بہت مسافرت کرلی‘ زمینی‘ جغرافیائی اور وقت کے بدلتے موسموں کے ساتھ۔ مشاہدہ بیٹھنے سے نہیں‘ جسم کو حرکت دینے‘ باہر نکلنے‘ سفر جاری رکھنے سے آنکھوں کے پردوں کے ذریعے ذہن کی گہرائیوں میں اترتا ہے۔ سیاسی حالات و واقعات کو سیاق و سباق کے بغیر اور تاریخ کے دریچوں میں جھانکے بغیر دیکھیں گے تو صرف وہی تصویر نمایاں ہوگی جو پہلے ہی آپ کے ذہن میں ہے۔ بس دیکھتے رہیں اور واہ واہ کرتے رہیں۔ یہ تو آپ کا اپنا حسنِ انتخاب ہے۔ بعض ہمعصر مبصرین پاکستان جمہوری تحریک کو متحدہ گیارہ جماعتی‘ نظریاتی‘ پُروقار‘ سیاسی جدوجہد کی علمبردار اور ''حقیقی‘‘ جمہوریت لانے کی جانب انقلابی قدم ثابت کرتے ہیں۔ دلائل کے ایسے انبار لگا دیتے ہیں کہ شاید کوہ ہمالیہ کی بلندیاں بھی نیچے رہ جائیں۔ میرے نزدیک یہ شروع سے گیارہ جماعتی بھی تھی‘ متحد بھی اور مشترک مقصد یہ تھاکہ کپتان کی حکومت کو کیسے گرایا جائے‘ اور جب تک اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوتی‘ اسے غیر مستحکم رکھنے کیلئے کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔ اب بھی منزل یہی معلوم ہوتی ہے۔ ملک‘ عوام‘ ریاستی اداروں اور معیشت پر سیاسی عدم استحکام کا کیا اثر پڑتا ہے‘ اس سے انہیں کوئی غرض نہیں۔ ایسا کیوں وہ کر رہے ہیں‘ اس کی کئی وجوہات ہیں‘ مگر میرے خیال میں موروثی سیاست کے فروغ اور احتساب کے عمل سے بچ نکلنے کی اس سے بہتر تدبیر انکے ذہن میں ابھی تک آنہیں سکی۔ تحریک انصاف کی صورت میں تیسری قوت کا ابھرنا نوجوان طبقے کو متحرک کرنا‘ اور دو بڑے سیاسی خاندانوں کے خلاف کرپشن کا بیانیہ شہر شہر‘ گائوں گائوں پھیلانا بھلا کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے؟ ظاہراً تو سیاسی رقابت ہے‘ مگر اصل میں عمران خان کو اقتدار میں آنے اور رہنے کو نہ صرف موروثی‘ سیاسی خاندان بلکہ نوکر شاہی اور میڈیا میں جو ان کے اتحادی ہیں‘ سب اپنے لئے بڑا خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ یہ تکونی اتحاد ابھی تک گرمجوشی سے حکومت کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔
پی ڈی ایم کے جلسوں میں ماضی کی حریف پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے نئے کھلاڑی میدان میں اکٹھے نعرہ زن ہوئے تو اتحادیوں کی باچھیں کھل اٹھیں۔ گوجرانوالہ کے جلسے سے لے کر محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی میں شریف خاندان کی جانب سے مریم نواز صاحبہ کی پہلی حاضری تک سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا۔ کہتے ہیں‘ سیاست اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ اس کی تعبیریں ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں‘ مگر جب مریم نواز نے ''جئے بھٹو‘‘ کا نعرہ اس جلسے میں لگایا تو اس قول کی ابدی سچائی پر یقین مزید پختہ ہو گیا۔ ہم میں سے بہت سوں نے خیال کیا کہ تلخ ماضی اس نعرے کی گونج میں دفن ہو گیا۔ کیا کیا الزامات نہ لگائے گئے‘ ایک دوسرے کے خلاف کیا کیا زہر افشانی اور ایک دوسرے کو گرانے کی کیا کیا تدابیر نہ کی گئیں۔ دونوں خاندانوں کے دو بڑے اب بھی سیاست کی ڈوریاں اپنے ہاتھوں میں رکھے ہلاتے رہتے ہیں‘ اور ہمارے سیاسی آسمان پر اب بھی دمکتے ہوئے ستارے ہیں۔ جو ان کی روشنی کے محتاج ہیں اور اس کے سہارے زندگی گزارتے ہیں‘ وہ انہیں مبارک ہو‘ اور دعا ہے کہ یہ سایہ ان پر ہمیشہ قائم رہے۔ ظاہراً سیاسی قربتیں‘ مشترکہ منصوبے اور منزلیں سیاسی انقلاب سے کم نہ تھے۔ سیاسی یا کوئی اور دشمن طاقتور ہو تو مقابلہ آپس میں اتحاد کرکے کیا جا سکتا ہے۔ اکیلے اکیلے تو وہ انہیں دبوچ لے گا۔ مولانا صاحب کو اتحادوں کی تدبیر ورثے میں ملی ہے کہ اکیلے تو وہ وہی کچھ کر سکتے ہیں‘ جو انہوں نے ایک لولے لنگڑے لانگ مارچ میں کیا تھا۔ ان کی اس بصیرت کا میں عرصے سے قائل ہوں کہ حزبِ اختلاف کی سب جماعتوں کو اکٹھا کیا جائے۔ وہ کسی حکومتی اتحاد میں ہوتے ہیں تو سب جماعتوں کو اسی اتحاد میں دیکھنے اور رکھنے کی تڑپ میں ہم خیالوں سے بغلگیر رہتے ہیں۔
اتحاد تو پہلے ہی دن بن گیا تھا‘ اور اسی رات تحریکِ انصاف ہمارے اندازوں کے مطابق کامیاب ہوتی نظر آئی۔ اس وقت مولانا صاحب نے انقلابی حکمتِ عملی پیش کی تھی۔ فرمایا: چھوڑو اسمبلیوں کو‘ سرے سے حلف ہی نہ اٹھائو‘ سڑکوں پر آ کر پاکستان قومی اتحاد کی چوالیس سال پہلے والی تاریخ کو دہرایا جائے۔ باقی اتحادیوں نے مولانا صاحب کو ٹھنڈا رہنے کا مشورہ دے کر اسمبلیوں میں اپنی نشستیں سنبھال لیں۔ قیاس تھاکہ اب مثبت اور تعمیری حزبِ اختلاف ہو گی کہ حکومت کی پالیسیوں کے متبادل وہ پالیسیوں کی تجاویز پیش کرے گی‘ اور ملکی معیشت‘ جو سب سے بڑا قومی مسئلہ ہے‘ کو بحال کرنے میں حکومت کا ساتھ دے گی۔ گزشتہ اڑھائی سالوں میں جو کچھ ہوتا رہا ہے‘ وہ آپ کے سامنے ہے۔ یہ کہ نہ کھیلیں گے‘ نہ کھیلنے دیں گے۔ یہ رہی ہماری حزبِ اختلاف کی جمہوری سیاست۔
چلو مان لیتے ہیں کہ ماضی کی حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کا کردار جمہوری جواز کو ماننے کے حوالے سے اتنا قابلِ تقلید نہیں‘ مگر ہمارے گیارہ جماعتی اتحاد کا مقابلہ تو ایسے سیاسی کھلاڑی سے ہے جو بلّا گھمانے کا ماہر‘ گیند تیز کرنے میں بھی طاق اور کپتانی میں تو دنیا میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ سیاست میں کھیل کا بالکل وہی رنگ‘ مزاج اور تجربے کی دھار واضح طور پر نظر آتی ہے۔ ایسے میں بیچ منجدھار راہیں جدا کرنے سے کشتی کیسے کنارے لگے گی؟ مولانا محترم تو ایسے ناراض ہوئے کہ آوازیں بلند ہوتی رہیں کہ ''سوال تو لے لیں‘‘ مگر وہ ایسے بھاگے کہ جدید ترین کیمرے کی آنکھ بھی تعاقب کرنے میں ناکام رہی۔ کشتی کا پتوار انہیں بنایا گیا تھا‘ مگر انہیں احساس ہوا کہ ان کی جگہ دو سواریوں نے سنبھال لی ہے۔ اب تو بات آگے نکل چکی۔ خاندانوں کے بڑے کہنیاں مارتے‘ ہجوم کو دھکیلتے اور آستینیں اونچی کرکے میدان میں اتر آئیں تو سب نے تماشا ہی دیکھنا ہوتا ہے۔ ہمارا خیال تھاکہ ماضی کی لڑائیاں بھول کر بانہوں میں بانہیں ڈالے مشترک سیاسی منزل کی طرف چلتے رہیں گے‘ جب تک کہ وہاں ڈیرے ڈال کر فتح کا جشن نہیں مناتے۔ تکون میں شامل دیگر حلیف بہت پریشان نظرآتے ہیںکہ محترم آصف علی زرداری نے یہ کیا کیا کہ کیمروں کے سامنے نواز شریف صاحب کو واپس آکر تحریک چلانے اور ان کے ساتھ جیل میں جانے کا مشورہ دے ڈالا۔ مشورہ ہمیں تو وہی اچھا لگتا ہے‘ جو پہلے سے کہنے والے کے دل میں ہو۔ بات تو زرداری صاحب نے درست اور اصولی کی کہ ہمارے کندھے پر بندوق رکھ کر نہ چلائو‘ مردِ میدان ہوتو واپس آئو اور نظریاتی سیاست کی آبیاری کرو کہ آپ تو اس کھیل کے پُرانے کھلاڑی ہیں۔ میاں صاحب سنا ہے کہ بہت ناراض ہیں‘ زرداری صاحب کی طرف سے وضاحتی فون کال لینے سے انکار کر دیا۔
میرے نزدیک یہ تیر کمان سے نہ تو اچانک نکلاہے اور نہ ہی کوئی انگلی پھسلی ہے۔ یہ تیر سوچ سمجھ کر چلایا گیا تھا۔ زرداری صاحب سے اختلاف ہو سکتا ہے‘ مگر ان کی سیاسی بصیرت اور پاکستان کی زور و زر کی سیاست کا کھیل ان سے بہتر شاید ہی کوئی کھیل سکے۔ وہ کیوں سندھ کی حکومت کو چھوڑیں گے؟ ان کی جگہ لینے کیلئے کوئی کم ہیں؟ دیر نہیں لگے گی‘ اور اگلی باری ملے یا نہ ملے۔ وہ استعفے دینے کیلئے کبھی آمادہ نہ تھے۔ تو پھر مولانا کیسے عوام کے سامنے لانگ مارچ کو استعفوں سے نتھی کرتے رہے؟ راہیں تو وہیں جدا ہو چکی تھیں۔ اب بھی کوئی شک ہے تو یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف کے امیدوار کے طور پر لانے کے بعد ختم ہو جانا چاہئے۔ ہمارے معاشرے میں لڑائیاں زبان کے نشتر چلانے سے شروع ہوتی ہیں۔ آخری خبریں آنے تک بلاول بھٹو زرداری کا پلڑا بھاری تھا۔ ان کے ''سلیکٹڈ‘‘ کے ورد نے اتنے کمالات دکھائے ہیں کہ اب یہ لیبل 'پنجاب کے ایک خاندان‘ کے ماتھے پر چسپاں کر دیا ہے۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے لڑائی کی۔ پروین شاکر سے معذرت کے ساتھ۔