"RBC" (space) message & send to 7575

افغانستان کے بے مغز انقلابی

افغانستان کے المیے میں ہزاروں سبق پوشیدہ ہیں۔ نہ جانے کون کیا‘ اور کب کچھ سیکھ پائے گا۔ ظاہر شاہ کے دور میں اعلیٰ تعلیم کے دروازے کھلے‘ ریاست کی تعمیرِ نو ہوئی‘ استعداد بڑھی‘ پڑھے لکھے نوجوانوں کیلئے جدید معیشت کے دروازے کھلنے شروع ہو گئے۔ جیسا کہ گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا‘ سیاسی ادارے بھی بننا شروع ہو گئے تھے۔ آئین‘ انتخابات‘ رسائل‘ اخبارات کا اجرا اور کسی حد تک آزادیٔ رائے ساتھ ساتھ فروغ پا رہے تھے۔ سرد جنگ کی شروعات ہی سوویت یونین کی جانب سے سیاسی اور نظریاتی توسیع پسندی سے ہوئی تھی۔ مغرب کی توقعات یہ تھیں کہ عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد روس‘ مشرقی یورپ کی ریاستوں سے واپس چلا جائے گا اور وہاں نازی جرمنی کے قبضے سے پہلے کی جمہوری حکومتیں بحال ہو جائیں گی‘ لیکن سوویت یونین نے وہاں اپنی فوجیں‘ اڈے اور غلبہ نصف صدی تک برقرار رکھا جب تک کہ وہ خود ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہو گیا۔ دوسرے ان کا اندازہ تھا کہ سوویت یونین فقط اپنے ہی سرخ انقلاب کی آبیاری کرے گا اور اپنی توانائی صرف اسی کی تعمیر میں صرف کرے گا۔ یاد رہے کہ امریکہ اور برطانیہ دوسری جنگِ عظیم میں سوویت یونین کے اتحادی تھے۔ سب کیلئے ہٹلر اور نازی جرمنی کی توسیع پسندی بہت بڑا خطرہ تھی۔ مشترکہ دشمن نے انہیں اکٹھا کر دیا تھا۔ جنگ کے بعد بھی حلیف بڑی طاقتوں میں مل کر آگے چلنے کی صورت اقوام متحدہ کے قیام میں نظر آئی‘ لیکن چند سال بعد امریکہ کو اندازہ ہو گیا کہ سوویت یونین اشتراکی نظریات کے پرچار اور انقلابی تحریکوں کی حمایت میں مصروف ہے۔ تب ترکی اور یونان میں اشتراکیوں نے انتشار پھیلا رکھا تھا۔ پُر امن بقائے باہمی سے بندھی امیدیں دم توڑنے لگیں۔ اشتراکی تحریکوں کے نظریے اور سوویت یونین کی پشت پناہی کے پیشِ نظر امریکہ نے دفاعی حصار کھڑے کرنا شروع کر دیئے۔ ہم بھی اپنی دفاعی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے ان کے علاقائی‘ دفاعی معاہدوں میں شامل ہو گئے۔ ہمارے قافلے میں ترکی اور ایران بھی شامل تھے۔ ایران دیر تک نہ ٹک سکا کہ وہاں کی انقلابی حکومت نظریاتی طور پر مغرب کے ساتھ فوجی اتحاد کے حق میں نہ تھی۔
سرد جنگ کے زمانے میں سوویت یونین انقلابی اور نظریاتی سوچ پیدا کرنے اور پھیلانے کیلئے دنیا کی ہر زبان میں کلیدی کتب کے ترجمے شائع کراتا اور سستے داموں‘ برائے نام قیمت پر اپنے نظریاتی بھائیوں کے ذریعے ہر ملک میں مہیا کرتا رہا۔ لاہور میں انار کلی کے شمالی حصے کی سڑک عبور کرتے تو اس وقت کے مشہور ریستوران نعمت کدہ کے ساتھ ہی ایک پبلشنگ ہائوس ہوا کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں میکسم گورکی کی تصنیف ''ماں‘‘ اور کئی دوسری کتابیں وہاں سے خریدی تھیں۔ داس کیپٹل کے علاوہ مارکس اور اینجلز کی تمام تصانیف‘ اور لینن کی تحریریں‘ سب اردو اور انگریزی میں دستیاب ہوتیں۔ اسی طرح افغانستان میں انکے فارسی اور پشتو ترجمے بھی عام تھے۔ صرف لٹریچر تو انقلابی نہیں بنا سکتا‘ اس کیلئے کچھ نظریاتی دانشور‘ کوئی تنظیم اور مشہور سرخیلوں کی خدمات ضروری تھیں۔ افغانستان اور پاکستان میں اشتراکی تحریکیں بالکل مختلف تھیں۔ یہاں میں صرف افغانستان کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ انگریزی دور سے ہی‘ اور انقلابِ روس کے فوراً بعد ہمارے ہاں اشتراکی تنظیمیں اور انقلابی پیدا ہونا شروع ہو گئے تھے۔ سامراجی دور میں وہ خفیہ طریقوں سے کام کرتے تھے۔ تب بہت سے شاعر‘ ادیب‘ فنکار اور نوجوان رہنما انقلابی افکار سے متاثر تھے۔ افغانستان میں اشتراکی نظریات کا پھیلائو ہماری نسبت کئی دہائیوں کے بعد شروع ہوا۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں تین نظریاتی دھارے وہاں نمایاں تھے۔ قومیت پرست‘ اشتراکی اور اسلامی۔ قومیت پرستوں کا حوالہ اپنی تاریخ‘ روایات‘ آزادی اور ریاستی خود مختاری تھی۔ افغانستان کے عوام کی غالب اکثریت تاریخی طور پر قوم پرست رہی ہے۔ افغان قومیت کے دو جزو ہیں‘ وطنیت اور اسلام۔ یہ ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں ہوئے‘ ایک ہی سکے کے دو رخ۔ جذبۂ قومیت ان کی تاریخ‘ ادب‘ تعلیم اور سماج میں رچا ہوا ہے۔ ریاست پر کوئی آنچ آتی ہے تو اسلام جہاد کی صورت میں دفاع اور ڈھال بن جاتا رہا ہے۔ 
افغانستان کی اسلامی تحریک کے کئی حصے رہے ہیں‘ ہماری طرح مسلک اور مذہبی رجحانات سے ترتیب پائے ہوئے۔ کچھ میں ہماری جماعت اسلامی کی روح سرایت کر گئی‘ کچھ روایتی مدارس اور علما کی قیادت میں منظم اور ایک دو پر وہابیت کا رنگ غالب تھا۔ افغانستان میں پاکستان کی نسبت کہیں زیادہ اسلامی روایات اور تہذیب عمومی ثقافت کا حصہ ہیں۔ صدیوں سے مذہب اور ثقافت ایک دوسرے میں باہم پیوست چلے آ رہے ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر اسلامی تحریکوں کا کیا جواز بنتا ہے؟ کبھی فرصت ملی تو مضامین کا ایک سلسلہ سیاسی اسلام اور اس سے وابستہ تحریکوں پر لکھوں گا۔ تقریباً ایک صدی قبل اسلام کو ایک نظریاتی شکل میں پیش کرنے کی روایت پڑی اور مقصد یہ تھا کہ ریاست کے تمام حوالوں اور ڈھانچے کو اسلامی اصولوں کی روشنی میں از سرِ نو مرتب کیا جائے۔ افغانستان میں بھی اسلامی تحریکیں صرف اس بات پہ راضی نہ تھیں کہ مذہبی آزادیاں ہیں اور لوگ اسلامی قوانین کے مطابق اپنی انفرادی زندگیاں گزار سکتے ہیں۔ ان کا ہدف ہماری مذہبی جماعتوں کی طرح ریاست پر قول و فعل کو اسلام کے رنگ میں رنگنا ہے‘ اور ظاہر ہے یہ کارِ خیر تو جدت پسند‘ جمہوری یا غیر جمہوری جماعتوں اور گروہوں کے بس کی بات نہیں۔ اس نوع کی تحریکیں سب مسلم ممالک میں اس وقت جاری تھیں‘ اور اب بھی ہیں۔ 
افغانستان کے اشتراکیوں کی بے مغزی کی بات کچھ اور ہے‘ ایسی کہ کہیں کوئی مثال نہیں ملتی۔ دو دھڑے تھے‘ خلق اور پرچم‘ جن کی جان پہچان انہی ناموں کے رسالے تھے‘ جو کبھی کبھار چھپ کر کہیں کہیں تقسیم ہوتے۔ قیادت‘ انقلابی حکمتِ عملی اور روس سے قربت کی کاوشوں میں آپس میں لڑائی جاری رہتی۔ ان میں لسانی چھاپ بھی نمایاں تھی۔ خلق زیادہ تر پشتونوں ‘ اور پرچم زیادہ تر فارسی والوں پر مشتمل تھا۔ ماسکو نے جب اپریل 1978 میں اپنی فوجی اکیڈمیوں میں تربیت یافتہ افغان فوجی افسروں کی حمایت سے سردار دائود کا تختہ الٹنے کا منصوبہ تیار کر لیا تو ان دونوں دھڑوں کو بھی یکجا کر لیا گیا‘ لیکن یہ اتحاد دیرپا ثابت نہ ہوا‘ اور نہ ہی اس کے پیچھے روس کا ہاتھ اس نام نہاد ''انقلاب‘‘ کو افغان انقلاب کی قلعی چڑھانے کے حوالے سے پوشیدہ رہ سکا۔ انقلابیوں نے ''ترقی پسندی‘‘ کے ایسے کارنامے انجام دیئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ زمین زبردستی ریاست کی تحویل میں لی گئی‘ مگر بے زمین کسانوں نے لینے سے انکار کر دیا۔ لینن کے گن گائے جانے لگے اور جہاںکہیں مزاحمت ہوئی لگتا تھا کہ سٹالن کی روح افغان اشتراکیوں کے جسموں میں حلول کر گئی ہے۔ ان کی بربریت نے مزاحمت میں مزید تیزی پیدا کر دی۔
افغان عوام ملک کے ہر کونے میں لسانی تفریق سے بالاتر ہو کر اور کمر کس کے میدان میں اتر آئے۔ انقلاب کو خطرے میں دیکھ کر روس نے فوجی مداخلت کر ڈالی‘ ایسی غلطی جس کا پچھتاوا آج بھی موجود ہے۔ روس تو دس سالہ جنگ کے بعد نکل گیا‘ مگر نہ ریاست رہی‘ نہ ادارے اور نہ ہی روایتی ہم آہنگی ‘ مگر بے مغز انقلابی اپنے اپنے بھیانک انجام کو ضرور پہنچ گئے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں