصہ رہا ہوں۔ اُن دہائیوں میں ہماری نسل کے نوجوان نظریاتی سیاست، سیاسی نظریات اور سیاسی تحریکوں کا نہ صرف مطالعہ کرتے بلکہ اُن میں سے اکثر عملی سیاست میں شریک بھی ہوتے تھے۔ تحریکِ انصاف کے دھرنے کا رنگ ہی کچھ اور تھا۔ مختلف طبقات کے لوگ، نئے حالات کے مطابق خیالات، اور خود نمائی کی سوچ اور سہولت غالب۔ دوسری طرف جن تحریکوں کا ہم حصہ تھے، اُس وقت نہ فون تھے نہ موٹر سائیکل اور نہ ہی جیب میں کچھ‘ بس ایک جذبہ، نظریہ اور جمہوریت کی بحالی کا خواب آنکھوں میں سجائے معاشی مساوات پر مبنی نظام قائم کرنے کی دھن میں زیادہ تر غریب نوجوان سڑکوں پر نکلتے۔ 
ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان کی قیادت میں دو باتیں البتہ یکساں نظر آئیں۔ دونوں ہی کرشماتی رہنما، عوام میں مقبول، اور دونوں ہی نئے پاکستان کی تعمیر کے داعی تھے۔ نئے پاکستان کا نعرہ عمران خان کا نہیں، بلکہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد تعمیر پاکستان کا جذبہ تازہ کرنے کیلئے بھٹو صاحب نے لگایا تھا۔ بھٹو صاحب کو جن مشکلات کا سامنا تھا، اُن کا اندازہ آج کے قارئین نہیں کر سکتے۔ اُنہوں نے ملک کے طول و عرض کے دورے کیے؛ راستے میں پتھرائو ہوتا؛ کئی مقامات پر رکاوٹیں کھڑی ہوتیں؛ ڈرانے کیلئے فائرنگ بھی کی جاتی۔ اس کے باوجود بڑے بڑے جلسے ہوتے؛ فقیدالمثال جلسے۔ دور دراز سے لوگ اکثر پیدل چل کر بھٹو صاحب کو سننے آتے۔ عوام کے دلوں میں اُنہوں نے جو جگہ بنائی، وہ اُن کی تیسری نسل کے بھی کام آ رہی ہے۔ یاد رہے کہ سرکاری پابندیوں کی وجہ سے اکثر اخبارات اُن کی تقریر شائع نہیں کرتے تھے بلکہ اس کا تذکرہ تک نہیں کیا جاتا تھا۔ اس کے برعکس عمران خان کے لیے ہر طرف میدان، راستے، راہداریاں کھلی تھیں۔ برقی میڈیا نے صبح شام لاکھوں گھروں تک اس دھرنے کی آواز پہنچائی۔
لیکن عمران خان صاحب کا دھرنا اپنے بنیادی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ وہ حکومت نہ گرا سکے‘ نہ ہی فی الفور دوبارہ انتخابات کا انعقاد ہو سکا۔ انتخابی دھاندلی کے الزامات نہ اُس وقت نئے تھے اور نہ آج۔ یہ بری سیاسی روایت ایک عرصہ سے قائم ہے۔ بہرحال خان صاحب گرجے تو بہت، لیکن سیاسی موسم تبدیل نہ ہوا۔ بستر گول کرکے گھر روانہ ہونے کے سوا کوئی چارہ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ باعزت واپسی کا کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔ آخرکار سانحہ پشاور نے اُنہیں واپسی کا راستہ دے دیا۔ اُس وقت تمام سیاسی جماعتیں پہاڑ کی طرح ڈٹ کر سامنے کھڑی تھیں۔ سب نے دھرنے کو جمہوریت کی روح کے منافی اور پارلیمانی اقدار پر حملہ قرار دیا۔ اس ضمن میں مولانا فضل الرحمن کی تقاریر، بیانات اور دھمکیاں میڈیا کے پاس محفوظ ہیں۔ مولانا تو یہاں تک فرما گئے تھے کہ ریاست کو طاقت استعمال کرکے دھرنا ختم کرا دینا چاہیے۔ باتیں تو دونوں جانب سے تلخ ہوتی رہیں، مگر مسلم لیگ نون کی حکومت نے بہت تحمل اور تدبر سے کام لیا۔ سب سے بڑی بات یہ ہوئی کہ اُن کی دیرینہ حریف سیاسی جماعت، پیپلز پارٹی نے سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پارلیمان کا ساتھ دیا۔کوئی شک نہیں کہ عمران خان کے دھرنے نے اُن کی سیاست کو بے پناہ فائدہ پہنچایا، لیکن ملکی استحکام، معیشت اور سیاسی رواداری بہت کمزور ہوئی۔ 
عمران خان کے دھرنے کے دوران نمایاں ہونے والی تقسیم کے خدوخال سیاسی منظرنامے پر موجود ہیں۔ شاید یہ کبھی نہ مٹ پائیں۔ ہونے والے انتخابات میں تحریکِ انصاف واضح اکثریت تو نہ لے سکی مگر حکومت بنانے میںکامیاب ہو گئی۔ ان کے سیاسی اتحادیوں کے کردار، ماضی کی سیاسی وفاداریوں اور بدعنوانی کے بارے میں سب کو معلوم ہے۔ خان صاحب کو حکومت بنانے کیلئے متعدد بار اپنا راستہ تبدیل کرنا پڑا۔ کچھ تبدیلیاں تو اُن کے اپنے اقتدار پر بھی بہت بھاری پڑ رہی ہیں۔ اگر ان کی اپنی صفوں میں موجود لوگوں کا احتساب نہ ہوا تو سیاسی مخالفین اصلی احتساب کو بھی سیاسی انتقام کا رنگ دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ 
اب مولانا فضل الرحمن کا دھرنا بھی اپنے منطقی انجام تک پہنچا۔ مولانا صاحب کے تضادات واضح ہیں۔ عمران خان کے دھرنے کے خلاف جو لب و لہجہ اُنہوں نے اختیار کیا، اُس کی روشنی میں جب ہم نے اُنہیں اسی کنٹینر پر کھڑے ہو کر حکومت گرانے اور وزیر اعظم کا استعفیٰ لینے پر اصرار کرتے دیکھا تو پاکستانی سیاست اور ہمارے سیاسی قائدین کی اخلاقی حیثیت کے بارے میں تمام اندازے تقویت پا گئے۔ تاثر ہے کہ ہمارے جیسے معاشروں کو اخلاقیات کی ضرورت نہیں کیونکہ یہاں سب کام ''اچھی نیت اور خوفِ خدا‘‘ کو مدِ نظر رکھ کر کیے جاتے ہیں۔ خاکسار سیاست کو سیاسی زاویے سے پرکھنے کا قائل ہے۔ مولانا صاحب کے دھرنے کی سیاست یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کو ناکام کیا جائے۔ وہ خدشہ محسوس کر رہے ہیں کہ اگر عمران خان کچھ کام کر گئے تو پرانے گھسے پٹے نظام سے وابستہ سیاسی خاندان اور سیاسی جماعتیں شاید دوبارہ پارلیمان میں رنگ نہ جما سکیں۔ 
حالیہ دھرنے کو وہ تمام سیاسی جماعتیں اور طاقتیں شہ دے رہی تھیں جو تحریکِ انصاف اور اس کے منشور کی کامیابی سے خائف ہیں۔ تحریک کی حکومت کے سامنے مسائل کا انبار ہے۔ تجربہ نہ ہونے کے برابر، ٹیم کی تشکیل میں بے پناہ غلطیاںاور بڑھتی ہوئی مہنگائی‘ نئے پاکستان کی کامیابی کے لیے ان مسائل کا حل ضروری ہے۔ مولانا صاحب بظاہر اپنی سیاست اور حکمتِ عملی میں خود مختار نظر آتے ہیں، لیکن ایسا ہرگز نہیں۔ دوسری سیاسی جماعتیں اس دھرنے میں شریک نہیں ہوئیں، لیکن اس سے اٹھنے والی ''قومی تحریک‘‘ میں موزوں وقت پر شامل ہوں گی۔ ایک اور بات، لازمی نہیں کہ وہ ایسا کر سکیں‘ لیکن کچھ سودے بازی کر کے اپنی قیمت ضرور وصول کریں گی ۔ کچھ اپنا سیاسی سرمایہ بچانے کی فکر کریں گی کہ کہیں دھرنے کی طرح تحریک بھی فلاپ نہ جائے۔ ابھی وہ پانی کی گہرائی کا اندازہ لگائیں گی۔
مولانا صاحب بند گلی میں پہنچ گئے تھے۔ اپنی زبان اور لہجے سے اُنہوں نے مزید راستے بند کر دیے تھے۔ حکومت نے مذاکرات کیے، عدالتی کمیشن بنانے پر آمادگی ظاہر کر کے اُنہیں پُر وقار واپسی کا سامان فراہم کر دیا تھا؛ تاہم اُنہوں نے موقع گنوا دیا۔ معلوم نہیں کہ یہ کہاں کی جرأت، تجربہ، سیاسی پختگی ہے جنہیں کچھ سیاسی مبصرین اُن سے منسوب کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاسی رقابت کے اشتعال میں اُنہوں نے سیاسی مہم جوئی کرنا چاہی تھی۔ اُنہیں کوئی پروا نہیں تھی کہ ملک اور سیاسی نظام کو کیا قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ وہ بس اپنے ہاتھوں سے تاج اچھالنا چاہتے تھے‘ لیکن یہ اُن کے بس کی بات نہیں تھی۔ دھرنوں سے حکومتیں تبدیل نہیں ہوتیں، نہ ہونی چاہئیں، نہ ہی ہوں گی۔ دھرنے کی نا کامی نے ثابت کر دیا ہے کہ غیر جمہوری راستے اب بند ہو چکے ہیں۔ عوام کسی ایسی تحریک کی حمایت نہیں کریں گے جس سے راستے بند، اور اُن کے روزمرہ کے معمولات متاثر ہوں۔ کوئی مولانا اور اُنہیں تھپکی دینے والوں کو سمجھائے کہ نفرت اور انتقام کی آگ دانشمندی کو بھسم کر دیتی ہے۔ نیز عوام اس آگ میں جلنے کیلئے تیار نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں