"RBC" (space) message & send to 7575

عربوں نے ہار مان لی؟

بادشاہی سلطنت بحرین نے بھی اسرائیل کی قانونی حیثیت کو تسلیم کر لیا ہے۔ اب یہاں کے بادشاہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی ابتدا کریں گے۔ متحدہ عرب امارات کی بادشاہت نے اس سلسلے میں پہل کی‘ بہتّر برسوں سے قائم پالیسی کو تبدیل کر دیا۔ اس کے فوراً بعد امریکی اور کچھ مغربی یورپ کے اخبارات بار بار خبریں جڑ رہے تھے کہ ایک اور ملک بھی تسلیم و رضا کے لئے تیار بیٹھا ہے۔ کچھ نے واضح طور پر خبر دے دی تھی کہ اگلا ملک بحرین ہو گا۔ سلطنتِ عمان کے بادشاہ نے دل کی گہرائیوں سے ابلتے جذبات کے ساتھ نہ صرف خیر قدم کیا اور مبارک باد کے پیغامات سنہری حروف میں لکھوائے بلکہ علاقائی امن اور ہم آہنگی کے لئے بحرین کے اس ''حوصلہ افزا‘‘ قدم کو نیک شگون بھی قرار دیا۔ یاد رہے کہ اردن کی بادشاہت اسرائیل کو تین دہائیاں پہلے سے اور مصر کے فوجی حکمران تقریباً چار دہائیاں قبل گلے لگا چکے ہیں۔ عمان شاباش دے رہا ہے تو بس سمجھ لیں کہ اس کی اشیرباد شامل ہے‘ مگر کچھ معلوم اور نامعلوم مصلحتوں کے پیشِ نظر سب کچھ پسِ پردہ کرتا رہے گا۔ ہمارے بہت ہی محترم اور با اعتماد دوست سعودی عرب کے بادشاہ نے دونوں مرتبہ معنی خیز خاموشی اختیار کئے رکھی۔ ایسے موقعوں پر اگر کچھ نہ کہا جائے تو یہ رضا مندی کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔ سفارت کاری اپنا اظہار صرف زبان و کلام کی رعنائیوں سے نہیں‘ آنکھوں اور ہاتھوں کے اشاروں سے بھی کرتی ہے۔ 
اندھے بھی دیکھ سکتے ہیں اور بہرے بھی سن پا رہے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں تزویراتی صف بندی‘ جو بہت عرصہ تک خود اختیار کردہ ابہام کے پردوں میں لپٹی رہی تھی‘ اب روزِ روشن کی طرح ہمارے سامنے نمایاں ہو چکی ہے۔ اس سے پہلے کہ میں ان محرکات کا ذکر کروں‘ جو ابھرتے ہوئے نئے گٹھ جوڑ کی تشکیل کا باعث بن رہے ہیں۔ یہاں دو باتوں کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ عقل حیران ہے کہ بادشاہوں کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کے اعلانات ''تازہ خبروں‘‘ کی بھرمار کے ساتھ امریکہ سے ہو رہے ہیں۔ آپ اگر اس خطے کی تاریخ‘ سیاست‘ ریاستوں کی تعمیر و ترقی اور سلامتی کے علاقائی امور سے ابتدائی واقفیت رکھتے ہیں‘ تو جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس میں کچھ بھی حیران کن نہیں۔ خبر رکھنے والوں کو ساری صورت حال معلوم تھی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ویسے بھی منہ پھٹ ہیں‘ لیکن ہمارے ایک محترم عرب ملک کے بادشاہ سے جس انداز میں مخاطب ہوئے تھے‘ وہ سن کر ہم سب کی آنکھیں شرم سے جھک گئی تھیں۔ معاملہ چونکہ دوستوں کے مابین تھا‘ اس لئے ہم کیا کہہ سکتے تھے‘ یا اب کیا کہہ سکتے ہیں‘ لیکن یہ طے ہے کہ باہم دوستیوں اور اسرائیل کے ساتھ پُراسرار روابط کے اثرات چند ملکوں کی حدود تک نہیں رہیں گے۔ اس ''نئی‘‘ صف بندی کا مقصد بھی یہی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی سرپرستی میں اور اس کے زیر سایہ ایران کے خلاف اتحاد قائم کیا جائے‘ لیکن اس اندیشے کا ادراک کسی کو نہیں ہو پا رہا کہ اس خطے کے اندر اور باہر کوئی بھی علاقائی ملک بڑھتی ہوئی محاذ آرائی اور خفیہ جنگوں کے خوفناک شعلوں سے شاید محفوظ نہ رہ سکے گا۔ 
دوسری عجیب و غریب بات جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے زمرے میں کی جا رہی ہے‘ وہ بھی قابلِ غور ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ''امن‘‘ سمجھوتہ ہو رہا ہے۔ جن بادشاہوں نے حالیہ مہینوں میں یہودی ریاست کے ساتھ ہاتھ ملایا ہے یا اس کے حلیف ہیں مگر انہیں ابھی تک برملا کچھ کرنے کی جرأت نہیں ہو رہی‘ وہ کبھی بھی حالتِ جنگ میں نہ تھے۔ تو پھر کیسا ''امن‘‘ سمجھوتہ؟ یہ ضرور ہے کہ وہ اپنی تیل کی دولت کے پہاڑوں میں سے کچھ سکے فلسطینیوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کی غرض سے ان کی طرف پھینکتے رہے۔ ہماری دعا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امن ہو مگر آج کل وہاں امن کی باتیں کرنے والوں نے کئی جنگیں چھیڑ رکھی ہیں‘ اور روزانہ کی بنیادوں پر ان پر تیل چھڑکتے رہتے ہیں‘ کہ آگ کے شعلے انہیں دور سے نظر آ سکیں۔ اس بات سے نہ مغرب کو اور نہ ہی انکے عرب حلیفوں کو غرض ہے کہ جنگوں میں بچے مر رہے ہیں۔ ہر طرف بھوک‘ بیماری اور بیروزگاری کے سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں۔ اجڑے ہوئے دیار ہیں‘ گھر مسمار‘ نہ صاف پانی‘ نہ ادویات‘ زندگی بچانے کیلئے کچھ بھی نہیں۔ زندگیاں تباہ کرنے کیلئے جدید جنگی جہازوں کی بمباری ہے۔ توپوں کے دہانے کھلے ہوئے ہیں اور مختلف نوع کے عسکریت پسند جدید ہتھیاروں سے لیس اپنے ہم وطنوں‘ اہلِ مذہب عربوں کی زندگیاں تباہ کرنے پر تلے ہیں۔ مغربی ممالک‘ خصوصاً امریکہ کے دفاعی صنعتکاروں کی چاندی ہو گئی ہے کہ جنگیں ہوں تو انکی صنعتوں کا پہیہ چلتا ہے۔ تیل کی فروخت سے جمع شدہ زرِ کثیر کے تصرف کے کئی طریقے ایجاد ہوئے‘ ان میں اسلحہ کی خرید سب سے بڑھ کر ہے۔ 
سوچنے کی بات یہ ہے کہ انصاف کے بغیر امن کیسے قائم ہو سکتا ہے؟ فلسطین پر قبضہ ناجائز ہے‘ قابلِ مذمت۔ لیٹ جانے والے اور وہ بھی جو اپنی چٹائیاں لیٹنے کے لئے تیار کر رہے ہیں‘ دلیل یہ دے رہے ہیں کہ اسرائیل کی طاقت کا سکہ مان لینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ وطنِ عزیز میں بھی دانش ور گماشتے موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ فرماتے ہیں‘ ہمارا اسرائیل کے ساتھ کیا جھگڑا ہے؟ کوئی براہ راست جھگڑا نہیں‘ مگر فلسطینیوں کی حمایت ترک کر کے آپ کو ملے گا کیا؟ ہمارے گھٹنا ٹیک پرویز مشرف پہلے بھی اور اب بھی توجیہہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ اسرائیلی لابی ہمارے خلاف امریکہ اور مغرب میں متحرک رہتی ہے‘ مان جانے کی صورت میں خاموش ہو جائے گی۔ ایسا کبھی نہیں ہو گا! اس لئے کہ ان کے اہداف یہ ہرگز نہیں۔ ہمیں فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا رہنا چاہئے۔ ان کی اخلاقی‘ سفارتی اور مالی امداد جاری رکھنا چاہئے کہ یہ امداد بھی ان کے زخموں پر مرہم رکھنے سے کچھ زیادہ افادیت کی حامل ہے۔ جس انداز میں ہمارے عرب بھائیوں نے فلسطینیوں کو بے یارومددگار چھوڑا ہے‘ سفاکی سے کم نہیں۔ ان کا اندر ہی اندر اسرائیل کے ساتھ لین دین‘ پیار محبت‘ ایران کے خلاف مشاورت اور منصوبہ بندی تو ایک عرصے سے جاری تھی‘ کم از کم پردے ہی میں رکھتے۔ اسرائیل نے اپنے نئے عرب دوستوں کے احترام میں فلسطینی علاقوں کو یہودی ریاست کا حصہ بنانے کا عمل کچھ عرصے کے لئے ملتوی کر دیا ہے۔ ٹھیک ہے‘ فلسطینی قیادت کا ایک حصہ دو ریاستوں کے فارمولے کو قبول کر چکا ہے‘ لیکن اس کے بعد ہوا یہ کہ اسرائیل دریائے اردن کے مغربی مقبوضہ علاقوں میں بستیاں پھیلاتا چلا گیا اور حتمی سمجھوتے کو التوا میں ڈالتا چلا گیا۔ تین امور پر وہ اصرار کرتے رہے ہیں۔ فلسطینی مہاجرین کو واپس آنے کا حق دیا جائے‘ اسرائیلی بستیوں کا خاتمہ کیا جائے اور مہاجرین کی املاک کی واپسی کا اہتمام کیا جائے۔ ان میں سے کسی معاملے میں کچھ بھی نہیں ہوا۔ الٹا نقصان یہ ہوا کہ فلسطینی بھی دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئے۔ حماس اب بھی ایک فلسطینی ریاست کے اصول پر قائم ہے‘ جس میں ہر مذہب کے لوگ رہ سکتے ہوں اور جس کی بنیاد جمہوریت پر ہو۔ 
عربوں کو نہ جانے جلدی کس بات کی تھی؟ بجائے اس کے کہ دو ریاستوں کو ہی قابلِ عمل بنانے میں کچھ وزن فلسطینیوں کے پلڑے میں ڈالتے‘ صرف اپنی راہ نکال لی۔ اسرائیل شاید اونچی دیواریں کھڑی کر کے چین کی نیند سو سکے‘ مگر عرب جس مقصد کے لئے تزویراتی اتحاد کا حصہ بن رہے ہیں‘ وہ عرب سرزمینوں پر اندرونی صف بندیوں اور جنگوں میں مزید تیزی لا سکتا ہے۔ بادشاہوں کے بادشاہانہ فیصلوں سے نہ جانے کتنی اور قیمتی جانیں ضائع ہوں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں