اس خاکسار نے اس ترکی ڈرامے کی ایک قسط بھی نہیں دیکھی تھی۔ معلوم ہی نہیں تھاکہ ایسا کوئی ڈرامہ ہمارے ہاں کہیں دکھایا جا رہا ہے۔ کسی قریبی عزیز کا برطانیہ سے فون آیا تو اس نے پوچھا: آپ نے ارطغرل دیکھا ہے؟ لاکھوں تارکینَ وطن مسلمان‘ بلکہ کروڑوں مغرب میں بھی دیکھ چکے ہیں یا دیکھ رہے ہیں۔ جب سے وہ ڈرامے‘ جو آج سے تیس چالیس سال پہلے پسند تھے‘ ختم ہوئے اور زندگی کے جھمیلوں میں زیادہ پڑ گئے‘ شام کے وقت سکرین کے سامنے بیٹھ کے ڈراموں کا انتظار بھی ختم ہو گیا۔ تیس سال تک کوئی ڈرامہ نہیں دیکھا‘ بس طبیعت ہی اچاٹ رہی۔ ان کے معیار‘ موضوعات اور لکھاریوں کے بارے میں نہ جانتا ہوں‘ نہ کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ جی کتابیں پڑھنے‘ آرام کرنے اور کچھ لکھنے کی طرف مائل رہا۔ ارطغرل کے بارے میں کیا گیا استفسار ابھی ذہن میں گھوم ہی رہا تھا اور ڈرامہ دیکھنے کی یک گونہ خواہش پیدا ہو رہی تھی کہ ایک مضمون نظر سے گزرا‘ جس کا لب لباب دو فقرے تھے: اس ڈرامے کا حقیقی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسرا‘ پاکستانی ثقافت کا یہ مظہر نہیں۔ یہی دو باتیں دیگر کچھ مضامین میں بھی ہیں۔ ہمیں اپنے تخلیق کاروں کے لکھے ہوئے اپنی دھرتی کے رنگ میں رنگے اور معاشرے میں گھومتے پھرتے کرداروں کے عکاس ڈرامے دیکھنے کی نصیحت ہو رہی ہے۔ اس واویلے کا پس منظر یہ ہے کہ پاکستان اور دنیا کے دیگر مسلم معاشروں کے لوگ کروڑوں کی تعداد میں یہ ڈرامہ دیکھ چکے ہیں اور اسی تعداد میں دیکھ رہے ہیں۔ سنا ہے‘ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی ڈرامے کو اتنی پذیرائی نہیں ملی‘ جتنی ارطغرل کو۔ آخر اس کے پیچھے راز کیا ہے اور کچھ ہمارے بھائی اس کی مقبولیت پر تڑپ کیوں اٹھے ہیں؟
پہلے میں کچھ تاریخ کی بات کرتا ہوں اور پھر ثقافت کی۔ اگر کوئی برا نہ مانے تو پہلے ایک سوال کرسکتا ہوں؟ ہالی ووڈ اور دنیا کے دیگر نگارخانوں میں جو فلمیں بنیں‘ ڈرامے لکھے گئے‘ کیا وہ واقعی تاریخ کا عکس ہیں؟ بالکل نہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ تاریخ سے واقعات اور کردار اخذ کئے جاتے ہیں اور ان کو اپنے وقت کے سیاسی تقاضوں میں ڈھالا جاتا ہے۔ ایسا ادب اور تاریخ بے جان نہیں قومی امنگوں کے ترجمان ہوتے ہیں۔ معروضی تاریخ لکھنے کی ہمارے ہاں بہت باتیں ہوتی ہیں اور معروضی سماجی علوم کی بھی۔ سب درست ہے‘ مگر معروضیت کی سرحدوں کا تعین تو قلم کار خود ہی کرتا ہے۔ خیر اس بحث کو چھوڑیے۔ ارطغرل کی تاریخی حقیقت کو نہیں سمجھ پائیں گے اگر آپ تیرہویں صدی عیسوی کی وسطی ایشیا‘ ایران اور مشرق وسطیٰ کی تاریخ سے نابلد ہیں۔ تاریخ پڑھیں گے تو حوالے ملیں گے۔
