دہرانے کی ضرورت تو نہیں‘ لیکن ابتدائیہ کے طور پر کہنا ضروری ہے کہ ہمارا سیاسی نظام پارلیمانی‘ وفاقی‘ جمہوری اور مذہبی رنگ بھرنے کی غرض سے اسلامی ہے۔ درمیان میں صدارتی نظام ملک کے سماجی اور سیاسی حقائق کے پیشِ نظر لاگو کیا گیا‘ مگر نہ تو وہ صدارتی تھا اور نہ ہی اس کو ملک کے عوامی نمائندوں کی تائید حاصل تھی۔ ایوب خان غیر سول صدر تھے‘ اور مطلق العنان‘ فقط اپنی کرسی کو جمہوریت کے چبوترے پر دھرنے کے لئے آئین بنوایا اور جب تک اقتدار میں رہے‘ اس کو سنبھالے رکھا۔ دوسرے غیر سول صدر یحییٰ خان صاحب آئے تو انہوں نے سب کچھ ردی کی ٹوکری میں ڈال کر ملک کو خطرناک راستوں پر ڈال دیا۔ کچھ مبصرین اور ذوالفقار بھٹو صاحب کے قریبی دوستوں کا خیال ہے کہ وہ پارلیمانی نظام کے حق میں نہ تھے‘ خواہش تھی کہ صدارتی نظام کو اس کے اصلی رنگ و روپ میں پاکستان کے حالات کے مطابق ڈھالیں‘ مگر وہ ایسا نہ کر سکے۔ ان کی پارٹی کے اراکینِ اسمبلی اور دیگر سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ممبران پارلیمانی نظام کے حق میں تھے۔ بھٹو صاحب چاہتے تھے کہ آئین اتفاق رائے سے بنے۔ میرے نزدیک یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ دو مرتبہ دو مختلف غیر سول حکومتوں نے پارلیمانی نظام کو نیم صدارتی میں تبدیل کیا‘ مگر ہر مرتبہ جب ان کے اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد جمہوریت بحال ہوئی تو سب سیاسی جماعتوں نے انیس سو تہتر کے آئین کی اصلی روح کو متفقہ طور پر تبدیل کر دیا۔
قومی اتفاق تو موجودہ سیاسی نظام پر ہے‘ مگر اس کو چلانے کے لئے نہ سیاسی جماعتیں جمہوری ہیں‘ نہ جمہوری روایات پختہ ہیں‘ نہ دیانت دار سیاسی قیادت موجود ہے‘ اور نہ ہی معاشرے اور عام آدمی میں دم خم ہے کہ بار بار منتخب حکمرانوں سے سوال کر سکے‘ یا متبادل قیادت کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں لے آئے۔ ایسا لگتا ہے کہ سب کے پیروں میں سماجی اور سیاسی زنجیریں پڑی ہوئی ہیں۔ مانیں یا نہ مانیں حکمران طبقہ ایک ہی ہے‘ وہی جو اسمبلیوں اور سینیٹ میں منتخب ہو کر آتا ہے۔ نسل در نسل سیاسی خاندانوں کے افراد اپنی اپنی سیاسی گدی کی حفاظت پر مامور ہیں۔ مقابلے کے لئے بھی انہی خاندانوں میں سے اٹھتے ہیں‘ مگر ہمارے شہروں کی سیاست میں نودولتیے‘ جائیدادوں کے کاروباری‘ آہستہ آہستہ محض سرکاری اور غربیوں کی زمینوں پر ہی نہیں بلکہ انتخابی سیاست پر بھی قبضہ جمانے لگے ہیں۔ پچاس سال قبل جب پہلے انتخابات ہوئے تھے تو اس وقت ایسے نودولتیوں کا نام شاید ہی کسی نے سنا ہو گا۔ اب تو موروثی سیاسی جماعتیں ہوں یا تحریکِ انصاف‘ سب میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ سیاست بھی ان کے لئے 'مال لگائو مال کمائو‘ کا دھندا ہے۔ اقتدار میں رہنے کی خواہش اور طاقت کا نشہ‘ دونوں سر چڑھ جائیں تو کس کو گھن آئے گی کہ مال کس کا ہے اور کہاں سے آ رہا ہے۔ کالا دھن وطنِ عزیز میں ایک سیلاب بلکہ ایک وبا کی صورت میں کئی دہائیوں سے ملکی سیاست میں اپنا کام دکھا رہا ہے۔ اراکینِ اسمبلی کے ووٹوں کی عزت کا یہ حال ہے کہ بولیاں لگائی جاتی ہیں۔ بیچنے والے بھی راضی‘ خریدنے والے بھی خوش‘ تو عوام یا ہم جمہوریت کے بارے میں کیوں فکر مند رہیں؟
