ظاہراً نا قابل یقین مگر چین کے ثقافتی انقلاب کی تاریخ اور چیئرمین مائوزے تنگ کے سیاسی کرتبوں کی سچی داستان۔ دنیا بھر کی سیاست میں بڑے بڑے نام ہیں‘ اور مائو کسی سے کم نہیں۔ اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے عوام کو متحرک کرنا‘ اپنی شخصیت کا بت تراشنا اور پیروکاروں کو پجاری بنانا ہمیشہ سیاست کی کرشمہ سازی رہی ہے۔ کردار کتنا ہی گھنائونا‘ ظالمانہ اور تاریک کیوں نہ ہو‘ آمروں کا جب ریاستی وسائل پر تسلط قائم ہو جاتا ہے‘ تو وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں۔ مخالفوں کو قتل کرانا‘ انہیں قید میں ڈال دینا‘ انہیں اذیت دینا اور ان کا سب کچھ چھین لینا تو معمولی بات ہے۔ جو واقعات میں ان سطور میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں‘ وہ ان سیاسی حقائق کی گواہی دیتے ہیں۔ سیاسی رہنما اکثر نرگسیت کا شکار رہتے ہیں اور اپنا مقام بنانے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑتے‘ مگر تاریخ اور آنے والی نسلیں صرف اور صرف انہیں ان کے اصل روپ میں دیکھتی ہیں۔ سب کے اندر جو کچھ ہے باہر آ کر ہی رہتا ہے۔ منافقت اور بناوٹی چہرے کسی وقت دھل ہی جاتے ہیں۔ اصل صورت کھل کر سامنے آ ہی جاتی ہے۔
اگرچہ میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے ان معاملات کے بارے میں مواد اکٹھا کر رہا تھا‘ اور ذہن میں ابال بھی رہا تھا‘ لیکن پہلے ''مائوزے تنگ کے سنہری آم‘‘ نامی کتاب منگوا کر پڑھنا مقصود تھا۔ کچھ عرصہ پہلے یہ کتاب اپنی جامعہ کی لائبریری کیلئے خرید کروا لی تھی۔ دوسرے‘ آموں کے موسم کا بھی انتظار تھا۔ آم کھانے کا پھل ضرور ہے‘ مگر آموں کا تعلق ہماری تہذیب اور ثقافت سے بھی ہے۔ اس بادشاہ پھل کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جا سکتا ہے۔ اس خاکسار کو فخر ہے کہ چالیس سال ان کو اگانے‘ ان کی پرورش اور آموں کے باغ کے نظارے میں صرف کئے اور ابھی یہ کام جاری ہے۔ جب تک دم ہے‘ جاری رہے گا۔ انہیں کھانا وقتی حس کی تسلی کے سوا کچھ نہیں۔ آموں کے درختوں کے درمیان رہنا‘ کچھ وقت گزار لینے کا مزا سوا ہے۔ 4 اگست 1968 کو پاکستان کے وزیر خارجہ سید ارشد حسین چین کے دورے پر گئے تو چیئرمین مائو کے ساتھ رسمی ملاقات بھی ان کے پروگرام کا حصہ تھی۔ آموں کا موسم ہو اور ہمارا وزیر خارجہ خالی ہاتھ جائے‘ ایسا تو ہو نہیں سکتا تھا۔ سنا ہے اب بھی یہ روایت قائم ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین اور حکومتی لوگ دیگر ممالک میں ہم منصبوں کو اب بھی آموں کا تحفہ بھیجتے ہیں۔ انہوں نے آم چیئرمین صاحب کے حوالے کئے اور واپس آ گئے۔ انہی دنوں میں چیئرمین مائو نے چین میں ثقافتی انقلاب کی تحریک چلا رکھی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب لاکھوں کی تعداد میں چینی بھوک سے مر رہے تھے اور مائو کی عوام میں مقبولیت خاصی نیچے آ چکی تھی۔ انہوں نے طالب علموں کو متحرک کر رکھا تھا۔ انہیں ''ریڈ گارڈز‘‘ کا نام دے کر تعلیمی اداروں میں نظریاتی کام پر مامور کیا جا چکا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ مائو کے مخالفین کو پارٹی کے اندر اور باہر چن چن کر ختم کیسے کرنا ہے۔ طالب علموں میں گروہ بندی ایسی ہوئی کہ ایک دوسرے پر سبقت لینے اور مائو کے نظریات کے علم بردار کی حیثیت سے آگے بڑھنے اور نمایاں ہونے کی کوشش میں انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ یہ واقعات سنگھووا یونیورسٹی بیجنگ میں ہو رہے تھے۔ مائو نے حکم دیا کہ قریب کے کارخانوں سے یونیورسٹی میں مزدوروں کے جتھے روانہ کئے جائیں اور وہ طلبا کے گروہوں کے درمیان ہونے والی لڑائی ختم کرائیں۔ مائو کا آم کھانے کو جی نہیں چاہ رہا ہو گا۔ اس پھل سے انہیں کوئی رغبت بھی نہیں تھی؛ چنانچہ انہوں نے پاکستانی آموں کے ٹوکرے سنگھووا یونیورسٹی میں مزدوروں کو تحفے کے طور پر بھیج دیئے۔
