"RBC" (space) message & send to 7575

سرما کی تپش

اکیس دسمبر کو سال کا سب سے چھوٹا دن اور سب سے لمبی رات تھی۔ کرۂ زمین کی گردش کے کئی رنگ ہیں‘ مگر ان دنوں جب سورج کے آمنے سامنے اس کا رخ تبدیل ہوتا ہے تو اس کے شمالی حصے سخت سردی محسوس کرنے لگتے ہیں‘ جنوب میں موسم اس کے بالکل الٹ ہوتا ہے۔ سردیوں میں ہماری زندگی دن کے اوقات میں سورج کی روشنی کی منتظر رہتی ہے۔ دھوپ نکلے تو ایک دلگداز نرم نرم حرارت کا احساس‘ نہ نکلے تو سرمائی اندھیروں میں انجانے خوف کے حملے۔ تاریکی اندیشوں کی صرف علامت نہیں بلکہ انسانی نفسیات کی ساخت میں اسے فکر مندی کے ساتھ پیوست کر دیا گیا ہے۔ دیکھا نہیں کہ ہم کس قدر جلدی کرتے ہیں کہ شام ہونے والی ہے‘ جلدی گھر یا محفوظ ٹھکانے پر پہنچ جائیں۔ گڈریے اور ان کی بھیڑوں کے ریوڑ ڈھلتے سورج کی سرخ گلابی دم توڑتی شعاعوں میں نرم زمین کی خاک اڑاتے تیز رفتاری سے اپنے ٹھکانوں کا رخ کرتے ہیں۔ جانوروں میں بھی اپنی جبلت کے تقاضوں سے خود حفاظتی کا نظام قدرت نے رکھ دیا ہے۔ آج کل شام ہوتے ہی پرندے غروبِ آفتاب سے کچھ پہلے بلند عمارتوں کی منڈیروں اور درختوں کی چوٹیوں پر بیٹھ کر سورج کا آخری دیدار اس رغبت سے کرتے ہیں کہ شاید یہ کل نکلے یا نہ نکلے۔ ہماری طرح چرند پرند بھی دن کی روشنی میں اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتے ہیں۔ کاش ہم پرندوں کی عادات سے کچھ سیکھ سکتے کہ وہ فطرت کے قریب کتنے آسودہ ہیں‘ اور کس طرح وہ اپنی زندگی کو ایک طے شدہ پروگرام کے مطابق گزارتے ہیں۔ صبح پَو پھٹنے کے قریب وہ اپنے گھونسلوں سے نکل پڑتے ہیں‘ رزق کی تلاش میں۔ سرما کی لمبی راتوں میں درختوں کی ٹہنیوں پہ بھوکے پیاسے رہنے کے بعد روشنی کے لئے مضطرب ہوتے ہیں۔ صبح کی اذان کے بعد جاگ جاتے ہیں اور ٹہنیوں پہ بیٹھے بیٹھے ہی شور مچانا شروع کر دیتے ہیں‘ جیسے ایک دوسرے کے ساتھ بلند آوازوں میں ان مشوروں میں مصروف ہوں کہ دن کہاں اور کیسے گزارنا ہے۔ کیا ان کی خوش نصیبی ہے کہ سورج‘ جو نباتات سے لے کر انسانوں کی زندگیوں تک میں توانائی بھرتا ہے‘ کو ابھرتے ہوئے اور ڈوبتے ہوئے دیکھتے ہیں! ہمارے بزرگ اور گزری نسلیں‘ جن کا تعلق ہمارے دیہی سماج سے تھا‘ کی زندگی سورج اور موسموں کی گردش کے ساتھ ساتھ چلتی تھی۔ سونا‘ جاگنا‘ اٹھنا‘ بیٹھنا اور کھانے پینے کے اوقات گھڑیوں کی سوئیوں کے رخ بدلنے سے نہیں سورج کے بدلتے مدار سے وابستہ تھے۔ ہم پتہ نہیں کن مایوسیوں اور کن ان گنت خواہشوں کے اسیر ہو چکے ہیں کہ اس ملک کے موسموں سے بھی لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔ پاکستان کے سرما کی قدر آپ کو تبھی ہو سکتی ہے جب آپ نے دنیا کے سرد علاقوں‘ شمالی امریکہ اور شمالی یورپ‘ میں کچھ وقت گزارا ہو۔ وہاں کئی جگہیں ایسی ہیں جہاں کئی مہینے اندھیرا ہی چھایا رہتا ہے۔ سردی بذات خود کہیں بھی کوئی مسئلہ نہیں‘ اگر سورج آسمان پر نظر آئے‘ اس کی کرنیں ہمارے بدن کو چھوئیں اور سامنے کا منظر کھل کر سامنے آ جائے۔ انسان بھی عجیب مخلوق ہے کہ ہر موسم اور آب و ہوا کے ساتھ جڑ جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ لوگ قطب شمالی کے قریب‘ جہاں سردیوں میں سورج اڑھائی مہینے سرے سے نکلتا ہی نہیں‘ نہ جانے کب سے نسل در نسل آباد ہیں‘ خوش ہیں اور اپنا طرز زندگی بدلنے کے لئے تیار نہیں۔ آج کے دور میں ان کی پریشانی یہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں کہیں ان پر اثر انداز نہ ہو جائیں۔ وہ فقط مچھلیوں اور جانوروں کا شکار کر کے زندگی گزارتے ہیں۔ 
ہمارے ہاں تو سال بھر سارے ہی موسم آتے جاتے رہتے ہیں۔ ایسا تنوع ہمارے علاوہ اس خطے کے کچھ اور ممالک کو بھی میسر ہے۔ جنوب میں جائیں تو سردیاں نہیں بلکہ بہار اور خزاں جیسا معتدل اور خوشگوار‘ شمال میں منفی بیس سے بھی زیادہ گرا ہوا درجہ حرارت۔ چند دن پہلے ہی معلوم ہوا کہ بلتستان میں سال کی سب سے لمبی رات کو ایک تہوار منایا جاتا ہے‘ جسے مے فنگ (May Fang) کہا جاتا ہے۔ مے آگ کو کہتے ہیں اور فنگ کا مطلب پھینکنا ہے۔ مغرب کے بعد نوجوان گھروں سے جلتی ہوئی لکڑیاں (آپ انہیں مشعلیں کہہ لیں) ہاتھوں میں لئے پہاڑوں کی طرف چلتے ہیں۔ کچھ وہاں پہنچ کر آگ کو روشن رکھتے ہیں۔ سرد تاریکی میں نور کا سماں لوگوں کے دلوں سے خوف نکال کر امید کی گرم شعاعوں سے بھر دیتا ہے کہ اگلے دن سورج کی تمازت اور دن کی لمبائی میں کچھ ساعتوں کے ٹھہرائو کے بعد اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ شمالی قطب کے لوگ اسی طرح کا تہوار آگ کے شعلے بلند کر کے مناتے ہیں کہ روشن دنوں کا استقبال پُرتپاک طریقے سے ہو۔
سرما کی آمد کے ساتھ دریائے سندھ کے کنارے جانے کے لئے دل مچلنے لگتا ہے۔ ہر سال ان دنوں وہاں کچھ ہفتے پڑائو پڑتا ہے۔ کچھ صاحبِ ذوق دوست لاہور سے بھی تشریف لاتے ہیں۔ اس بار کورونا کی وبا نے ہمیں محدود کر رکھا ہے‘ مگر بے تابی بڑھ رہی ہے۔ دیکھیں عقل اور عشق کی اس کشمکش کا فیصلہ کب اور کیا ہوتا ہے۔ سردی ہو اور سورج آب و تاب سے نکلا ہوا ہو تو دھوپ میں بیٹھ کر انسان کسی اور ہی دنیا میں نکل جاتا ہے‘ مگر ہمیں یہ مہلت اس مصروف زندگی میں کہاں کہ ہر ایک کو کئی زنجیریں پڑی ہوئی ہیں۔ مجھ پر دھوپ میں بیٹھتے ہی نیند کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ ایسی استراحت اور بے خودی کہ بس فطرت کا احسان اور تحفہ ہی سمجھیں۔ آپ کا تجربہ بھی اس سے مختلف نہ ہو گا‘ لیکن جونہی سورج ڈھلوان کی طرف اپنا منہ کر لیتا ہے سر پر گرم ٹوپی آ جاتی ہے اور گرم کپڑوں کی طرف ہاتھ خود بخود اٹھ پڑتے ہیں۔ آج کے دور میں تو بہت آسودگیاں میسر ہیں کہ اندر آتے ہی گیس کے ہیٹر کو دیا سلائی دکھائی اور بغیر دھوئیں کے ماحول یکسر گرم ہو گیا‘ لیکن یہ سہولتیں سب آبادی کو حاصل نہیں‘ اور شاید ہو بھی نہ پائیں کہ آبادی اور وسائل کا تناسب اب غیر فطری حدوں کو چھو چکا ہے‘ لیکن دیہات میں گھروں کو گرم رکھنے کے پُرانے طریقے ہم استعمال کریں تو شاید گیس کی عدم فراہمی یا کمی کا احساس زائل ہو جائے۔ گھر تو دیہات میں بھی پکے بنتے ہیں‘ جو سردی اور گرمی میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکتے۔ کاش ہمارے ماہرینِ تعمیرات اور ہم سب وہی مقامی اسباب استعمال کرتے‘ صرف مٹی کی دیواریں اور خس و خاشاک کی چھتیں‘ تو فقط چند لکڑیاں گھر کے اندر بنی انگیٹھی میں جلانے یا چولہے میں انگارے سلگانے سے ہم آسودگی محسوس کرتے۔ میرا سارا بچپن اسی ماحول میں گزرا۔ سردیاں آتے ہی والدہ محترمہ گھر کے کمروں کو چکنی مٹی کا باریک لیپ کرتیں‘ جیسے آج کل ہم رنگ و روغن کرتے ہیں۔ مٹی کی خوشبو کئی ہفتوں تک فضا میں رچی رہتی۔ جونہی ہم اندر منتقل ہوتے‘ شام کو کمرے کے وسط میں بنی انگیٹھی میں آگ جلاتے اور اس کے ارد گرد بیٹھ کر رات گئے تک ایک دوسرے کو قصے کہانیاں سناتے۔ میں لالٹین کی ٹمٹماتی مدہم روشنی میں بچوں کی کہانیاں پڑھتا۔ وہیں سے مطالعے کا سفر شروع ہوا۔ ہمارے اکثر دیہات میں آج بھی شام اسی طرح گزاری جاتی ہے؛ البتہ کئی جگہوں پہ بجلی کی فراہمی‘ ٹیلی وژن اور ریڈیو نے زندگی کے پُرانے اطوار بدل کر رکھ دئیے ہیں۔ موسمِ سرما میں کھیتوں کا رنگ اپنا ایک الگ سحر رکھتا ہے۔ سبز گندم کی پھیلی وسعتیں‘ سرسوں کے زرد پھولوں سے لدے حاشیے اور کہیں کہیں گڑ بنانے کے ابلتے ہوئے کڑاہ اور رس نکالتے بیلنے اپنا رنگ جماتے ہیں۔ گڑ‘ چاول‘ گاجر‘ مولی‘ شلجم‘ نہ جانے کیا کچھ ہے‘ لیکن ہمیں فرصت کہاں‘ اگر ہو بھی تو ہماری مصنوعی زندگی کی ترجیحات میں سرما کی عنایتوں کا لطف اٹھانے کی گنجائش نہیں! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں