اگرچہ ہم دعویٰ تو رواداری‘ باہمی محبت اور ہر جانب سے امن پسندی اور بھائی چارے کا کرتے ہیں‘ لیکن زمینی حقیقتیں ہمارے معاشرے میں اس کے برعکس ہیں۔ وعظ و نصیحت‘ لمبی اور لچھے دار تقریریں‘ ابھی تک بردباری اور بقائے باہمی کے عالمگیر اصولوں کو اکثریت کے سخت دلوں میں اتار نہیں سکیں‘ انہیں نرم نہیں کر سکیں۔ ہر نوع کی اکثریت‘ چاہے وہ لسانی ہو مذہبی‘ نسلی یا قومی‘ کی نفسیات میں غلبہ اور قوت برقرار رکھنے کی جبلت ہر جگہ موجود ہے۔ منفی انداز میں اقلیتوں کو کم تر خیال کیا جاتا ہے‘ اور یہ احساس مختلف حربوں سے کمزور طبقات کے ذہنوں میں راسخ کیا جاتا ہے۔ ہم اکثر امریکہ اور مغرب میں نسل پرستی کے رجحانات پر تنقید کرتے رہتے ہیں‘ مگر کبھی ہم اپنے اندر کے معاشرے اور ارد گرد کا جائزہ لیں تو منافرت کی کئی شکلیں نسل پرستی سے کم تکلیف دہ نہیں۔ سب انسان‘ سارے بنی آدم حقوق‘ عزت‘ احترام اور مذہبی‘ ثقافتی اور سیاسی آزادیوں کے لحاظ سے برابر ہیں۔ کوئی جدید معاشرہ اس بنیادی مساوات سے انکار نہیں کر سکتا۔ اگر کرے تو عالمی انسانی حقوق کے منشور کی خلاف ورزی ہو گی۔ ان اصولوں کو مانے بغیر عالمی اداروں کا رکن بننا ناممکن ہے۔ مذاہب بھی انسانی مساوات کا درس دیتے ہیں‘ مگر ہمارے عملی رویے مختلف ہیں۔ ایک کورس کے سلسلے میں‘ جو کسی زمانے میں دیہی علاقوں میں طلبہ کو پڑھایا کرتا تھا‘ پنجاب اور سندھ کے کئی علاقوں میں قیام کرنے اور مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ اس کورس کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ جو کچھ ہم درسی کتابوں میں پڑھتے ہیں‘ اور جو کچھ معاشرہ ہے‘ اور لوگوں کے رویے ہیں‘ کسی حد تک ہمارے علمی مباحث کی تائید یا نفی کرتے ہیں۔ کئی دیہات میں جہاں مسلمان اور عیسائی آباد تھے‘ ان کے محلے چھوٹی چھوٹی آبادیوں میں بھی علیحدہ تھے۔ ایک بستی میں تو صرف ایک دو گھر تھے‘ جو کچھ فاصلے پر تھے۔
ایک کھیت میں مسلمان اور مسیحی زرعی مزدور ایک ساتھ کام کرتے نظر آتے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ مسلمان مزدوروں کے حقے اور پانی کے گھڑے علیحدہ تھے اور مسیحیوں کے علیحدہ۔ ان کے گلاس بھی اپنے اپنے تھے۔ میں خود اور طلبہ عام لوگوں کے ساتھ رسوم و رواج‘ مقامی ثقافت‘ معیشت‘ سیاست اور زراعت‘ غرض ہر موضوع پر کھل کر بات کرتے تھے۔ پڑھے لکھے شہریوں اور عام دیہاتیوں میں فرق یہ ہے کہ دیہاتی اکثر بات چھپاتا نہیں‘ سادہ ہے‘ کھری طبیعت والا اور صاف گو۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ شادی بیاہ کے موقعوں پر عیسائیوں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے‘ مگر ان کے کھانے کے برتن علیحدہ ہوتے ہیں‘ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر نہیں کھا سکتے۔ یہی رویہ میں نے لاہور میں اپنی جامعہ میں بھی دیکھا۔ سب صفائی کا عملہ عیسائی ہے۔ وہ ہمارے شعبہ جاتی چائے خانوں سے حسبِ مرضی چائے بنا کر پی سکتے ہیں‘ مگر ان کے لیے کاغذ کے کپ تھے تاکہ وہ استعمال کرنے کے بعد انہیں پھینک دیں۔ یہ دیکھ کر مجھے افسوس ہوا۔ کوشش تو بہت کی‘ ایک دو دفعہ کسی کو چینی کے کپ میں خود چائے بنا کر بھی دی‘ مگر انسانی مساوات کہیں آگے نہ بڑھ سکی۔ سوچیں‘ ذرا غور و فکر کریں‘ اگر مغرب اور امریکہ میں عیسائی ہمارے ساتھ ایسا سلوک کریں تو ہم کیا محسوس کریں گے؟ میرا مشاہدہ تو یہ ہے کہ جتنی رواداری‘ باہمی عزت و احترام اور انسانی قدروں کو وہاں دیکھا‘ ہمارے ہاں ایسی مثالیں کم ہی ملیں گی۔ وہاں بھی نسل پرستی ہے۔ سیاہ فاموں کے ساتھ جو سلوک تاریخ میں ہوا‘ اور اب بھی جو واقعات سامنے آتے ہیں‘ دیکھ اور سن کر خون کھول اٹھتا ہے‘ مگر مجموعی طور پر مذہبی منافرت کو انہوں نے کب کا دفن کر دیا ہے۔ کل ہی کہیں خبر پڑھی کہ اٹلی کے ایک تاریخی چرچ نے مسلمانوں کے لیے تراویح پڑھنے کی خاطر دروازے کھول دیئے اور محترم پادری نے کیا خوب کہا کہ ہم سب ایک ہی ہیں‘ یکساں ہیں‘ ایک جیسے ہیں۔ ہمارے ہاں آپ تصور کر سکتے ہیں کہ دیگر مذاہب کے لوگ تو کجا‘ مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے اکٹھے مسجدوں میں عبادت کر سکتے ہیں؟
معاشرے میں مذہبی منافرت گزشتہ چالیس سالوں میں زیادہ نمایاں ہوئی ہے۔ ہر مسلک کے لوگوں کی خواہش ہے کہ مختلف نوع کا جھنڈا گھر کی چھت پر لہرا کر اعلان کریں کہ ان کا کس مسلک سے تعلق ہے۔ آپ جھنڈے کا رنگ دیکھ کر معلوم کر سکتے ہیں۔ اس طرح ہمارے رہنمائوں نے اپنی اپنی دستار مبارک کا رنگ‘ وضع قطع ایسی بنا رکھی ہے کہ ان کی شناخت باقیوں سے مختلف ہو۔ یہ سلسلہ بھی گزشتہ چند عشروں میں عروج پر پہنچا ہے۔ رہی سہی کسر مسجدوں کی طرزِ تعمیر نے نکال دی ہے۔ پچاس سال پہلے تک مساجد میں کوئی فرق نظر نہیں آتا تھا‘ اگر تھا بھی تو صرف چھوٹی بڑی کا‘ رنگ اور تعمیر میں کوئی واضح ‘ نمایاں فرقہ پرستی کی نشانی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ مشرق وسطیٰ میں تیل کی کمائی نے ان نودولتیوں میں اور ہمارے اپنے ملک میں بھی نودولتیے گروہ بنا ڈالے ہیں۔ مسجدوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ان کی فرقہ وارانہ ساخت اور طرزِ تعمیر میں بھی انفرادیت نظر آنے لگی ہے۔ اب مسجدوں میں بھی اتنا فرق آ چکا ہے کہ دیکھنے والا بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ کس مسلک کی مسجد ہے۔ یہ باتیں ضبطِ تحریر میں لانا مناسب تو نہیں مگر کیا کروں کہ جس طرح ہم تقسیم در تقسیم ہو رہے ہیں‘ دل دُکھتا ہے۔ شاید کسی کو خیال آ جائے کہ ہمارے قابلِ احترام مذہبی رہنما ہمیں جوڑنے‘ اکٹھے رکھنے کے بجائے کن راہوں پر چل پڑے ہیں۔ کاش وہ ہمارے اپنے وطن‘ اور اہلِ وطن کی محبت میں رہتے اور کبھی سوچتے کہ ان تفرقوں نے کتنے مسلم معاشروں کو اندر سے تباہ کر ڈالا ہے۔ دیکھ نہیں رہے‘ جو خونیں جنگیں افغانستان‘ یمن‘ شام‘ عراق اور لبنان میں ہو رہی ہیں۔ یہاں بھی کوشش تو بہت ہوئی مگر عوام اور معاشرہ ابھی ان کے دائو پیچوں میں آنے سے گریزاں ہیں۔ منافرت نہیں باہمی محبت اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔
واعظین کی مغرب کے خلاف تقاریر‘ زبان اور لہجہ‘ جس کے اکثر حوالے عیسائیت اور استعماریت ہیں‘ اس تہذیبی شناخت اور ٹکرائو کی علامت ہیں‘ جن کے خدشات کا اظہار پُرامن اور جدت پسند کرتا آیا ہے۔ تہذیبوں کی بنیاد مذاہب ہیں‘ ان میں فرق بھی ہے‘ اور کیونکر کوئی مذہب اپنی انفرادیت اور شناخت ختم کرے گا؟ نہ کبھی ہوا‘ نہ ہو سکتا ہے۔ موجودہ دور میں فرق کے ساتھ اختلافات کے ہوتے ہوئے امن کے ساتھ رہنا ہے۔ فرق نسل کاہو یا زبان و مقام کا‘ اس سے کسی کی برتری یا کمتری پیدا نہیں ہوتی‘ نہ کسی اور بنیاد پر ایسا ممکن ہے۔ مغربی معاشروں پر کئی خونیں جنگوں کے بعد جو راز کھلا‘ وہ یہ ہے کہ کسی کا مذہب جو بھی ہو‘اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کوئی روشن خیال انسان کہیں بھی ہو‘ اس بحث میں پڑتا ہی نہیں کہ کسی کی ذات پات‘ سماجی حیثیت‘ مالی استعداد یا مذہبی رجحانات کیا ہیں۔ ہر انسان برابر اور ہر انسان اپنی ذاتی زندگی کی سمت متعین کرنے میں آزاد ہے۔ کسی دوسرے کو کوئی حق نہیں کہ کسی کی ذاتی زندگی‘ مذہبی ترجیحات یا سیاسی نظریات کے بارے میں سوال اٹھائے۔
ہم ہیں کہ ہر کسی پر منصف بنے پھرتے ہیں۔ یہ طرزِ فکر اور سماجی رویے بے کار کی باتیں ہیں‘ پس ماندہ معاشرے ماضی میں دھنستے رہتے ہیں۔ آگے بڑھنے کے لیے ماضی سے سبق حاصل کرتے ہیں۔ سب انسانیت کے لیے ایک ہی سبق ہے‘ سب انسان برابر ہیں‘ سب کے حقوق یکساں ہیں‘ اور منافرت کسی بھی شکل میں سر اٹھائے تباہی کے راستے پہ ڈال سکتی ہے۔ بہت کچھ دیکھ رہے ہیں‘ سن رہے ہیں‘ یقین نہیں آتا کہ کیسے کیسے لوگ‘ اور گروہ طاقت ور ہو گئے ہیں۔ خوف ہے کہ ہمارے لیے جگہ تنگ ہوتی جا رہی ہے۔