ہمارے تو بس کی بات نہیں‘ فکرمندی ہمارے پیشے‘ تعلیم اور اس قلم کی روشنی کا قرض ہے۔ ملک لٹ رہا ہو‘ کالے دھنی دندناتے پھرتے ہوں‘ سینیٹ کے انتخابات کے لئے بازار ہمیشہ کی طرح گرم ہو تو دل نہیں مانتا کہ خاموش رہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ کتنا بول لیا‘ کتنا لکھ لیا‘ کتنی دہائیاں بیت چکیں‘ کیا تبدیل ہوا؟ یہ سوال کبھی سرگوشی تو کرتا ہے مگر اس میں وزن نہیں‘ وہ اپنا دھندا کرتے رہیں‘ ہم اپنا فرض نبھاتے رہیں گے۔ نتائج تو وقت‘ اور تاریخ پر چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان صاف گوئی میں لگی لپٹی سے کام لینے کا سلیقہ نہیں رکھتے۔ برملا کہا کہ ان کی تحریک کے بیس اراکین پر پیسوں کی برسات ہوئی‘ اور انہوں نے سینیٹ کے گزشتہ انتخابات میں اپنے ووٹوں کو نوٹوں میں نہلا کر جمہوریت کی رکھوالی ایسے ہی کی جیسے بد دیانت ماضی میں کرتے چلے آئے ہیں۔ اچھا کیا کہ ان کو پارٹی سے نکال باہر کیا گیا‘ مگر جو جیبیں گرم کرتے ہیں اور رکھتے ہیں‘ ایسوں کے ہاتھ تھامنے میں کیوں کوئی کسر چھوڑیں گے۔ ہم پیالہ و ہم نوالہ عام ہوں‘ تعداد بڑھتی رہے تو ہمارے سیاسی نظام کو ڈوریاں ڈال کر چلانے والوں کے لئے سہولت ہی رہے گی۔
کالا دھن صرف سیاست میں نہیں‘ دوسرے بہت سے شعبوں میں بھی ہے۔ یہ سلسلہ نہ جانے کب سے جاری ہے۔ اب صرف گماشتوں کی بات نہیں ہوتی‘ پورے پورے ادارے ہی خرید لئے جاتے ہیں۔ آزادیٔ اظہارِ رائے‘ جمہوریت‘ آئینی حقوق کی روایات اچھے بھلے اور بد قماش لوگوں کے لئے بھی راستہ کھولتے ہیں۔ جمہوریت کے بارے میں ایک سوال نوآبادیاتی دور سے چلا آ رہا ہے اور جدید جمہوری مفکرین نے اس پر بہت غور و خوض کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کالے دھن والے اور منظم گروہ اور زیرِ زمین مشکوک کاروباری اگر جمہوری عمل پر اثر انداز ہو کر اپنے نمائندے منتخب کرا لیں تو پھر جمہوریت کا کیا بنے گا؟ نظام کیسے جمہوری رہ سکے گا؟ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے کئی ممالک پر ایسے گروہوں کے قبضے ریاست کے کلیدی اداروں پر ہو چکے ہیں۔ یہ صرف قیاس آرائی نہیں‘ سینیٹ کے انتخابات کے بارے میں جو کچھ ہم سنتے اور دیکھتے آئے ہیں‘ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ کئی ایسے کردار آپ کو ایوان بالا میں نظر آئیں گے‘ جن کا سیاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا مگر وہ کسی سیاسی جماعت یا کسی سیاسی جماعت کے سربراہ کے طفیل معقول چندہ جمع کروا کر منتخب ہو گئے۔ نہ یہ افسانوی باتیں ہیں اور نہ ہی کسی ایک جماعت کے حوالے سے بات کر رہے ہیں‘ سبھی کا ایک جیسا حال ہے‘ ہر جگہ ایک جیسی صورتحال ہے۔
ہاں یہ سوال تو ہم نے اٹھایا مگر ایسا ہو تو مداوا کیا ہے‘ حل کیا ہے کیونکہ جمہوریت میں بقول ونسٹن چرچل‘ بہت خرابیاں ہیں‘ مگر اس کے متبادل کو پروان چڑھانے کے لئے حلال کی کمائی یقینی بنانا ضروری ہے۔ سب کو حساب دینا ہوتا ہے کہ سال بھر میں آمدنی کیا رہی اور ذرائع کیا تھے‘ اور ٹیکس واجب ہو تو وہ بھی دینا لازم ٹھہرتا ہے۔ انتخابات میں تو جو رقم لگائی جاتی ہے‘ اس کا حساب کتاب رکھا جاتا ہے۔ مغربی جمہوریت کا حوالہ دینا ہی پڑتا ہے کہ وہاں قوانین پر پابندی کرائی جاتی ہے۔ جب ادارے احتساب کرتے ہیں تو کسی کو جرأت نہیں ہوتی کہ کہہ سکے کہ انتقامی کارروائی کی جا رہی ہے۔ یہاں تو شواہد کے انبار لگا کر رکھ دیں‘ رَٹ پھر بھی وہی لگاتے رہیں گے کہ ہمارے خلاف کچھ ثابت نہیں ہوا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہماری کمزور بلکہ لولی لنگڑی جمہوریت نے سیاسی نظام کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ دیکھ لیں‘ سیاسی جماعتوں‘ بڑی ہو یا چھوٹی‘ پر کس کا قبضہ ہے۔ کوئی منتظم نہیں‘ خاندان چلاتے ہیں۔ کن لوگوں کو انتخابات میں امیدوار بننے کا اہل سمجھا جاتا ہے اور کون لوگ ہیں جو سینیٹ کے انتخابات میں اتارے جاتے ہیں۔ نظام درست ہو سکتا ہے‘ مگر جن ہاتھوں میں یہ اس وقت یرغمال ہے‘ ان کا مفاد اس کو ایسے ہی چلانے میں ہے۔ شفافیت ہو گی تو ان کو خدشہ ہے کہ ان کا بھی صفایا ہو جائے گا۔ یہاں حساب الٹا ہے کہ جمہوریت کے نام پر کیا کیا نامی گرامی کہاں کہاں پہنچ گئے ہیں۔