گزشتہ سال چند ہفتوں کیلئے برطانیہ گیا تھا تو اپنے میزبان کے پاس جان مین کی چنگیز خان کے بارے میں لکھی کتاب دیکھی۔ یہ کتاب 2004 میں منظرعام پہ آئی تھی۔ یہ چنگیزخان کی زندگی‘ موت اور آج کے منگولیا میں انہیں جس طرح ایک قومی ہیرو کی طور پر پیش کیا جاتا ہے‘ اس کی ایک لمبی داستان ہے۔ سینکڑوں کتابیں خان پر لکھی گئی ہیں‘ لیکن یہ منفرد ہے کہ جان مین ہر اس مقام پر گیا جہاں چنگیزیوں نے لڑائیاں لڑیں اور ترکستان (موجودہ وسطی ایشیا کی ریاستیں) میں اجڑے شہروں کے ملبوں کا مشاہدہ بھی کیا۔ اس وادی میں بھی گئے جہاں چنگیزخان نے اپنی زندگی کے آخری ایام کربناک حالت میں بسر کئے تھے۔ ترکستان میں کئی چھوٹی چھوٹی مملکتیں تھیں‘ سب سے بڑی اور طاقتور خوارزم شاہ کی تھی۔ چنگیز خان نے بخارا‘ سمرقند اور خوارزمی سلطنت کو ملیامیٹ کردیا۔ حالات ایسے تھے کہ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک منگول سپاہی کے ذمے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں ترک مسلمان قیدی شہید کرنا ہوتے۔ عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جاتا۔ جو شرائط تسلیم کرکے ہتھیار ڈال دیتے انہیں بھی تہ تیغ کر دیا جاتا تھا اور اذیتیں دینے کے وہ حربے کہ شیطان بھی شرم محسوس کرے۔
یہ سب ترکوں کے مشرق میں ہو رہا تھا۔ مغرب میں کم از کم دو بڑی مسلم سلطنتیں تھیں‘ مگرداخلی سازشوں کا شکار۔ ان کا سامنا صلیبیوں اور رومیوں سے تھا۔ وہ کئی بار شکست کھانے کے باوجود موجودہ ترکی‘ شام اور فلسطینی علاقوں میں کہیں کہیں قدم جمائے بیٹھے تھے۔ ترک قبائل اپنے علاقوں تک محدود اور زیادہ تر بے یارومددگار تھے۔ اپنا دفاع خود کر سکتے تو کر پاتے ورنہ جو کچھ مشرقی ترکستان میں ہو چکا تھا‘ وہی ہوتا چلا جاتا۔ یہ ہے ترکوں کی بقا کی جنگ کا پس منظر۔ سلیمان شاہ اور ارطغرل ترکوں کی تاریخ کے حقیقی کردار ہیں۔ ان پر کتابیں لکھی گئیں اور وہ لوک کہانیوں میں بھی صدیوں زندہ رہے۔ سلیمان شاہ کا مقبرہ شمالی شام میں آج بھی موجود ہے۔
صدر اردوان نے ارطغرل بہت محنت اور محبت سے تیار کروایا ہے۔ کہیں بھی فنڈز کی کمی نہ آنے دی۔ ان کے نزدیک قوم اور وطن کے محسنوں کا ہمیشہ قرض رہتا ہے جو کبھی نہیں چکایا جا سکتا۔ آخر ایک روز ہمت باندھی اور شام کے وقت مغرب کے فوراً بعد یوٹیوب پر پہلی قسط دیکھ ہی لی۔ ایک ایک‘ دو دو کرکے ابھی تک بیاسی قسطیں دیکھ چکا ہوں۔ بات سمجھ میں آ گئی کہ واویلا کیوں ہے۔ بہرحال تیرہویں صدی کی تاریخ‘ خصوصاً ترکوں کی تاریخ پڑھنے کا اشتیاق موج در موج ابھر رہا ہے۔ اسلام آباد کی دکانوں میں جو میسر ہوا‘ پکڑ لیں گے۔ رہی بات اپنی ثقافت کی تو اس کے بارے میں چند گزارشات آپ کے سامنے رکھنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ قوموں کی تہذیبی سرحدوں کا تعین نہ کوئی کر پایا ہے نہ کرسکتا ہے۔ پاکستانی تہذیب کی سرحد نہ واہگہ بارڈر ہے‘ نہ طورخم۔ جغرافیہ‘ تاریخ اور مذہب کسی بھی تہذیب کی شکل نکھارنے میں مددگار ہو سکتے ہیں‘ مگر اثرات کا دائرہ جگہ اور وقت سے متعین نہیں کیا جا سکتا۔ خطہ پاکستان تہذیبوں‘ ثقافتوں اور تاریخ کے تیز دھاروں کے چوراہے پر صدیوں تک رہا ہے۔ ہرطرف سے اثرات آئے ہیں‘ اور آخری بار مغربی استعمار کے حوالے سے جو عالمیت کے دور میں کسی اور شکل میں نمایاں ہے۔ ہر تہذیب کی کئی جزئیات ہوتی ہیں‘ لیکن جزو سے اصل اور مکمل کو دیکھنے کی کوشش کریں گے تو حقیقت کو نہیں پاسکیں گے۔ ذہن الجھانا مقصود نہیں۔ سادہ سی بات ہے‘ کسی بھی مسلم ملک میں چلے جائیں‘ سوائے زبان کے کچھ بھی مختلف نہیں پائیں گے۔ رہن سہن‘ رسوم و رواج‘ ادب و اخلاق اور روزمرہ کے معمولات سرزمینِ پاکستان جیسے ہی ہوں گے۔ خوشی و غمی کے رواج بڑی حد تک یکساں نظر آئیں گے۔ عقیدہ‘ ایمان اور نظریۂ حیات بنیادی طور پر عام مسلمانوں میں ہر جگہ ایک جیسا ہے۔ جدت پسندوں کی بات اور ہے‘ یا وہ جو مذہب کو عملی طور پر ترک کر چکے ہیں‘ اور وہ بھی جو ثقافت اور تہذیب کی جزئیات صرف مقامی زبان اور ثقافت میں ڈھونڈتے ہیں۔ مانتا ہوں‘ مسلم ملک میں قومی ریاستوں کی تشکیل و تعمیر کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے مقامی ثقافتی حوالے اہمیت رکھتے ہیں۔ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اپنے کلی اور اجتماعی تہذیبی ورثے کو آپ کیسے موجودہ جغرافیائی سرحدوں کے پار پھینک سکتے ہیں۔
پڑھے لکھے اور نظریاتی طور پر سکہ بند دانشور جو بھی مباحث کریں‘ سب جائز ہیں‘ لیکن عوام کے ذہنوں میں مسلم تہذیب سے رشتوں کے حوالے سے کوئی ابہام ہے‘ نہ کوئی الجھن۔ اب سمجھے‘ لوگ کروڑوں کی تعداد میں ارطغرل کیوں دیکھ رہے ہیں۔ یہ وہی عالمی نظریہ ہے جس کا خاکہ ان کے ذہن میں ہے‘ یہی وہ مزاحمت ہے جو وہ اندرونی کرتوغلوں (ڈرامے کا ایک کردار) اور بیرونی دشمنوں کے خلاف کرتے ہیں اور پھر مسلمان قوتوں کو یکجا اور اکٹھا کرنے کی ہر مسلم ملک میں عوامی خواہش اور اس کے برعکس ہمارے رہنمائوں کے بیرونی طاقتوں سے جڑے مفادات۔ یہ ڈرامہ کل کے بارے میں ہے اور ہمارے آج کے کے حوالے سے بھی۔ پھر واویلا کیوں؟ شاید لوگ ایسے ''دانشوروں‘‘ کی بات پر دھیان ہی نہیں دیتے۔