یہ کوئی نئی بات نہیں‘ نہ ہی یہ دل کو چھونے یا ذہن میں اترنے کی کشش رکھتی ہے‘ مگر حزبِ اختلاف کے نئے اور پُرانے سیاسی کھلاڑی تحریکِ انصاف کی منتخب حکومت کو گرانے کا عزم سینے میں لئے میدان میں نکلنے کے لئے تیاریوں میں رات دن ہمہ تن مصروف نظر آتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ حکومت کو بھیج کر ہی اپنے اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔ تب تک گلیوں‘ سڑکوں‘ پارکوں‘ محلوں اور شہروں میں گھومتے رہیں گے۔ اگر جائیں گے بھی تو صرف دم لینے کے لئے‘ کچھ ضروری کاموں کو نمٹانے اور حکومت ہٹائو تحریک کے الائو میں مزید ایندھن جھونکنے کے لئے۔ اس نئی تحریک کے جماعتی اجزائے ترکیبی کا بغور مطالعہ کریں تو بات سمجھ میں شاید آ سکے کہ آخر ان لوگوں کو جلدی کس بات کی ہے۔ تحریکِ انصاف میں اس وقت کابینہ کے اراکین ہوں یا اسمبلیوں میں بیٹھے خواتین و حضرات‘ ان میں سے زیادہ تر ماضی میں کسی نہ کسی حزبِ اختلاف میں شامل سیاسی جماعتوں کا حصہ رہے ہیں۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس تحریک کا ہدف کون یا کیا ہو سکتا ہے؟ جب تحریکِ انصاف کی صفوں میں یہ لوگ نہیں تھے تب تو نہ پاکستان کو خطرہ تھا‘ نہ مہنگائی کا جن‘ بھوت اتنا ہڑبونگ مچاتا تھا‘ اور پاکستان اور منتخب حکومتیں‘ دونوں اکٹھا چلتے تھے‘ اور ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم بھی ٹھہرائے جاتے تھے۔ ہمارے ملک کے ''سنہرے جمہوری‘‘ ادوار میں یہ بیانیہ صرف برسرِ اقتدار سیاسی جماعت کا ہوا کرتا تھا۔ نون لیگ حزبِ اختلاف میں تھی تو وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی بادشاہی کا زمانہ تھا۔ تب مہنگائی اور کرپشن تو معصوم سے الزامات سمجھیں‘ قومی سلامتی کے لئے خطرے کے سب جائز اور ناجائز ہتھیاروں سے گولہ باری دہائیوں تک جاری رہی۔
اب دونوں جانب سے بیان حلفی جمع کرائے جا چکے ہیں‘ معافی نامے دئیے اور وصول کئے جا چکے ہیں؛ چنانچہ سوال یہ ہے کہ اب پُرانی باتوں کو دہرانے کا کیا فائدہ استاد جی؟ خاکسار کے ان سیاسی جماعتوں سے وابستہ شاگردوں کا اصرار رہتا ہے۔ مان لیا‘ مگر بات صرف اتنی ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی جب لکھا جا چکا تو مٹ سکتا ہی نہیں‘ بات وہیں رہ جاتی ہے‘ جہاں جب اور جن حالات میں کہی گئی تھی۔ کوئی نہیں کہے گا کہ وہ سیاسی نابالغ تھے‘ اور پختگی کے لئے چالیس سال کی سیاسی مشق کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ بات نہیں‘ بات کچھ اور ہے‘ اور اگر میں غلط نہیں (ارادتاً ہرگز نہیں) تو ہمارے دو بڑے سیاسی خاندانوں کو عمر بھر کی سیاسی سرمایہ کاری ڈوبتی دکھائی دیتی ہے۔ اللہ ان کو صحت دے‘ عمر دراز کرے اور ان کا سایہ جہاں بھی ہے‘ وہیں رہے‘ اور اپنے محبت کرنے والوں کے ساتھ رہے‘ مگر سیاسی سفروں کی تھکان اب جسم و روح پر غالب آ چکی ہے۔
دل بھرا نہیں‘ نہ سیاست جیسے منافع بخش کاروبار سے کبھی بھرا رہنے کی توقع رکھنی چاہئے۔ دل تو وہاں بھرتا ہے‘ جب تنخواہ پر گزارہ ہو‘ بادشاہت کے خواب قریب نہ پھٹکیں اور سیاست کو قومی اور عوامی خدمت کا مقدس فریضہ سمجھنے کا معاملہ رگ و ریشہ میں سرایت کر چکا ہو۔ ہمارے محترم سیاسی مشران کے دلوں میں ریاستِ پاکستان اور عوام کا دکھ درد روزِ اول سے گھر کر چکا ہے‘ اور جان ہی نہیں چھوڑتا۔ کیا وہ تاریک رات تھی کہ انتخابات کے نتائج آنا شروع ہوئے‘ عمران خان کے کھلاڑی دوڑ میں آگے تھے اور تیز رفتاری کے ساتھ بڑھے جا رہے تھے۔ عقل پر پردے ہوں‘ تاریخ اور سماجی حرکیات سے آگاہی واجبی سی ہو‘ اور سب سے بڑھ کر مخالفین کو حقیر سمجھنے کی سوچ غالب ہو تو ایسی ''تاریک‘‘ راتوں کا سامنا کرنا خلافِ فطرت نہیں۔ ہر طرف شور و غوغا بلند ہوا‘ ''پُرانے دشمنوں‘‘ اور نئے ''دوستوں‘‘ کے درمیان رابطوں کے سب ریکارڈ انتخابات کی ایک ہی ''تاریک‘‘ رات نے توڑ ڈالے۔ فیصلہ تو اس رات کی نیم شبی پریس کانفرنس میں ہو چکا تھا‘ باقی سب خاکے میں رنگ بھرنے کا عمل ہے‘ جو ابھی جاری ہے۔ کئی ''کل جماعتی‘‘ اجلاس منعقد ہوئے‘ دھواں دھار تقاریر‘ کیمروں کے سامنے اعلانات کہ ''غیر جمہوری‘‘ حکومت کو چلنے نہیں دیں گے۔ پانی کی گہرائی ماپنے کے لئے مولانا صاحب ایک جتھا ساتھ لے کر اسلام آباد میں دھرنا دینے بھی تشریف لائے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑئی کی جائیں گی‘ لیکن توقعات کے خلاف‘ نہ کسی نے روکا‘ نہ پولیس کے ڈنڈا بردار سامنے آئے اور نہ ہی کوئی حکومتی نمائندہ مذاکرات کرنے آیا۔ دو بڑی سیاسی جماعتوں سے مولانا صاحب نے بہت توقعات باندھ رکھی تھیں کہ وہ دس لاکھ کا مجمع چند دنوں میں منظم کر کے تحریکِ انصاف کی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے۔ انہوں نے خطاب کیا‘ لیکن وہ ‘ جو ساری عمر بلکہ بچپن سے سنتے آئے تھے۔ جب بوریت نے جھنڈے گاڑنے شروع کئے‘ اور تازہ دم دستے بلانے میں بھی دشواریاں حائل ہونے لگیں تو ''انقلابی‘‘ قافلے نے واپسی کا اعلان یہ کہتے ہوئے کہا کہ اب وہ ہر شہر میں دھرنا دیں گے۔ بعد میں وہ یہ کہتے رہے کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ پھر ایک سوال سامنے آ گیا ہے‘ یہ کہ وہ تو انتہائی تجربہ کار‘ جہاں دیدہ اور زیرک انسان ہیں‘ تمام سیاسی معاملات اور چالوں سے بخوبی آگاہ ہیں‘ پھر کون ان کی آنکھوں میں دھول جھونک سکتا ہے؟ سیانے کہتے ہیں کہ دل و دماغ پر غصہ اور نفرت قبضہ کر لیں تو انسان اپنی عقلی صلاحیتوں سے بہرہ مند نہیں ہو سکتا۔ ایسی صورت حال ہو تو پھر جذبات نکیل ڈال کر ہمیں انجانے راستوں پر گھسیٹتے رہتے ہیں۔
مجھے خدشہ ہے کہ مولانا صاحب کو آگے کرنے والے کہیں اس بار بھی اپنے ضروری کاموں میں کہیں اور نہ کھو جائیں اور مولانا ایک بار پھر ان کی راہ ہی تکتے نہ رہ جائیں۔ اس نکتے پر آئندہ کبھی بات ہو گی۔ جلدی دراصل سب حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کو ہے‘ خصوصی طور پر جمعیت علمائے اسلام‘ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو‘ اور سبب یہ ہے کہ آئندہ سال مارچ میں سینیٹ کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور موجودہ پارٹی پوزیشن کو سامنے رکھیں تو اس الیکشن میں تحریکِ انصاف اور اس کی اتحادی اکثریت حاصل کر لیں گے۔ پیپلز پارٹی کو بھی شاید چند سیٹیں مل جائیں‘ لیکن نون لیگ کی نمائندگی میں خاصی کمی واقع ہو جائے گی۔ اس کامیابی کے نتیجے میں کپتان کے ہاتھ کھل جائیں گے اور ان کی جانب سے جو اصلاحات جاری ہیں یا باقی ہیں‘ ان کو قانون کا سہارا دینے میں دقت نہیں ہو گی۔ گزشتہ چند ماہ میں معیشت میں بہتری کے اثرات نمودار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ سیاسی استحکام ہو تو مزید مثبت پیش رفت کی توقعات اور اندازے غیر حقیقی نہیں۔ بحران پیدا کرنے والوں کا مقصد ڈھکا چھپا نہیں کہ افراتفری پیدا کر دی جائے تو اقتصادی بحالی کا عمل سست پڑ جائے گا اور ''غریب مر گیا‘‘ ''ملک تباہ ہو گیا‘‘ جیسے نعروں کی گونج نئی بلندیوں کو چھو سکے گی۔
کئی محرکات ہیں جو سب اس وقت سامنے نہیں لائے جا سکتے کہ بات کرنے اور لکھنے کا بھی وقت ہوتا ہے۔ صرف ایک بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ دو موروثی خاندان اپنے اپنے جانشینوں کو اگرچہ گدی سنبھالنے کے لئے نامزد کر چکے ہیں‘ اور ان کی تخت نشینی با ہوش و حواس ''دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں‘‘ کے ساتھ کرنا اس لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ دنیا کے سب کاموں میں ان کے نزدیک یہ افضل ترین ہے۔ بادشاہت‘ سلطنت سازی اور سیاسی جاگیرداری میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ مقابلہ کپتان سے ہے‘ تیسری سیاسی قوت جوان ہے‘ متحرک اور پُر اعتماد بھی‘ اور مخالف جو بھی کہیں‘ سڑکوں پر لاکھوں لوگوں کو صرف وہی لا سکتے ہیں۔ چلو آخری معرکہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