جمہوریت کیلئے وہ ایک تاریک دن تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا ''نیا‘‘ پاکستان ڈوبا اور ضیاالحق کا ''اسلامی‘‘ پاکستان کا سورج طلوع ہوا۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا‘ ہم اس دوراہے یا چوراہے پر کیوں پہنچے؟ یہ کوئی نئے سوال نہیں‘ نہ ہی ابھی تک ان کا کوئی ایک جواب مبصرین‘ سیاستدانوں اور مؤرخین کی جانب سے ہمیں ملا ہے۔ ہر ایک کی اپنی کہانی ہے‘ اور ہر کہانی کا اپنا ایک سیاسی رنگ ہے۔ بہت سی کہانیوں اور رنگوں کا امتزاج ہو تو پھر حقیقی رنگ تلاش کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس مضمون میں خاکسار کا ایسا کوئی دعویٰ ہے‘ نہ اس کی جرأت کر سکتا ہوں۔ کچھ مفروضات ہیں‘ جن کی بنیاد کچھ دیکھے معاملات‘ کچھ سنی باتیں اور بہت سے عملی مباحث اور تفصیلات ہیں‘ جن کے بارے میں لکھتے پڑھتے رہے۔ آغاز تو ''نئے‘‘ پاکستان کی تعمیر سے ہو چکا تھا‘ مگر پاکستان کے سیاسی ڈرامے کے مرکزی کردار جناب ذوالفقار علی بھٹو کی اڑان اتنی بلندیوں پہ تھی کہ زمین پر‘ جہاں خاک نشینوں کا بسیرا تھا‘ نظر کم ہی پڑتی۔ وہ بڑے بڑے خواب دیکھنے والے‘ پُراعتماد اور غالب شخصیت کے مالک تھے۔ تاریخ کی ان نامور ہستیوں سے متاثر تھے جنہوں نے ملک فتح کئے‘ ریاستیں بنائیں‘ اقتدار پر قبضہ کیا‘ جنگیں لڑیں اور اپنے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو زیر کیا۔ تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ ایسے مشاہیرِ عالم اپنے مخالفین کو نہ صرف گاجر مولی کی طرح کاٹتے رہے بلکہ انہیں ہمیشہ حقیر سمجھا۔ سنا ہے وہ نپولین بونا پارٹ سے بہت متاثر تھے‘ ان کی قوتِ ارادی‘ بڑے بڑے خواب‘ اقتدار ایک منزل‘ راستہ وہی اچھا جو وہاں تک لے جائے اور وقت کے تقاضوں‘ ملکی سیاسی موسم اور عوام کے عصری مزاج کے مطابق بیانیہ۔ ان تمام جزئیات کو سامنے رکھیں تو شاید بھٹو صاحب کی سیاسی شخصیت کے کچھ خدوخال واضح ہو سکیں۔ کمال کے مجمع باز تھے۔ تقریر کرتے تو دلوں کو محض گرماتے نہیں تھے‘ ان میں آگ لگا دیتے تھے۔ سامنے بیٹھے ہزارہا افراد انہیں ایسے سنتے جیسے بے جان مورتیاں ہوں اور ان کے نعروں کے جواب میں یہ مورتیاں ایسی گرجتیں کہ آوازوں کا طوفان برپا ہو جاتا۔ بھٹو صاحب پُتلیوں کو نچانا‘ مورتیوں میں جان ڈالنا جانتے تھے۔ کمال کے مقرر تھے۔ زبان و کلام‘ حاضر جوابی اور سیاسی زبان کے چنائو میں اس زمانے میں کم از کم ہمارے خطے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
خود اعتمادی حلم اور متانت کی حدیں پار کر جائے تو پھر یہ کچھ اور بن جاتی ہے۔ دوسرے حقیر نظر آنے لگتے ہیں' چاہے وہ ایسے ہوں یا نہ ہوں۔ مخالفین کو زیر کرنا آسان ہو جائے تو وہ کمزور ہی نظر آئیں گے۔ بھٹو صاحب اور ''نیا‘‘ پاکستان اٹل حقیقت نظر آنے لگے۔ بہت سے سیاسی مخالفین نے ان کی پیپلز پارٹی کے چھاتے میں پناہ لینے میں آسودگی تلاش کی یا پھر وہ تھے کہ سیاست سے توبہ تائب ہو کر گھر بیٹھ گئے۔ جو میدان میں رہے یا کوئی ان کی سیاسی جماعت کے اندر کھسر پھسر کرنے کی غلطی کر بیٹھے‘ دن اچھے نہ گزار سکے۔ کچھ کیلئے جیل کی ہوا کھانا بڑی بات نہیں تھی‘ وہاں جانے کے سفر اور عقوبت خانوں میں جو کچھ ہوا‘ وہ بہت ہی درد ناک کہانیاں ہیں۔ ان میں سے کچھ تو لکھ کر بتا گئے‘ اور کچھ سارے راز اپنے ساتھ لے گئے۔
بھٹو صاحب کے ایک بہت ہی قریبی ساتھی اور پنجاب حکومت کے سابق سربراہ بارعب اور جاذب شخصیت کے مالک‘ انتخابی دھاندلی کے سال سے تقریباً ایک یا دو سال پہلے فارغ کر دیئے گئے تھے۔ کھل کر نام بتانا مناسب نہیں‘ پارٹی چھوڑ چکے تھے۔ جنوبی پنجاب سے دوسری صف کے چند متحرک اور بااثر کارکن میرے پاس جامعہ پنجاب میں تشریف لائے۔ ان سے ملاقات کے غرض مند تھے۔ میں بھی شامل ہو گیا۔ بھٹو صاحب کے بارے میں جو باتیں انہوں نے ارشاد فرمائیں‘ وہ تحریر میں نہیں لائی جا سکتیں۔ دو سال پہلے وہ بھٹو صاحب پہ جان بھی قربان کرنے کیلئے ہر دم تیار تھے۔ ایسے سینکڑوں نکل کر وہی زبان بھٹو صاحب کے خلاف استعمال کرنے لگے۔ سیانوں کی بات کون مانتا ہے‘ لیکن ان کی بات کرنے میں کیا حرج ہے۔ کہتے ہیں کہ لوگ اگر خوف سے آپ کی عزت کریں تو وہ عزت نہیں‘ بس خوف کا اظہار ہی سمجھ لیں۔ عزت تو دل سے ہوتی ہے اور دل خوف پیدا کر کے نہیں‘ شفقت سے جگہ بنا کر ہی جیتے جا سکتے ہیں۔ یہ صرف بھٹو صاحب کی نہیں‘ ہر اس بڑے آدمی کی کہانی ہے‘ جس نے خوف کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہو۔ یہ بادشاہوں کا دستور تھا۔ جہاں جمہوریت مفقود ہے یا کمزور ہے‘ وہاں آج بھی خوف کو حکمرانوں کے دبدبے کیلئے مفید خیال کیا جاتا ہے۔ بھٹو صاحب زمینی حقائق پر دھیان دینے کی صلاحیت اونچی پرواز میں پیچھے چھوڑ چکے تھے۔ دوسرے پارٹی کے اندر کے اندر تو کوئی پر نہیں مار سکتا تھا‘ بلکہ ہلکا سا پھڑپھڑانا بھی ممکن نہ تھا‘ مگر موقع ملتے ہی ان کے ساتھی ان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہو جاتے۔
بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ اگر بھٹو صاحب 1977 کے انتخابات میں دھاندلی کا ارتکاب نہ کرتے تو بھی ممکن تھا کہ وہ اکثریت لے لیتے‘ یا کم از کم ان کی جماعت کا پلڑا بھاری رہتا۔ پھر ایسا کیوں کیا کہ خود بھی ڈوبے اور جمہوریت کی کشتی بھی ڈبوئی۔ سادہ سا جواب یہ ہے کہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا اتحاد ان کے خلاف انتخابات میں اور پھر اس کے بعد سڑکوں پر مقابلہ کر سکتا ہے۔ سیانوں کی یہ بات بھی مان لیں کہ دشمن کو حقیر مت سمجھو۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ یہ قولِ زریں ہمارے سکول کی دیوار پر لکھا گیا تھا۔ کون دھیان دھرتا ہے‘ ایسی چھوٹی موٹی باتوں پر جب وہ اقتدار کے طاقتور مگر بے لگام گھوڑے پر سوار ہوں۔ یہ بے لگامی ہی تو مسئلہ ہے کہ اگر وہ حد اور قابو میں نہ رہے تو جانے کہاں جاکر گرائے اور کیا امکان کہ طاقت کا شہسوار اٹھ بھی سکے۔
