"RBC" (space) message & send to 7575

کچھ لکھنؤ کی باتیں

ایک خواب تھا اور رومانس بھی جو کالج کے سنہرے دنوں سے آنکھوں میں سجا اور ذہن میں سمو رکھا تھا۔ جامعہ پنجاب اور امریکی دانش گاہوں میں طویل قیام کے دوران بھی لکھنؤ کی تہذیب‘ ثقافت‘ ادب‘ ادیبوں اور شاعروں کے بارے میں خاصا مطالعہ کیا۔ اشتیاق بڑھتا رہا۔ اسی زمانے میں فلم 'امرائو جان ادا‘ ریلیز ہوئی۔ بھارت اور پاکستان کی دوسری جنگِ صغیر کے بعد ہندوستانی فلموں پر پابندی تھی۔ یاد پڑتا ہے‘ ایک دوست‘ جو کبھی گوجرانوالہ میں سینما کے مالک تھے‘ وہاں ایک خصوصی اہتمام کے ساتھ یہ فلم دیکھی تھی۔ نہ جانے کتنی مرتبہ چھوٹی سکرینوں پر۔ مزرا ہادی رسوا کا ناول‘ جسے پڑھ کر کبھی بھی ناول کا احساس نہ ہوا‘ کئی سال پہلے پڑھنے کے بعد‘ گزشتہ سال ایک بار پھر مزے لیکر پڑھا۔ لکھنؤ جانے سے پہلے اس تاریخی شہر اور اردو ادب و تہذیب کے گہوارے کے بارے میں ذہن میں ایک نقشہ بن چکا تھا۔ اودھ کے نوابوں کے بارے میں جو کچھ پاکستان میں سن رکھا تھا‘ اور جو دستیاب کتابی حوالے مل سکے تھے‘ تعصب سے خالی نہ تھے۔
بھارت آخری بار غالباً دو ہزار پندرہ کے آخری مہینوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ہر مرتبہ کسی کانفرنس کے سلسلے میں دہلی جانا ہوتا اور اگر ویزا کہیں اور جانے کا مل جاتا تھا تو بھارت کے دیگر شہروں کا چکر ضرور لگاتا۔ ہمارے تعلقات کی ریاستی نوعیت تو جو ہے‘ وہ ہے‘ اور نہ جانے کب بہتری آئے‘ مگر ہندوستانی عوام کے کچھ سماجی حلقوں میں اہلِ وطن کیلئے دل تنگ پایا۔ کارگل کی جنگ کے کچھ عرصہ بعد علی گڑھ گیا کہ سر سید احمد خان کی علمی اور فکری تحریک میں بنی جامعہ میں کچھ وقت گزاروں۔ یہ بھی ایک خواب تھا۔ کسی کو اطلاع نہ دی تھی‘ اور نہ ہی کوئی واقف تھا۔ گھومتے گھماتے شعبہ سیاسیات میں جا دھمکا‘ اور جو دروازہ کھلا دیکھا تو آداب بجا لانے اور اجازت طلب کرنے کے بعد اپنا تعارف کرایا۔ محوِ مطالعہ اور کاغذوں‘ کتابوں میں الجھے اساتذہ چونک اٹھے۔ نام یاد آ گیا‘ یہ نظامی صاحب تھے‘ شعبہ کے صدر۔ بہت خوش ہوئے اور جو بھی ہم کار ارد گرد موجود تھے‘ ان کو بلا لیا۔ بہت تفصیل سے باتیں ہوئیں‘ چائے کے دور چلے۔ کچھ انہوں نے بتایا‘ اور کچھ ہم کہتے رہے۔ رخصت ہوتے ہوئے درخواست کی کہ بازار جانا چاہتا ہوں‘ کچھ وقت وہاں گزارکے شام کی ٹرین سے دہلی چلا جائوں گا۔ ایک نوجوان استاد باہر چھوڑنے آیا تو کہا‘ جہاں بھی جائیں‘ یہ کبھی نہ بتائیں کہ ''پاکستان سے آیا ہوں‘ کہنا دہلی سے آیا ہوں‘‘۔ یہ سن دو ہزار کی بات کر رہا ہوں۔ میرے تحفظ کیلئے انہوں نے ایک سائیکل رکشہ کا بھی بطور ٹیکسی انتظام کر دیا تھا۔ اس کا نام غلام رسول تھا۔ وہ بعد میں ریلوے سٹیشن تک میرے ساتھ رہا۔
