ملکوں کی سیاست کو آگے بڑھنے کے لیے ہموار راستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیاست خود بھی راستہ بناتی ہے‘ اگر وہ سماج کو تبدیل کر سکے۔ جہاں انقلابی تبدیلیاں نہیں لائی جا سکتیں‘ اور عمل ارتقائی اور آہستہ رو رہتا ہے‘ معاشرتی ساخت سیاست کے نقش و نگار متعین کرتی ہے۔ سیاست کو تبدیل کرنا ہو‘ مثبت انداز میں کہ یہ پیشہ عوام اور وطن کی خدمت کے جذبے سے ترتیب پائے تو سماجی تبدیلیوں کی رفتار کو تیز کرنا ہو گا۔ پہلے ہم اپنے پاکستانی معاشرے کی چند خصوصیات کو دیکھتے ہیں اور یہ بھی کہ گزشتہ کئی عشروں سے کس قسم کی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ تفصیل میں جانے کے لیے جگہ نہیں‘ اس لیے تین حوالے ہر مبصر پاکستان کے بارے میں دہراتا رہتا ہے۔ جاگیرداری معاشرہ ہے‘ قبائلیت کا رنگ گہرا ‘ اور جتنا بھی ہم ذات پات اور برادری کی عصبیتوں سے انکار کریں‘ ہمارے رویّوں میں ابھی تک رچی بسی ہوئی ہیں۔ جمہوری سیاست تو معاشرے کا کسی نہ کسی انداز میں عکس پیش کرتی رہتی ہے۔ مغرب میں بھی اگر قدامت پسند مذہبی حلقے زور پکڑ لیں‘ زیادہ منظم ہو جائیں‘ تو انتخابی سیاست پر ان کا اثر اتنا ہی نمایاں ہو جاتا ہے۔ صنعتی ترقی ہوئی‘ تعلیم کو فروغ ملا‘ شہر پھیلے اور وہاں آبادی کے بڑے مراکز پیدا ہوئے‘ تو روایات دم توڑ گئیں‘ معاشرتی ادارے توڑ پھوڑ کا شکار ہوئے‘ صنعتی معیشت نے ایک نئے سماجی آدمی کو جنم دیا جو آزاد رو‘ خود مختار‘ خود اعتماد ہے اور آزادیٔ فکر کے فلسفوں سے اس کی شخصیت کی تشکیل ہوئی۔ یہ مثال سیاست کی کامیابی کی دلیل ہے کہ ریاستی حکمت عملی‘ صنعتی‘ معاشی اور تعلیمی میدان میں ایک آزاد رو معاشرے کے وژن کی عکاس رہی۔ ہمارے علمی مباحث میں ایک بحث یہ بھی رہی ہے‘ اور اب بھی ہے کہ کیا ثقافت قوموں کی ترقی کو متعین کرتی ہے یا سیاست‘ یعنی حکومتی پالیسیاں راہیں متعین کرتی ہیں؟
میرا اپنا نقطہ نظر یہ رہا ہے کہ ریاست اپنی طاقت کو استعمال کر کے مثبت تبدیلیاں لا سکتی ہے۔ اگر سماجی حرکیات کسی وجہ سے رکاوٹ ہیں تو یہ عذر نہیں بن سکتا۔ پولیو کے قطرے بچوں کو پلا کر انہیں معذوری کے خطرے سے بچانا ریاست کی ذمہ داری ہے‘ لیکن ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ بعض سماجی حلقوں میں اس کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے‘ تو کیا حکومتوں کو ہتھیار پھینک دینے چاہئیں؟ ہرگز نہیں! اسی طرح خصوصاً بچوں کی تعلیم‘ اور سب بچوں کو سکولوں میں معیاری تعلیم دینے کو تمام ترقی پذیر اور ترقی یافتہ قوموں میں ترجیحی ریاستی پالیسی خیال کیا جاتا ہے۔ اگر آپ یورپ یا شمالی امریکہ کے کسی ملک میں رہے ہوں تو آپ کو خوب اندازہ ہو گا کہ ریاستیں بچوں کی تعلیم کو کس قدر اہمیت دیتی ہیں۔ سولہ سال کی عمر تک سب بچوں کو سکول جانا ہوتا ہے‘ اور سب کے لیے ایک ہی نصاب‘ مگر فرق اس لحاظ سے ضرور ہوتا ہے کہ سکول کا جغرافیہ کیا ہے۔ سب بچوں کو دوپہر کا کھانا دیا جاتا ہے‘ غذائیت سے بھرپور۔ جو ماہانہ خود نہیں خرید سکتے‘ ان کے لیے مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ سکول کے بعد جامعات اور پیشہ ورانہ کمیونٹی کالجز ان طالب علموں کو عمودی تربیت کی لڑی میں پرو دیتے ہیں۔
مانتا ہوں کہ سماجی ساخت‘ ثقافتی اور مذہبی رویے‘ سیاست پر اثر انداز ہوتے ہیں‘ مگر جو اثرات ریاستی حکمتِ عملی اور سیاست معاشرے پر چھوڑتی ہے‘ وہ اٹل ہے۔ یہ ہمارے سامنے‘ ہماری زندگیوں میں ہی ہوا کہ چین‘ سنگا پور‘ ملائیشیا اور جنوبی کوریا کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ یہ بھی ہماری طرح کے روایتی معاشرے ہیں مگر ان کی لیڈرشپ کا سیاسی وژن ایسا تھا کہ چند عشروں میں سماج کی ساخت تک کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ ہم نے اپنی تاریخ میں بھی دیکھا ہے کہ جب ریاست میں کچھ دم خم تھا‘ لیڈرشپ بھی مخلص ملی‘ وژن اور سمت کا تعین ہوا تو ترقی کی منازل خیرہ کن رفتار سے طے کیں۔ انحصار اس بات پہ ہے کہ ریاست کی طاقت کس کے پاس ہے‘ حکمران کون ہے؟ ہماری قسمت میں ابھی تک ایک ہی دور ترقی کے لحاظ سے سنہری تھا‘ ایوب خان کا‘ مگر اس کی سیاسی قیمت پھر ہم نے مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی صورت میں ادا کی۔ ان کے دور میں مغرب میں سماجی اور معاشی ترقی کے حوالے سے جو لکھا جا رہا تھا‘ وہ ایوب خان نے پلے باندھ لیا تھا۔ اقتدار کی مرکزیت‘ ریاستی طاقت میں اضافہ اور سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ سماجی ترقی‘ چھوٹا کنبہ‘ تعلیم کا پھیلائو اور سیاسی استحکام۔ جمہوریت کے خواب میں ہم نے تحریک چلا کر ان کو رخصت کیا‘ مگر پھر ''منزل انہیں کو ملی جو شریکِ سفر نہ تھے‘‘ جو بعد میں ہوا‘ ان میں ایوبی دور کا کوئی ایک وصف تک نہ تھا۔ بہت لکھ چکے‘ اب تو تھک گئے ہیں‘ بس اس کے بعد ''چراغوں میں روشنی نہ رہی‘‘ سب کردار آپ کے سامنے ہیں۔ زیادہ کہوں گا تو جمہوریت مخالف کی تہمت لگنا شروع ہو جائے گی۔
اب بھی‘ اور جب کبھی اقتصادی ترقی کی رفتار بڑھی تو اس کے نتائج پاکستانی معاشرے میں دنیا کے دیگر ممالک سے مختلف نہ ہوں گے۔ ہماری نمود ابھی تک اس نکتے پر نہیں پہنچ سکی‘ جہاں جاگیرداری‘ قبائلیت اور ذات پات کا شیرازہ بکھرنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ تین سماجی علامات اور طاقتیں ابھی تک ہماری سیاست پر حاوی ہیں۔ ان طاقتوں کی قوت کو زائل کرنے کا راستہ وہی ہے‘ جو ایوب خان‘ لی کوان یو اور جنوبی کوریا کے قومی رہنمائوں نے متعین کیا تھا۔ چین نے بھی وہی راستہ منتخب کیا ہے۔ اس حکمت عملی کے خدوخال مغرب کی ترقی سے متعین ہوئے ہیں۔ ان میں معیاری سرکاری تعلیم سب کے لیے‘ آبادی کے پھیلائو پر کنٹرول‘ موثر نظامِ عدل‘ قانون کی حکمرانی اور سرمایہ کاری کے لیے موزوں ماحول کی یقینی فراہمی جیسے عوامل شامل ہیں۔ سماجی ترقی کی رفتار جب بھی تیز ہو گی‘ آبادی کا پھیلائو سکڑنا شروع ہو جائے گا۔ ہم نے زیادہ تر اشتہاروں اور سرکاری وعظ و نصیحت پر زور دیا ہے۔ سری لنکا‘ بنگلہ دیش اور بھارت نے تعلیم اور صحت کی سہولتوں کو عام کر کے آبادی میں اضافے کی شرح پر کنٹرول کو ممکن بنایا ہے۔ پتا نہیں ہم ایوب خان کے بعد کتنی حکومتیں دیکھ چکے ہیں۔ کسی نے بھی ان بنیادی ترقی کے اصولوں پر تن دہی‘ محنت و ریاضت اور یکسوئی کے ساتھ عمل نہیں کیا۔
میری سمجھ کے مطابق اس کی وجہ روایتی‘ سماجی طاقتیں ہیں‘ جن کے پاس حکومتیں بنانے کا جمہوری اختیار رہا ہے۔ وہ ہیں جاگیرداریت‘ قبائلیت اور سرداروں کا قدیمی بندھن۔ لسانیت پسندی اور مذہبی منافرت بھی آہستہ آہستہ طاقت ور بن چکی ہیں۔ ابھی تک میں حتمی طور پر تحریک انصاف اور عمران خان صاحب کے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ وقت اور اگلے انتخابات ہی فیصلہ کریں گے۔ ان کی تبدیلی‘ اگر کہیں ہے بھی تو ابتدائی مراحل میں ہو گی‘ ٹھوس شکل متعین نہیں ہوئی‘ اور نہ ہی وہ اعتماد ہے جس کی توقع شروع میں کی جا رہی تھی۔ اگر وہ اپنے مقاصد میں ناکام رہے‘ تو سارا ملبہ ان کی ذات پر گرے گا کہ وہ ریاستی طاقت کو بروئے کار نہ لا سکے۔ نا اہلی اور نا تجربہ کاری کے لیبل تو شروع دنوں سے چسپاں کئے جا رہے ہیں‘ مگر بات کچھ اور گہری ہے‘ سوچنے کے لیے چھوڑ دیتا ہوں۔ سماجی طاقتیں پارلیمانی نظام کے سہارے زندہ اور توانا ہیں۔ ان کی ترجیحات میں سماجی ترقی کبھی نہ تھی‘ کہ غریب پڑھ کر کچھ بن گیا تو ان کی درباری سیاست کا کیا بنے گا۔ خان صاحب ان کے ابھی تک تو یرغمال نظر آتے ہیں۔ اگر وہ ان کے بغیر نظریاتی نمائندوں کے ذریعے اقتدار میں آتے تو شاید دھڑوں کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکتے۔