انتخابات کیلئے بھٹو صاحب نے ٹکٹیں اپنی مرضی سے بانٹیں۔ بانی کارکن فارغ ہو چکے تھے۔ ملتان سے ایک دوست نہایت بااثر اور بھٹو سے قریبی تعلقات رکھنے والے خاندان سے ہے۔ ان دنوں بہت قریب تھا۔ اتنا قریب کہ خاندان کا فرد۔ دوست سے پوچھا کہ آپ کے کیا ارادے ہیں؟ کہا کہ محترمہ نصرت بھٹو گھر آئیں‘ مجھے بلایا اور کہا کہ الیکشن لڑو گے‘ تو میں نے ہاں کر دی۔ میں نے کہا کہ تمہیں تو اپنے حلقے میں ہونا چاہئے‘ یہاں لاہور میں کیوں بیٹھے ہو؟ کہا کہ کمشنر اور ڈی آئی جی فون کرکے پوچھتے رہتے ہیں کہ کوئی خدمت؟ میں نے ان کو کہہ دیا ہے کہ میرے قریبی مخالف قومی اتحاد والے کے خلاف مقدمات بنا کر جیل میں ڈال دیں تاکہ وہ ضمانتیں ہی کراتا پھرے۔ میرا دوست بھاری اکثریت سے قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہو گیا۔ وزیر اعظم خود اور ملک کے چاروں وزرائے اعلیٰ بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔ کیا ضرورت تھی ایسے حربوں کی؟ بھٹو صاحب آخر تک مقبول رہے۔ آسانی سے مقابلے میں بھی منتخب ہو سکتے تھے۔
قومی اتحاد کی سیاسی جماعتوں نے کامیاب انتخابی مہم چلائی اور انتخابات کو متنازعہ بنانے اور بھٹو صاحب کے خلاف تحریک چلانے میں بھی بے مثال اتحاد اور اتفاق کا ثبوت دیا۔ جیلوں میں گئے‘ گھروں میں نظر بند رہے اور نئے انتخابات کے مطالبے سے ذرا بھی پیچھے نہ ہٹے۔ مذاکرات کے کئی دور حکومت کے ساتھ ہوئے‘ تحریک میں گولیاں چلیں‘ سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے اور کئی شہروں کو بھٹو نے فوج کے حوالے کر دیا۔ ایسا بارہا محسوس ہوا کہ نئے انتخابات کیلئے تمام نکات طے ہو چکے ہیں‘ کل یا پرسوں اعلان ہو جائے گا‘ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اس کے پیچھے کئی کردار ہیں‘ کئی کہانیاں اور شخصیتوں کا تصادم‘ اور قومی اتحاد کے اندر سے کچھ قائدین کا غیر لچکدار رویہ بھی ملک کو بند گلی میں لے گیا۔ کئی بھٹو دشمنی میں حد سے گزر گئے اور ہر صورت انہیں کرسی سے گرانا چاہتے تھے۔ ایئر مارشل اصغر خان کا وہ خط جو انہوں نے فوج کو لکھا اور جو چھپوا گیا اور لاکھوں کی تعداد میں تقسیم ہوا میرے پاس بوسیدہ حالت میں محفوظ ہے۔ اور کیا لکھیں اور کیا کہیں۔ پھر ایک نہیں کئی المیوں نے جنم لیا‘ جن کا آسیب اب بھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ رہا۔