اس سے قبل کہ میں اس بارے میں مزید کچھ لکھوں‘ یہ واضح کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ میں محترمہ مہرین جمال کے 18 جنوری 2018 کو ڈان میں شائع شدہ ایک مضمون کی وساطت سے ان واقعات سے متعارف ہوا تھا‘ اور پھر محترمہ الفریڈا مرک کی اسی موضوع پر لکھی گئی کتاب خریدی۔ دونوں خواتین آرٹ کی مؤرخ ہیں۔ خیر جب آم پہنچے تو یونیورسٹی میں یہ مکالمہ ہوتا ہے کہ آخر چیئرمین مائو نے اتنی بڑی قربانی کس جذبے کے تحت دی کہ آم‘ جو ان کو تحفتاً دیئے گئے تھے‘ خود کھانے کے بجائے مزدوروں کو دے دیئے۔ تقریر پہ تقریر ہوئی‘ اور انقلابیوں نے بڑھ چڑھ کر اس بحث مباحثے میں حصہ لیا۔ نکتہ یہ تھا کہ عظیم رہنما کی جانب سے یہ کتنا متبرک تحفہ ہے۔ کھانے کے بجائے کیوں نہ آموں کے تحفے کو عظیم رہنما کی جانب سے اپنے عوام سے محبت کی علامت سمجھا جائے۔ آموں کے ٹوکرے خوبصورت رنگا رنگ کپڑوں میں ملبوس کر کے ہزاروں لوگوں کے جلوس نکالے گئے‘ اور مائو کی قربانی کے جذبے کے اعتراف میں جوش و خروش سے نعرے لگائے گئے۔
کچھ دن بعد جب مزدوروں کو واپس فیکٹریوں میں بھیجا گیا تو ہر فیکٹری کے حصے میں ایک آم آیا اور مزدور جوق در جوق آم کی زیارت کیلئے آئے۔ زیادہ لوگ اکٹھے ہو جاتے تو فلک شگاف نعروں سے فضا گونج اٹھتی۔ کچھ کارخانوں میں رکھے آم زیادہ پک جانے کی وجہ سے گلنے سڑنے لگے تو ترکیب یہ نکالی کہ پانی ابال کر آم کو اس میں ڈال دیا گیا۔ جب ایک آم سے کئی بالٹیاں شربت تیار ہو گیا تو تبرک کے طور پر ہر مزدور کو ایک چمچ شربت پلوایا گیا۔
چیئرمین مائو کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ پاکستانی آموں نے ان کی سیاست کو کیسے زندہ اور ترو تازہ کر دیا ہے۔ انہوں نے آموں سے مزید سیاسی فائدہ اٹھانے کی ٹھان لی۔ اب پلاسٹک‘ شیشے اور لکڑی سے آموں کے نمونے بڑی تعداد میں بنوائے گئے اور رنگا رنگ ٹوکرے بھی۔ مختلف شہروں اور دیہات میں ثقافتی اور انقلابی ٹیمیں مائو کے آموں کا درشن کرانے کے لئے جلوسوں کی صورت میں بھیج دی گئیں کہ عوام میں سے کوئی بھی محروم نہ رہے۔ اکثر دیہات میں تو لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ آخر آم ہے کیا چیز‘ پھل ہے یا سبزی۔ انہوں نے کبھی ان کو دیکھا یا ان کے بارے میں سنا ہی نہیں تھا۔ سب حیران تھے لیکن مقدس آموں کو دیکھنے اور جلوس میں شرکت کے لئے بے تاب۔ ایک گائوں میں جب آموں کا جلوس نکلا ہوا تھا‘ تو مقامی دانتوں کے ڈاکٹر‘ جس کا نام ہین تھا‘ نے آموں کے بارے میں گستاخی کا ارتکاب کر ڈالا۔ اس نے کہا کہ آم تو ''میٹھے آلو‘‘ کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ مائو کے سنہری آم اور وہ بھی سرزمینِ پاکستان سے آئے ہوئے‘ اور ان کے بارے میں کوئی ایسے ہتک آمیز الفاظ استعمال کرے‘ ڈاکٹر ہین کو فوراً انقلابیوں نے دھر لیا‘ وہیں عدالت لگائی گئی اور اس بے چارے کو منٹوں میں موت کی سزا سنا دی گئی۔ جلوس میں آئے ہوئے ایک ٹرک کے ساتھ اس کو باندھ کر دیہات میں پہلے عبرت کا نشان بنایا گیا‘ پھر ایک کونے میں لا کر اسے گولی سے اڑا دیا گیا۔ ایسے انقلابوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ میں خود چین کے ثقافتی انقلاب اور مائوزے تنگ کے نظریات کا ایک عرصے تک اسیر رہا۔ پہلی کتاب بھی جامعہ پنجاب کے زمانے میں چین اور پاکستان کے تعلقات پر لکھی اور جی بھر کے مائو کے ثقافتی انقلاب کی تعریف کی تھی۔
آموںکی یہ سیاست اگلے آٹھ سال جاری رہی‘ جب تک کہ مائوزے تنگ اس جہانِ فانی سے 1976 میں رخصت نہ ہو گئے۔ شہروں میں آموں کے ٹوکروں اور آموں کے پوسٹر بنوائے گئے اور ان کے نمونے بھی۔ آم برینڈ سگریٹ‘ چائے پینے والے کپ‘ اور ثقافتی انقلاب کے حوالے سے جو آرٹ اور پینٹنگز بنیں‘ آم ان میں نمایاں رہے۔ الفریڈا مرک نے یہ سب آرٹ خریدنے اور اس کا مطالعہ کرنے کے بعد کتاب لکھی۔ چند سال پہلے انہوں نے جرمنی میں ایک عجائب گھر میں آموں کے چینی آرٹ کی نمائش بھی کی۔ حیران ہونے کی ضرورت نہیں‘ سیاسی تاریخ ایسے عظیم رہنمائوں اور ان کی سیاسی چالبازیوں سے بھری پڑی ہے۔