گروہ بندی پاکستانی سیاست کا پکا اور گہرا رنگ ہے جو کئی ادوار گزرنے کے بعد بھی مدہم نہیں ہوا۔ جمہوریت پارلیمانی ہو یا صدارتی‘ ان کی روح سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے‘ ہم ان ملکوں کی بات کر رہے ہیں‘ جہاں جمہوریت فقط سیاسی نظام ہی نہیں‘ ثقافت‘ معاشرت اور اجتماعی طرزِ زندگی بھی ہے۔ یہاں ہم جمہوریت کا راگ تو عشروں سے الاپ رہے ہیں مگر ہمارا سفر ابھی ابتدائی منزلوں سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ انتخابات ہوں تو ہمیشہ متنازع بنا دئیے جاتے ہیں‘ ہارنے والے دھاندلی کا شور مچاتے ہیں‘ حکومتیں من مانی کرتی ہیں‘ طاقتور سیاسی خاندان کرپشن منظم طریقوں پھیلاتے ہیں۔ احتساب اور قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت مفاد پرست ٹولوں کے ہاتھوں یرغمال بن جاتی ہے۔ اس کے باوجود میں جمہوریت کو ہی مہذب نظام سمجھتا ہوں۔ ابتدائی مرحلوں میں جمہوریت کے نام پر سماج کے بااثر خاندان حکمرانی کی قانونی اور آئینی جائزیت حاصل کر لیتے ہیں۔ پاکستان میں ایسا ہی ہوا ہے۔ وہ حکمران طبقہ جو انگریزی استعمار نے اپنی ڈھال کے طور پر تیار کیا تھا‘ آج بحیرہ عرب کے ساحلوں سے لے کر چترال تک انتخابی سیاست پر چھایا ہوا ہے۔ قبائلی اور زمیندارانہ معاشرے میں انگریز کو وڈیروں اور سرداروں کی ضرورت تھی۔ تب حکومت کے پاس ریاستی استعداد محدود تھی۔ ہر جگہ یہ طریقہ سامراجی طاقتوں کیلئے موثر ثابت ہوا کہ مقامی سطح پر اتحادی بنائے جائیں‘ انہیں جاگیروں کی ملکیت دے کر معاشی اور سماجی طور پر زیادہ طاقت ور بنایا جائے۔ ان کے لئے مخصوص تعلیمی ادارے بنائے گئے‘ فوج اور نوکر شاہی میں ایک عرصہ تک بھرتیاں صرف اسی اتحادی طبقے کے خاندان سے ہوا کرتی تھیں۔
ہمارے جیسے ملک آزاد ہوئے تو سامراجیت کے سائے میں حکمران طبقہ پہلے ہی سے تیار ہو چکا تھا۔ ''ووٹ کی عزت‘‘ نے سامراج کے مقامی اتحادیوں کو بھی عزت سے نوازا۔ جب اقتدار میں متبادل سیاسی ٹولوں کی شکل میں آئے تو خود کو نوازا‘ اتنا کہ انگریز حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ اِن کی دھن دولت کے مقابلے میں حقیر نظر آنے لگی۔ ٹولے کہیں‘ سیاسی گروہ یا دھڑے‘ یہ سیاسی جماعتوں کی نسبت زیادہ طاقتور بن کر ابھرے ہیں۔ دھڑوں کو بھی سیاسی جماعتوں کے چھاتے کی ضرورت ہوتی ہے‘ اور سیاسی جماعتوں کو ایسے امیدواروں کی جو پیسہ پانی کی طرح بہا سکیں اور معاشرے میں تعلیم‘ اہلیت یا ایمانداری سے کہیں زیادہ اپنے حلقے میں اثرورسوخ نمایاں ہو۔ بد قسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں نصف صدی سے نظریاتی اساس کھو چکی ہیں۔ نعروں سے نظریے کی تشکیل نہیں ہو پاتی‘ نظریہ تو معاشرے کی ساخت‘ ریاست کی سمت‘ وژن‘ اور قومی شناخت کے تصورات پر مبنی ہوتا ہے۔ اگرچہ انتخابات کسی نہ کسی صورت تسلسل سے ہوتے آئے ہیں‘ لیکن انکے اثرات سیاسی جماعتوں کو مضبوط‘ منظم اور مربوط کرنے میں ابھی تک نظر نہیں آئے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں‘ مگر اختصار کی غرض سے صرف دو کا ذکر کروں گا۔ پہلی‘ جمہوریت لولی لنگڑی ہی سہی‘ جاری رہتی‘ تو سیاسی جماعتیں بہتر قیادت فراہم کر سکتی تھیں‘ ایسا نہ ہو سکا۔ دوسری‘ سب سیاسی جماعتوں پر یا تو بانی خاندان کا قبضہ ہے‘ یا کچھ صورتوں میں خلا سے اتارے گئے افراد نے قبضہ کر لیا ہے۔ مسلم لیگ تو بیچاری ایسی سیاسی گائے رہی ہے کہ جس کے پاس لاٹھی بڑی اور مضبوط تھی‘ وہ اسے ہانک کر گھر لے گیا۔
صرف قبضہ ہی کافی نہیں‘ سیاسی اتحاد بھی بنانے پڑتے ہیں۔ بااثر افراد اور خاندانوں کو ساتھ ملانا پڑتا ہے اور یہ سب کچھ باہمی مفادات کی بنیاد پر طے پاتا ہے۔ آزادی کے پہلے عشروں میں حکمران طبقہ نوآبادیاتی نظام سے وابستہ گھرانوں تک محدود تھا، اس کے بعد قومی ریاست نے بھی سرپرستی جاری رکھی اور متبادل سیاسی قیادت ابھارنے کی غرض سے غیر روایتی شعبوں پر بھی نظرِ انتخاب ٹھہری اور حکمران ٹولہ پھیلتا گیا ہے۔ اب یہ ''چند گھرانے‘‘ نہیں سینکڑوں میں ہیں۔ شہروں کے پھیلائو اور نئی بستیاں بسانے کے کاروبار نے تو سب کو دولت کے لحاظ سے پیچھے چھوڑ دیا‘ مگر بغور جائزہ لیں تو تانے بانے اس دھندے کے موروثی سیاست کے بڑے بڑے گھرانوں سے ملتے ہیں۔ وہ بھی براہ راست یا پردے کے پیچھے سیاست‘ معیشت اور حکومتی شعبوں پر گہرا اثر رکھتے ہیں۔ اپنا جائز اور ناجائز دھندا جاری رکھنے اور اسے مزید وسعت دینے کیلئے سیاسی پشت پناہی کی ضرورت انہیں پڑتی ہے۔ سیاست میں سرمایہ کاری وہ دولت کے سہارے کرتے ہیں۔ چھوڑیں کس کس کی بات کریں۔ سب بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دھڑوں کے گٹھ جوڑ ہیں‘ اتنے مضبوط کہ ریاستی ادارے ان کی طاقت کے سامنے کمزور ہوتے چلے گئے۔
عمران خان صاحب تو اس روایتی دھڑے بندی کی سیاست‘ جو کرپشن‘ دھونس‘ دھاندلی اور گروہی دبائو کے سہارے چلتی ہے‘ ختم کرنے کیلئے میدان میں اترے تھے۔ 20 سال تک وہ عوام کو‘ خصوصاً نوجوانوں کو متحرک کرتے رہے۔ عوام نے انہیں پذیرائی بخشی۔ سب سے پہلے خیبرپختونخوا کے لوگوں نے تحریکِ انصاف کو سرفراز کیا۔ بہت بڑا انقلاب‘ جس کی لہروں نے گزشتہ انتخابات میں پنجاب کی سیاست میں بھی ارتعاش تو پیدا کیا‘ مگر اس زوروشور سے نہیں‘ جیسا کے پی میں نظر آیا۔ اقتدار کی ہوس نے روایتی سیاسی دھڑوں سے اتحاد کرنے پر مجبور کر دیا۔ وہی‘ سیاسی موسموں کا رخ بدلتے دیکھ کر پارٹیاں تبدیل کرنے والے قطار در قطار تحریک انصاف میں شامل ہونے لگے۔ گروہوں کی صورت میں کپتان سے ملتے اور وہ ایک سیاسی پیر کی طرح ان کی دستار بندی فرماتے۔ ان کے نظریاتی دوست تحریک کے اندر اور باہر خطرات کو بھانپ چکے تھے۔ کچھ پارٹیاں چھوڑ کر الگ اور کئی خاموش ہو کر تماشا دیکھنے لگے۔ میرے نزدیک کپتان کو اقتدار لینے میں جلدی نہیں کرنی چاہئے تھی۔ نہ بھی ملتا تو کرپٹ ٹولوں کے خلاف تحریک جاری رکھتے۔ انہیں گجرات کے چودھریوں سے لے کر شیخ رشید صاحب تک سب کے ساتھ گٹھ جوڑ بنانا پڑا اور اپنی پارٹی میں نہ جانے کتنے دھڑے لے آئے کہ نظریاتی کارکنوں کیلئے کام کرنا مشکل ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے جہانگیر ترین صاحب اور ان کے ساتھ جتھے میں آنے والوں نے اگلی نشست کی کرسیاں سنبھال لیں۔ انتخابی مہم کے دوران ایسا لگا کہ تحریک انصاف تو بنائی ہی پُرانے سیاسی خاندانوں نے تھی۔ تحریک وفاق میں سب سے آگے تھی اور پہلا حق حکومت بنانے کا اس کے پاس تھا‘ مگر پنجاب میں مسلم لیگ نون نے سب سے زیادہ سیٹیں لی تھیں‘ پہلا حق اس کا بنتا تھا۔ پنجاب اور وفاق کی حکومتیں بنانے کیلئے کپتان کو دھڑے بندی کا سہارا لینا پڑا۔ پارٹی میں اتنی ملاوٹ ہوئی کہ کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنا ممکن نہ رہا۔ اس کے نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے‘ کسی کو قانون ہاتھ ڈالے تو ''انتقامی کارروائی‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے سیاسی دھڑے پارٹی چھوڑنے اور حکومت گرانے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ نظام ہی ایسا ہے‘ تو وہ یہ سب کچھ آئینی طور پر بھی کر سکتے ہیں۔
کپتان کیلئے دو ہی راستے ہیں کہ دھڑوں کے دبائو برداشت کرو‘ انہیں این آر او دو اور چین سے اگلے دو سال اقتدار میں رہو۔ دوسرا راستہ اپنے منشور پر ثابت قدمی ہے‘ چاہے اس کی جو بھی سیاسی قیمت ادا کرنا پڑے۔ ایک دفعہ دھڑوں کے دبائو میں آ گئے تو پھر احتساب فقط کھوکھلا نعرہ ہی رہ جائے گا۔ حلیفوں کا احتساب نہیں تو حریفوں کے احتساب کا کیا جواز رہ جائے گا؟ کہتے تو ہیں کہ حکومت چلی بھی جائے تو کوئی پروا نہیں‘ مگر ابھی ہم دیکھتے ہیں‘ آنے والے دنوں میں وہ اندرونی دھڑوں کا مقابلہ کر سکیں گے یا ان کے سامنے ہتھیار ڈال کر چین کی بانسری بجائیں گے۔ ان کا اور تحریک انصاف کے مستقبل کا انحصار ان کے فیصلے پر ہو گا۔