حالیہ بارش سے اسلام آباد اور ملحقہ پہاڑیوں پر کئی ماہ سے جما گردوغبار دھلا تو پت جھڑ کے رنگ نکھرنے لگے۔ اسلام آباد موسم اور محلِ وقوع کے اعتبار سے دنیا کے منفرد شہروں میں سے ایک ہے۔ اس کی منصوبہ بندی پر سوال تو ناقدین اٹھاتے رہتے ہیں‘ اور ان میں سے کچھ جائز بھی ہیں‘ مگر جو کچھ ابھی تک بن چکا ہے‘ بے شمار خامیوں کے باوجود قابلِ فخر ہے۔ یہ خاکسار ان خوش نصیبوں میں سے ہے‘ جسے سر چھپانے کی ایک کونے میں جگہ ملی ہوئی ہے۔ جہاں رہتا ہوں‘ بس سمجھیں آباد کاروں میں اولین لوگوں میں سے تھا۔ سب کچھ بنتا‘ ترقی پاتا اور سنورتا اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا ہے۔ جامعہ پنجاب میں تعلیم مکمل کی تو سیانوں نے نوکری کی تلاش میں اسلام آباد کا رخ کرنے کا مشورہ دیا۔ جنوری 1974 سے پہلے اسلام آباد کبھی دیکھا تک نہ تھا‘ بلکہ لاہور سے شمال کی طرف سوائے شاہدرہ کے کبھی سفر نہیں کیا تھا۔ تب اسلام آباد زیرو پوائنٹ سے شروع ہوکر شمال کی جانب مارگلہ کی پہاڑیوں اور مشرق میں ایمبیسی روڈ پر یعنی چار کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہوا کرتا تھا۔ آب پارہ‘ میلوڈی مارکیٹ اور سپر مارکیٹ شہریوں کیلئے خریدوفروخت اور ہمارے جیسے نووارد نوجوانوں کیلئے گھومنے پھرنے کی جگہیں تھیں۔ کورڈ مارکیٹ کو میں بھول ہی گیا جو اپنی طرزِ تعمیر کی منفرد مثال تھی‘ مگر چالیس سالہ مارا ماری اور لوٹ کھسوٹ کے دور میں نہ جانے کیوں زمین بوس کر دی گئی۔ شروع کے مہینوں میں میرا ٹھکانہ اس مارکیٹ کے سامنے والی گلی میں تھا۔ یہاں سے پیدل چل کر سارے اسلام آباد میں مٹر گشت کیا جا سکتا تھا۔
لاہور سے تو پُرانی محبتیں ہیں اور اس زمانے سے جب ہم محبت کے خوابوں کی دنیائوں میں مست رہتے تھے‘ مگر اسلام آباد دل کو بھا گیا۔ اس کے قدرتی حسن کی تاثیر دل میں اتر گئی۔ نورپور شاہاں سے پہاڑوں کی طرف نکل جاتے‘ پورا دن مارگلہ کی پہاڑیوں میں سفر کرتے۔ نصف صدی بعد بھی دل ابھی بھرا نہیں‘ پائوں میں سکت ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا شہر ہوکہ چند منٹوں کے فاصلے پر پہاڑوں کا خوبصورت سلسلہ شروع ہو جائے اور اگر آپ مہینوں کے سفر کیلئے بھی نکل پڑیں تو کبھی ختم نہ ہو۔ جب پہاڑوں سے اترتے‘ دم لیتے‘ کام کاج سے فارغ ہوتے تو آب پارہ کے قریب گلاب و یاسمین باغ کی سیر ہوتی اور اس کے ساتھ شکرپڑیاں کے جنگلات میں واک‘ پھر لوٹس لیک کے کنارے بیٹھ کر انجانی خیالی دنیا میں کھوئے رہتے۔ میلوڈی کے ساتھ ارجنٹینا پارک‘ جو آج کل کسمپرسی کا شکار ہے‘ ہمارے جیسوں کیلئے پُر کشش ہوا کرتا تھا۔ کبھی فرصت ہوئی تو ہر جگہ کے بارے میں تفصیل سے لکھوں گا۔ ایک بات جو میں لاہور اور اسلام آباد کی خوبصورتی کے بارے میں کرنا چاہتا ہوں‘ وہ ان کے باغات اور سیرگاہیں ہیں۔ اسلام آباد کا فاطمہ جناح پارک تو شہر کے ماتھے کا جھومر ہے۔ اس پہ بھی حریص لوگوں کی نظریں لگی رہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ اس کا ایک حصہ ہوٹلوں کو غیرقانونی طور پر الاٹ ہوا‘ ایک حصے پر ایک کلب بنا اور ایک ٹکڑے پر کچھ لوگوں نے ایک عمارت کھڑی کر لی۔ سب بند پڑے ہیں‘ مگر اب بھی جو کچھ ہوسِ زر کے ماروں سے بچا ہے‘ وہ غنیمت ہے۔
اسلام آباد کا کوئی سیکٹر ایسا نہیں جہاں ایک سے زیادہ پارک نہ ہوں۔ سیکٹروں کے درمیان گرین ایریا بھی چھوڑا گیا ہے‘ مگر کہیں کہیں کچھ لوگوں نے راتوں رات کچھ عمارتیں کھڑی کر لیں‘ جو پہلے وہاں موجود نہ تھیں۔ گزشتہ دو برسوں میں عمران خان صاحب نے اربوں درخت لگانے کا کام شروع کروایا تو اسلام آباد کی انتظامیہ میں بھی کچھ تحریک پیدا ہوئی‘ مگر زیادہ تر سست روی کا شکار رہی۔ یہاں کے شہری انتظامات مسلم لیگ ن نے ایک ایسے کل پرزے کے حوالے کیے‘ جو میرے نزدیک اس کا اہل نہ تھا۔ پارکوں کی حالت موروثیوں کے سیاسی دور میں ناگفتہ بہ رہی۔ ہزاروں کی تعداد میں خلائی ملازمین تھے‘ جو تنخواہیں لیتے تھے‘ مگر مجال ہے کہ روزی حلا ل کرنے کیلئے ہاتھ پائوں حرکت میں آتے۔ ان معاملات سے تنگ آ کر آخر حکومت نے کچھ ذمہ داریاں کارپوریشن کے کھاتے سے نکال کر سی ڈی اے کے حوالے کیں تو تبدیلیاں فوراً ہونے لگیں۔ پاکستان ہی نہیں‘ کسی بھی ملک کی بات کریں یا کسی بھی ادارے کی‘ تو اس کا سربراہ اگر ایماندار‘ محنتی اور لگن سے کام کرنے والا ہو تو مثبت تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ لوٹ مار کا پروگرام ہو‘ تو وہ بھی سامنے آ جاتا ہے۔ اسلام آباد کے کمشنر یا ڈپٹی کمشنر سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن اسلام آباد کے جو منصوبے دہائیوں سے بند تھے اور موروثی مال پانی بنا کر بند کر گئے تھے‘ انتہائی محنت اور کمال انتظامی صلاحیت سے ان نوجوانوں افسروں نے بحال کرکے ان پر کام شروع کرا دیئے۔ یہاں تفصیل کی ضرورت نہیں‘ مگر آپ اس شہر میں رہتے ہیں اور شہر کی خبروں سے دلچسپی ہے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ای 12 سیکٹر بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں شروع ہوا تھا‘ اس کے مسائل ابھی تک ہیں‘ مگر اس پر بتیس سال بعد ابھی کام شروع ہوا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں میں لوگ فریادیں لے کر گئے‘ اور اکثر تو اپنے گھر میں زندگی گزارنے کا خواب سینے میں دفن کر کے زمین کے سینے میں جا سوئے۔ پارک اینکلیو زرداری صاحب کے دور میں شروع ہوا تھا‘ اب بارہ برس بعد اس پر دوبارہ کام شروع ہو سکا۔
بات پارکوں سے شروع ہوئی تھی۔ میرے سیکٹر میں ایک نہیں چار پارک ہیں۔ ایک گلی کے شروع میں ہے‘ جہاں صبح کی سیر دہائیوں سے معمول ہے۔ سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی آٹھ دس مرد و خواتین درختوں کے درمیان بنے پختہ راستوں پر چکر چلاتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ ادوار میں کئی بار شکایتیں درج کرائیں کہ پارک صاف نہیں‘ مالی کام کرنے نہیں آتے‘ لیکن کسی کے کام پر جوں تک نہ رینگی۔ ہر طرف گندگی کے ڈھیر لگے رہتے ہیں۔ کئی ماہ پہلے تک یونین کی ڈرامہ بازی کا بہت زور تھا۔ یونین پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا‘ مگر جو کرپشن سیاسی وزیروں سے شروع ہوئی اس نے سارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ سرکاری محکموں میں یونینوں نے تباہی مچا رکھی ہے۔ مالی تو پارکوں میں ہزاروں کی تعداد میں ہیں‘ مگر خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ ان پر تعینات افسران تنگ رہے ہیں۔ کسی کو کام پر آنے پر مجبور نہیں کر پاتے۔ کمشنر کے پاس سی ڈی اے کا چارج بھی ہے۔ انہوں نے مخلص اور محنتی افسران کو پارکوں کا نظام درست کرنے پر لگایا تو سب کچھ دو ماہ کے اندر تبدیل ہو گیا۔ یونین سے جان چھڑانا تو مشکل ہے‘ مگر انتظامی صلاحیت‘ استقامت اور اپنے کام میں کوئی الجھائو نہ ہو تو خلائی ملازمین کا تدارک کوئی مشکل کام نہیں۔
رونا دھونا تو بہت ہے کہ افسر شاہی کام نہیں کر رہی‘ مگر جہاں کام کر رہی ہے اور آنکھوں کے سامنے ہے‘ وہاں شاباش دینے میں بخل سے کام لینا کم مائیگی ہو گی۔ اپنی سماجی نفسیات کے بارے میں پہلے بھی کبھی تذکرہ کیا تھاکہ ہم ہر چیز کو ایک ہی رنگ میں رنگنے اور دیکھنے کی عادی بن چکے ہیں۔ جیسے پاکستان نے نہ پہلے ترقی کی اور نہ آئندہ کر سکتا ہے‘ سارا تعلیمی نظام تباہ ہو چکا ہے‘ غریب مر رہا ہے اور سرکاری ملازمین اور سیاستدان سب بدعنوان ہیں۔ معاشروں کا تجزیہ جزئیات میں ہوتا ہے اور سیاست کا بھی۔ میرے سیاسی بھائیوں اور میرے جیسے قلم کاروں میں یہ رجحان کہیں زیادہ ہے کہ ہم اپنی مایوسیوں کی عینک سے ہر نظر آنے والی چیز کا جائزہ لیتے ہیں۔ دیکھ رہا ہوں‘ اسلام آباد کے پارکوں کی صفائی‘ درختوں کی دیکھ بھال اور مزید شجر کاری معیاری‘ دلکش اور شہری خوبصورتی کی بحالی میں تبدیلی کیلئے اہم قدم ہے۔