وبا بے قابو ہو چکی ہے۔ بگڑے طوفان کی مانند تھم ہی نہیں رہی۔ شروع میں ہمارا خیال تھا کہ بر وقت اقدامات کر لئے گئے ہیں‘ لہٰذا یہاں حالات دیگر ممالک کی طرح نہیں بگڑیں گے‘ قابو میں رہیں گے۔ خوش فہمی تھی۔ اب دور ہو چکی ہے۔ جب آپ یہ سطور پڑھیں گے‘ تو گزشتہ ہفتے کی نسبت متاثرین کی تعداد میں کئی ہزار افراد کا اضافہ ہو چکا ہو گا۔ جس رفتار سے وائرس پھیل رہا ہے‘ خدشہ ہے کہ بڑے بڑے شہروں کے ساتھ ہمارے دیہات بھی اس کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔ شہروں میں تو شفا خانے ہیں‘ سرکاری بھی اور نجی بھی‘ دیہات میں تعویذ دھاگہ ہے یا جعلی معالجوں کی بھرمار‘ جو سب ڈاکٹر لکھتے اور کہلواتے ہیں۔ کہاں جائے گا بے چارہ دیہاتی‘ جسے یہ سبق پڑھایا جا رہا ہے کہ یہ وبا کچھ نہیں‘ صرف پروپیگنڈا ہے‘ جو حکومت اس لئے کر رہی ہے کہ اسے باہر سے امداد ملتی ہے۔ ہمارے جیسے سادہ لوح لوگوں کو کون‘ کس طرح سمجھائے کہ وائرس کا کیا وجود ہوتا ہے‘ دیکھ نہیں سکتے‘ سونگھیں گے تو بُو نہیں ہے‘ مگر نہ جانتے ہوئے بھی آپ اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ کسی کے منہ اور ناک سے نکلے ہوئے بخارات صرف طاقت ور خوردبین سے ہی دیکھے جا سکتے ہیں اور یہ کئی دقیقے ہوا میں معلق رہتے ہیں۔ صرف ہوا ہی آپ کی اچھی قسمت سے ان کو اڑا کر کسی اور سمت لے جا سکتی ہے۔ زرعی معاشروں کا مسئلہ مگر یہ ہے کہ لوگ کچھ دیکھ اور تجربہ کر کے ہی سمجھتے ہیں۔ تقریری علم پر زیادہ کان دھرنے کا رواج نہیں ہے‘ نہ وہ حکومت کی باتوں پر آسانی سے یقین کرتے ہیں۔ ہماری سطح پر موجود سیاسی ثقافت میں حکومت کسی کی بھی ہو اور وہ جو کچھ بھی کہے‘ لوگ جھوٹ ہی قرار دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ریاست اور معاشرے کے درمیان اعتماد کا رشتہ کمزور ہی رہا ہے۔ مجبوری یہ ہے کہ جمہوریت کا پودا جوان اور توانا نہیں ہو سکتا‘ جب تک حکومت اور ریاست پر بھروسہ نہ کریں۔
زرعی معاشرے کے باسیوں کی بات اس لئے چھڑی کہ وبا کے اثرات کھیتوں اور کھلیانوں تک جا پہنچے تو شہروں میں سستی روٹی‘ سستی سبزی اور سستے پھلوں کے عادی بے حال ہو سکتے ہیں۔ وبا تو زیادہ تر شہروں سے ہی پھیلی ہے اور کچھ لوگ باہر سے لے کر آئے ہیں‘ مگر انہیں کیا معلوم تھا کہ وہ ان سے چمٹ چکی ہے۔ چھوڑئیے دیہاتی تو ہمارے جو ہیں سو ہیں‘ اور جو کچھ ہماری حکومتیں‘ مقامی نوکر شاہی اور سیاسی وڈیرے ان کے ساتھ سلوک کرتے ہیں‘ مگر کم از کم پڑھے لکھے‘ با اثر اور آسودہ حال شہریوں کو تو ان کے حق میں کوئی کلمۂ خیر کہنا چاہئے۔ محبت‘ شفقت اور احترام تو دور کی بات ہے‘ انسان ہی سمجھ لیا جائے۔ کیسے وہ تن سوزی کر کے کپاس‘ گنا‘ چاول‘ گندم‘ دالیں‘ دودھ اور ہر نوع کا پھل آپ کو مہیا کرتا ہے۔ ذہن پہ اقبال کا شعر غالب آ رہا ہے۔
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
دل چاہتا ہے کہ کم از کم اپنا تو سب کچھ جلا دوں۔ یہ جذبات کی بات ہے۔ آپ بیماریاں پھیلائیں‘ ترقی کے لئے وسائل نہ فراہم کریں‘ تعلیم اور صحت کے لوازمات کا بندوبست نہ کریں‘ ہم سب زرعی معاشرے کے بے بس لوگ آپ کی خدمت پر ہمیشہ کی طرح مامور رہیں گے۔ مجھے ڈر ہے‘ اگر ہمارے دیہاتی کو یہ موذی مرض لاحق ہو گیا تو وہ کیا کرے گا؟ بھوک‘ ننگ اور لا تعداد بیماریوں سے روزانہ چپ چاپ موت کے منہ میں چلے جانے والے مرنے سے پہلے محض یہی کہتے‘ جو اللہ کی مرضی۔ اسی میں انہیں کوئی تشفی اور اطمینان ملتا‘ مگر ہم اسباب کو کیسے زائل کر سکتے ہیں‘ اور انسانوں کو ان کی ذمہ داری سے کیسے مبرا کر سکتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد میں ستر برسوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے‘ مگر دیگر ممالک کی نسبت شرح خواندگی کم ہے۔ بڑھ رہی ہے‘ مگر ہماری اپنی روایتی کچھوے کی رفتار سے۔ ان تعلیم یافتہ لوگوں کی سوچ‘ بس اللہ ہی ہمیں محفوظ رکھے۔ ایک نہیں‘ دو نہیں‘ بے شمار لوگوں سے ملنے اور بات کرنے کا اتفاق ہوا۔ ملنے سے معذرت کی‘ بہانے تراشنے کے بجائے کھل کر کہا کہ وبا کی موجودگی میں خلوت ہی بہتر ہے۔ اچھے وقت کا انتظار کریں کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ اور پھر ہم عمر کے اس حصے میں ہیں کہ اگر خدانخواستہ بیماری لگ گئی تو جائے گی نہیں۔ وہ لوگ ہماری احتیاط کو بزدلی قرار دیتے ہیں‘ کچھ نصیحتیں شروع کر دیتے ہیں۔ خدا پر بھروسہ نہیں‘ قسمت پر یقین نہیں رکھتے‘ ایمان کمزور ہے۔ جو ہو گا سو ہو گا‘ پریشانی کس بات کی؟ آپ کے کانوں میں بھی یہ تکیہ کلام گونج رہا ہو گا۔ ایک معتبر‘ معروف اور قابلِ احترام عالم سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ حضرت‘ خانہ کعبہ اور مسجدِ نبوی عبادت کے لئے بند کر دئیے گئے ہیں تو فرمایا کہ ہمارے مخصوص حالات ہیں۔ دیہات میں آتے جاتے دیکھا ہے کہ مسجدوں میں‘ مکاتب میں اور زیادہ تر مدرسوں میں‘ خصوصاً دیہات میں‘ ایسا لگتا ہے کہ نہ وبا ہے‘ نہ آئی ہے‘ نہ یہاں کسی کو چھو سکتی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔
حکومت کے لوگ ابھی یہ کہنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ جولائی کے آخر تک وبا کا شکار پاکستانیوں کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔ مجھے خدشہ ہے کہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ جب وقت تھا تو لاک ڈائون جیسا ساری دنیا نے کیا‘ ویسا کرتے‘ اور زیادہ دیر تک کرتے۔ وہ تو کیا نہیں‘ ڈھیل دی‘ سیاست چمکائی‘ غریبوں کے بھوکا مرنے کی سستی باتیں کیں اور حالات ہماری آنکھوں کے سامنے بگڑتے چلے گئے۔ اب وبا ہے اور ہم ہیں دوستو۔ ہمارے محترم اور وزیر اعظم صاحب کے اعزازی مشیر ندیم افضل چن صاحب نے اپنے دوسرے عوامی پیغام میں یہ افسوسناک خبر دی ہے کہ بے چارہ مختیارا بھی وائرس کا شکار ہو چکا ہے۔ میرے نزدیک وفاقی حکومت کی وبا سے نمٹنے کی پالیسی اور منصوبہ بندی میں نرمی کا پہلو غالب رہا ہے۔ بنیادی مفروضے غلط رہے ہیں۔ طبی ماہرین کی بات نہیں سنی گئی۔ انہوں نے اپنی استعداد کے مطابق واویلا کیا‘ جز وقتی ہڑتالیں بھی کیں‘ عوام کے سامنے اپنا مقدمہ بھی رکھا‘ مگر حکومت کی تکرار بالکل مختلف تھی۔ طبی سہولتوں کو بڑھانا تو ضروری تھا ہی‘ اور وسائل کی فراہمی بھی‘ مگر ہماری روایتی دانش کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے‘ حکومتی ہٹ دھرمی کی نذر ہو گئی۔
جہاں کہیں دنیا میں وبا پر قابو پا لیا گیا ہے‘ وہاں سب کچھ حکومت اور سربراہِ حکومت کا کمال ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جہاں عوام میں نظم و ضبط قائم ہے اور قواعد و قوانین کا احترام ہے‘ وہاں وبا کا معاملہ عوام پر نہیں چھوڑا گیا۔ بر وقت سخت اقدامات ہی کام آئے۔ ہمارے ہاں‘ معذرت کے ساتھ‘ ابھی تک پالیسی یہ ہے کہ خود بچو‘ اور ہاں اپنے علاقے میں مقیم لوگوں کو بھی محفوظ کرو‘ ورنہ ہم آپ کے علاقوں کو بند کر کے پولیس کا پہرہ بٹھا دیں گے۔ سینکڑوں کی تعداد میں مختلف شہروں میں علاقے بند کئے جا چکے ہیں۔ کیا خوب اصطلاح کا انتخاب کیا ہے‘ ''سمارٹ لاک ڈائون‘‘ کچھ اردو میں ہی کہہ دیتے۔ کوشش کے باوجود میں اس کا ترجمہ نہیں کر سکا۔ مطلب سمجھ چکے ہیں‘ بچ سکتے ہو تو بچو‘ ہم بازار‘ دکانیں‘ ٹرانسپورٹ‘ ریل کا نظام اور فضائی سفر بھی کھول رہے ہیں۔ جو کچھ نیو یارک ٹائمز میں پڑھ رہا ہوں‘ اور مغربی ٹیلی وژن پر دیکھ رہا ہوں‘ اس وبا کے بارے میں سوچ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو محفوظ رکھے‘ اور ہمارے دیہات کو بھی۔ ہم کونے میں پڑے رہیں گے‘ خلوت میں‘ بس اللہ مالک ہے۔