میں اب اس رائے سے اتفاق کرنے لگا ہوں کہ جب تک آخری ووٹ ڈبے میں نہ ڈل جائے‘ نتائج کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس وقت یہی کہا جا سکتا ہے کہ جو بائیڈن رائے عامہ کے لحاظ سے آگے جا رہے ہیں؛ تاہم چھ دن ابھی باقی ہیں‘ کوئی ایک واقعہ بھی سب کچھ تبدیل کر سکتا ہے۔ اس مرتبہ کچھ مزید امریکی ریاستوں نے الیکشن کے دن سے قبل ووٹ دینے کے لئے قانون سازی کی ہے۔ کچھ ریاستوں میں ضروری تھا کہ ووٹ ڈالنے کے عمل کو کئی دن پہلے جاری کر دیا جائے۔ امریکہ میں ہر ریاست الیکشن کا انعقاد کرتی ہے۔ اس کی ذمہ داری سیکرٹری آف سٹیٹ کے سپرد ہوتی ہے۔ ہر شہر‘ گائوں اور کائونٹی میں مقامی تنظیم‘ جو مقامی شہریوں پر مشتمل ہوتی ہے‘ الیکشن کا انعقاد کرتی ہے۔ انتخابی قوانین ریاستی بھی ہوتے ہیں اور وفاقی بھی۔ کچھ سالوں سے یہ بات ہو رہی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیا جائے جس کے تحت ہر شہری اپنے گھر بیٹھے ووٹ ڈال دے۔ یہ بالکل ممکن ہے‘ مگر ابھی اس پر کوئی حتمی اتفاق رائے پیدا نہیں ہو سکا۔ میرا خیال ہے کہ اگر ایسا ہوا تو انتخابات کے دن کی گرما گرمی‘ جوش و خروش‘ میلے کا سا سماں اور ایک تاریخی روایت دم توڑ جائے گی۔ ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالے جا سکتے ہیں۔ دہائیوں سے یہ طریقہ کار رہا ہے کہ اگر کوئی شہری ملک سے باہر کہیں سرکاری طور پر مامور ہے یا کہیں تجارت یا تعلیم کے حصول میں مصروف ہے تو وہ ڈاک کے ذریعے بیلٹ پیپر حاصل کر کے‘ اس پر اپنے پسندیدہ امیدوار کی نشان دہی کر کے‘ اسے لفافے میں بند کر کے اپنی ریاست کو بھجوا سکتا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈاکی ووٹوں کو متنازعہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کا الزام ہے کہ یہ ووٹ غیر قانونی تارکینِ وطن ان کے خلاف ڈال رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر وہ ہار گئے تو اپنے مخالف کی جیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں گے۔ یہ سوال ان سے کئی دفعہ کیا جا چکا ہے۔ بس گول مول سا جواب دے دیتے ہیں۔ میرے خیال میں ان کے اپنی ہار ماننے یا نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا‘ ہاں البتہ اگر صورت حال ایسی بنتی ہے جیسی چند برس قبل صدارتی الیکشن کے وقت الگور اور جارج ڈبلیو بش کے مابین بنی تھی تو معاملات عدالتوں میں گھسیٹے جا سکتے ہیں۔ تب فلوریڈا ریاست کے انتیس الیکٹورل کالج کے ووٹوں پر صدارتی امیدواروں کی ہار یا جیت کا فیصلہ ہوا تھا۔ گنتی بھی صرف چند کائونٹیوں میں دوبارہ کی گئی۔ اگر پہلی والی گنتی برقرار رہتی تو الگور جیت جاتے۔ ریاستی سپریم کورٹ نے فیصلہ الگور کے حق میں دیا تھا۔ وفاقی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کالعدم قرار دیا تو دوبارہ گنتی کو جائز تسلیم کیا گیا‘ جس سے الگور کے سینکڑوں ووٹ مسترد ہو گئے تھے۔
اس وقت ڈیموکریٹس کی کوشش ہے کہ لوگ گھروں سے باہر نکلیں۔ زیادہ سے زیادہ لوگ ووٹ ڈالیں تو جو بائیڈن جیت سکتے ہیں اور انہیں زیادہ سے زیادہ ریاستوں میں جیتنے کی ضرروت ہے تاکہ صدر ٹرمپ الیکشن کو متنازع نہ بنا سکیں۔ ری پبلکن پارٹی کے روایتی حلقے جو زیادہ تر بالا و متوسط طبقوں‘ سفید فام آبادی اور مذہبی طور پر دائیں بازو کی تنظیموں سے تعلق رکھتے ہیں‘ بہت متحرک نظر آتے ہیں۔ وہ بھی زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ووٹ ڈلوانے کی تگ و دو میں ہیں۔ اندازہ یہ ہے کہ اس مرتبہ الیکشن میں ووٹ ڈالنے کی شرح کا نیا ریکارڈ بنے گا۔ اب تک تقریباً ایک چوتھائی سے کچھ زیادہ ووٹ ڈالے جا چکے ہیں۔ ماضی میں امریکہ میں انتخابات کے حوالے سے جو تحقیق کی گئی‘ اس کے مطابق اگر لوگوں کے ووٹ ڈالنے کی شرح روایتی سطح سے بڑھ جائے تو نتائج غیر یقینی ہو سکتے ہیں۔ اس وقت میرا اندازہ یہ ہے کہ جو بائیڈن اگلے صدر ہوں گے۔ کئی دہائیوں سے اپنی جامعہ میں امریکی سیاست پڑھا رہا ہوں‘ اور اس وقت بھی یہ کورس جاری ہے‘ لیکن حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کیا صورت حال پیدا ہو گی۔ کچھ عرصہ لاہور میں رہنے کا اثر یہ ہوا کہ امریکہ کے گزشتہ صدارتی الیکشن کے حوالے سے لاہوری بڑھک مار بیٹھا۔ اپنے بہت ہی قریبی دوستوں کے حلقے میں ہلیری کلنٹن بمقابلہ ڈونلڈ ٹرمپ پر بحث مباحثہ چل نکلا تھا۔ چار سال قبل بھی امریکی سیاست پر کورس پڑھا رہا تھا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ امریکہ کے صدارتی الیکشن کے بارے میں کوئی پیشگوئی نہ کروں‘ مگر دبائو بڑھتا گیا کہ آپ تو ''ماہرِ سیاست ‘‘ ہیں اور امریکی سیاست کے بارے میں پڑھا بھی رہے ہیں‘ تو کھل کر بات کیوں نہیں کرتے؟ ہمارے دوستوں میں پروفیسر عابد امان برکی صاحب‘ عرصہ تک امریکہ میں مقیم رہے اور اعلیٰ تعلیم وہیں سے حاصل کی‘ اب اقتصادیات کے شعبے میں ملک کے معروف استاد اور محقق ہیں‘ ڈٹ گئے کہ ٹرمپ جیت جائیں گے۔ اس وقت ارد گرد جمع عوام نے جب میرے خلاف نعرے بازی شروع کر دی اور کم علمی اور بزدلی کے طعنے دئیے تو 'مرتا کیا نہ کرتا‘ میں نے بھی ہلیری کلنٹن کا جھنڈا لہرانے کا فیصلہ سنا دیا‘ اور زور دے کر کہا کہ وہ جیت جائیں گی۔ نعرے باز عوامی گروہ کا مقصد ہاری ہوئی پارٹی سے پُر تکلف ضیافت اڑانے کے سوا کچھ نہ تھا۔ نظریات اپنی جگہ مگر صدر ٹرمپ کی طرف دل کبھی راغب اس لئے بھی نہیں ہوا کہ جیت تو وہ گئے‘ لیکن جیب میری کاٹ دی گئی۔
جیسے وطنِ عزیز میں بہت سے ہم پر بلکہ سب پر بھاری ہیں‘ گزشتہ چار برسوں سے ڈونلڈ ٹرمپ مجھ پر بھاری رہے ہیں کہ میری کم علمی سب کے سامنے کھل کر آ گئی۔ پروفیسر برکی نے ملک بھر میں کوئی اجلاس‘ کوئی سیمینار اور کوئی کانفرنس نہیں چھوڑی جہاں انہوں نے اپنی جیت کی داستان پُر لطف انداز میں نہ سنائی ہو۔ چلو اس مرتبہ دیکھتے ہیں‘ کیا ہوتا ہے؟ سیاست کے بارے میں پیش گوئی کرنا شیخ رشید احمد صاحب ''فرزندِ پاکستان‘‘ کا شعبہ ہے‘ ہمارے جیسے‘ جو کونوں کھدروں میں رہ کر زندگی گزارتے ہیں‘ کے یہ بس کی بات نہیں۔ تین باتیں امریکی الیکشن کے بارے میں یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہیں: الیکشن کا دن مقرر ہے‘ کبھی تبدیل نہیں ہوتا‘ نہ کبھی ہوا ہے۔ صدارتی انتخاب کے لئے ووٹ براہ راست صدارتی امیدواروں کو ڈالے جاتے ہیں‘ مگر وہ ووٹ قومی سطح پر نہیں ریاستوں میں گنے جاتے ہیں۔ ریاست میں جیتنے والا امیدوار اس ریاست کے سب الیکٹورل کالج ووٹ حاصل کر لیتا ہے۔ الیکٹورل کالج اور صدارتی انتخابی حلقوں کی کل تعداد 538 ہے جو ریاستوں میں ان کی آبادی کے لحاظ سے تقسیم شدہ ہے۔ یہ تعداد ہر ریاست کانگریس میں اپنے نمائندوں کے برابر لیتی ہے۔ کوئی امیدوار اگر قومی سطح پر مجموعی طور پر حریف سے زیادہ ووٹ بھی حاصل کر لے‘ مگر الیکٹورل ووٹوں کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے تو ہار سکتا ہے۔ ہلیری کلنٹن کے مجموعی ووٹ ڈونلڈ ٹرمپ سے تقریباً 29 لاکھ زیادہ تھے۔
امریکہ کی پچاس ریاستوں میں سے اکثر میں تقریباً سب کو معلوم ہے کہ کون سی پارٹی ماضی میں تواتر سے جیتتی رہی ہے۔ اس وقت گیارہ ریاستوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کس طرف جائیں گی۔ ان میں فلوریڈا بھی شامل ہے۔ روایت یہ ہے کہ جو فلوریڈا میں نہیں جیتا‘ وہ ماضی میں صدر منتخب نہیں ہو سکا۔ امریکی جمہوریت میں روایات پختہ ہیں‘ الیکشن ہارنے والا امیدوار نتائج آنے پر‘ جو عموماً رات گئے معلوم ہو جاتے ہیں‘ فون اٹھاتا ہے اور فوراً مدِ مقابل کو مبارک باد دیتا ہے۔ اپنی روایات تو معلوم ہی ہیں کہ دل دکھتا اور روح سلگتی رہتی ہے۔