لکھنؤ میں میرا قیام لکھنؤ یونیورسٹی کے گیسٹ ہائوس میں تھا‘ جس کا اہتمام میرے دہلی کے دوستوں نے کر دیا تھا۔ بھارت میں اندرونی سفر ہمیشہ ٹرینوں پہ کیا۔ بھارت کی ٹرینیں اور ان کا نظام ہمارے نظام سے کئی درجے بہتر ہے۔ صفائی اور وقت کی پابندی ہم سے بہت بہتر ہے۔ یہاں ہم رکشہ کہتے ہیں‘ بھارت میں اس کا نام آٹو ہے۔ یہ سواری پکڑی‘ اور گیسٹ ہائوس میں ڈیرا ڈال دیا۔ یہاں سب کچھ پاکستانی جامعات کے ریسٹ ہائوسوں سے بدتر تھا۔ بیڈ شیٹ پھٹی ہوئی‘ نہ تولیہ نہ صابن اور نہ کوئی خاص صفائی۔ رات صبح کے انتظار میں کٹی کہ خوابوں کے لکھنؤ کا نظارہ کروں۔ گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے یونیورسٹی بند تھی‘ لیکن دہلی والوں سے رہنمائی حاصل کرلی تھی کہ کیا کیا قابلِ دید ہوگا۔ نوابوں کے امام باڑے‘ لکھنؤ کا نیا پارک‘ اور کھانے پینے کی قدیم دکانیں‘ سب کی زبان پہ تھیں۔ پہلے دن پارک کا رخ کیا جو گومتی نگر میں ہے‘ وسیع و عریض۔ حیرت کی کوئی حد نہ رہی کہ میاوتی پارک کے ہر کونے میں بنے گنبد نما ہال میں کہیں بھی کسی نواب کا یادگاری مجسمہ‘ کوئی تصویر‘ یہاں تک کہ نام تک موجود نہ تھا۔
نواب سعادت خان نے 1680 میں سلطنت اودھ کی بنیاد رکھی تھی اور آخری فرمانروا برجیس قادر تھے۔ 1893 میں انگریزوں نے نوابی ریاست کو ختم کر دیا تھا۔ 1857 کی جنگِ آزادی میں نواب واجد علی شاہ نے‘جن کے بارے میں بیہودہ قصے پھیلائے گئے ہیں‘ انگریزی حکومت سے جان چھڑانے کیلئے بہت کچھ کیا تھا۔ اس کی پاداش میں انہیں کلکتہ میں محصور کر دیا گیا تھا۔ ہو سکتا ہے آپ نے نام ہی نہ سنا ہو‘ ان کی بیگم حضرت محل نے مزاحمت جاری رکھی۔ انہیں تو دیس نکالا ہی دے دیا گیا۔ زندگی کا باقی حصہ انہوں نے کسمپرسی کی حالت میں نیپال میں گزارا۔ ان کی آخری آرام گاہ بھی وہیں ہے۔ ان کے نام پہ حضرت محل بیگم پارک اب بھی موجود ہے۔ تین دن کی مٹر گشتی کے دوران اردو میں لکھے حروف صرف دو جگہوں پہ دیکھ سکا۔ حضرت محل بیگم پارک کے باہر بورڈ پر اور بڑے امام باڑے کے دروازے کی بالائی تختی پر ''یا حسین‘‘ کے دو حروف۔ بہت دکھ ہوا۔ مسلمانوں کی آبادیوں والے علاقوں میں بھی سفر کیا۔ صرف ایک جگہ لٹکی ہوئی سلیٹ پر ''کھجور‘‘ چاک سے لکھا پایا‘ اور راستے میں ایک بوسیدہ دروازے پر ''کتب خانہ‘‘۔ یہ ہندی بیلٹ اور بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی عسکریت پسند ذیلی تنظیموں کا گڑھ ہے۔ اسی طرح علیگڑھ میں بھی ریلوے سٹیشن سے لیکر جن بازاروں میں جا سکا‘ کہیں بھی اردو میں لکھا کوئی بورڈ نظر نہ آیا۔ لکھنؤ کیلئے بھی دوستوں نے مشورہ دیا کہ کہیں نہ بتانا‘ پاکستان سے آئے ہو۔ تحفظ کی ایک چادر لپیٹنے کی غرض سے ہر جگہ میں نے اپنا نام ''پارتھا گوش‘‘ بتایا۔ بولنے میں اردو اور گلی کوچوں کی ہندی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ مطالعہ اور مشاہدہ کی غرض سے شہر کے مختلف علاقوں میں سارا دن گھومتا پھرتا‘ رات کو سونے کیلئے گیسٹ ہائوس آ جاتا۔ حضرت محل بیگم پارک تو روزانہ جانا ہوتا۔ اس کے ساتھ ہی نوابوں کے مقبرے ہیں‘ جو لاہور‘ ملتان اور ایران کے اصفہان کے مقبروں کی یاد دلاتے ہیں۔
ایک شام دیکھا کہ قناتیں لگائی جا رہی تھیں۔ اندر گھس کے دیکھا تو معلوم ہواکہ محرم کی پہلی تاریخ ہے اور مقامی انجمن ریاستی محکمہ آثارِ قدیمہ سے محرم کے پہلے دس دنوں کیلئے مقبروں کے لان میں مجالس منعقد کرنے کی اجازت لے لیتی ہے۔ حضرت صاحب نے شام کو مجلس میں شرکت کی دعوت دی۔ یہاں پاکستانی بھی بتایا اور اپنا نام پارتھا گوش سے فوراً تبدیل کرکے اصل رکھ لیا۔ مجلس میں حاضری دی تو تقریر کا مزا ہی آ گیا۔ ایک خوبرو نوجوان مقرر تھے۔ کیا زبان اور لہجہ تھا اور کیا کمال کا بیان تھا۔ عرصہ گزر گیا‘ لیکن ان کی ایک خوبصورت بات اب بھی اکثر میرے ذہن میں گونج اٹھتی ہے ''صبح کی نماز نیند کی زکوٰۃ ہے‘‘۔ مجلس ختم ہوئی تو مٹی کے کپوں میں چائے دی گئی۔ ایک بار استعمال کرکے پھینک دیں۔ یہ کیمیائی مواد سے بنائے گئے گلاسوں اور پیالوں سے بہتر طریقہ ہے۔ اگلے روز امام باڑوں کی بھی زیارت کی‘ اور کھلے مقبروں کے ہر دروازے پہ قدم رکھا۔ ساڑھے تین سو سال کی ریاستِ اودھ اور اس کی تاریخ ذہن میں گھومتی رہی۔
کبھی کبھار مندروں کے باہر کھڑے ہو کر اندر جاری بھجن کی محفلوں کی موسیقی سے بھی لطف اندوز ہوتا‘ دور ہی رہتا اور ایسے کہ میں جاتے جاتے ذرا ٹھہر گیا ہوں۔ ایک کھوکھے پر تو روزانہ ناشتے کی غرض سے جاتا۔ ایک دن دکاندار کے دہی کی تعریف کر ڈالی‘ پھر اس نے تو ''پارتھا گوش‘‘ کا طویل انٹرویو کر ڈالا۔ میری محرومی کہ میں ''ندوۃ العلما‘‘ کا کھوج نہ لگا سکا‘ نہ کتب خانوں کا۔ کتابی اور حقیقی لکھنؤ میں اتنا فرق دیکھا کہ ہوش ہی ٹھکانے نہ رہے۔ اب تو زیادہ منظم طریقے سے وہ سب تاریخ‘ تمدن اور تہذیب‘ جس پر آج بھی سرحد کے اس پار فخر ہے‘ سب مٹایا جا رہا ہے۔ اسے تاریخ کا جبر سمجھ لیں۔ طاقت جن کے پاس ہوتی ہے‘ وہ سب کچھ اپنے فکروانداز سے بگاڑتے اور بناتے ہیں۔ ہم نے خود اس سرزمین کے آثارِ قدیمہ اور تاریخی ورثے کو مٹانے میں کون سی کسر چھوڑی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں