"RBC" (space) message & send to 7575

ڈیورنڈ لائن… غلط مفروضے

دعویٰ تو نہیں‘ مگر اس خطے کی تاریخ اور اس کے پیچھے سیاسی‘ جغرافیائی اور سلطنت سازی کے محرکات کو سمجھنے کیلئے برٹش لائبریری‘ لندن میں محفوظ دستاویزات دیکھنے کا چند بار موقع ملا۔ افغانستان اور پاکستان کے مابین سرحد کے بارے میں ہمارے دانشوروں اور سیاسیوں میں من گھڑت باتیں کہنے کا رواج ہے۔ کم از کم پاکستانی صحافت اور ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے ناموروں کو تو اس کے بارے میں کچھ حقائق معلوم ہونے چاہئیں۔ عجیب باتیں سننے اور پڑھنے میں آئی ہیں کہ افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کیا‘ اور آج کل اس کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ اگر طالبان وہاں دوبارہ اقتدار میں آگئے تو کیا وہ اس لائن کو تسلیم کرلیں گے؟ ایسا لگتا ہے کہ ہمیں جانکاری کے بغیر باتیں کرنے اور افواہیں اڑانے کی جو بیماری لاحق ہے‘ اس کی وجہ سے ہم خود ہی اس تاریخی حقیقت کو متنازع بنائے بیٹھے ہیں۔ افغان قوم پرستوں کا مسئلہ الگ ہے‘ ہمیں اپنی سرحدوں کے بارے میں سب کچھ نہیں تو بنیادی حقائق ضرور معلوم ہونے چاہئیں۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ ڈیورنڈ لائن سے پہلے افغانستان کی سرحدیں کہاں تک تھیں؟ جب انگریزوں نے اس خطے کا اقتدار ریاستِ پنجاب سے 1846 میں چھینا تو سب علاقے ان کے پنجاب صوبے کا حصہ تھے۔ افغانوں اور پنجابی سکھوں کے مابین کئی جنگیں ہوئیں۔ سکھوں اور بعد میں انگریزوں کے خلاف لڑنے والے افغان خود کو مجاہدین کہلاتے تھے۔ افغانستان کے امیر دوست محمد خان کے زمانے میں افغانستان کی سرحدیں کہیں دریائے کابل اور کہیں دریائے سندھ تک جاتی تھیں۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد افغان حکمرانوں نے پشاور کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ 1823 میں کئی افغان علاقوں پر مہاراجہ رنجیت سنگھ نے قبضہ کر لیا تھا۔
امیر دوست محمد خان نے کئی بار پشاور اور دیگر کھوئے ہوئے علاقوں کو بازیاب کرانے کی کوشش کی۔ فیصلہ کن لڑائی 30 اپریل 1837 کو جمرود کے مقام پر ہوئی۔ افغان بہت بڑا لشکر لے کر حملہ آور ہوئے تھے۔ اس کی قیادت امیر دوست محمد خان کے بہادر بیٹے وزیر اکبر خان کر رہے تھے۔ سکھ فوج کے سربراہ مشہور جرنیل ہری سنگھ نلوا تھے۔ افغانوں کا پلڑا بھاری رہا۔ دست بدست لڑائی ہوئی‘ وزیر اکبر خان نے ہری سنگھ نلوا کو میدانِ جنگ میں قتل کر دیا۔ پسپائی کے بعد اور سپہ سالار کے مرنے کے باوجود سکھ ایسا لڑے کہ افغانوں کے چھکے چھوٹ گئے۔ اس کے بعد ان کو کبھی جرأت نہ ہوئی کہ دوبارہ جنگ کر سکیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا 1839 میں انتقال ہوا تو انگریزی حکومت کی پنجاب کو ہڑپ کرنے کی سازشیں زور پکڑنا شروع ہو گئیں۔ آخر کار وہ پنجاب پر قابض ہو گئے۔ تب بھی افغانستان کی نہ شمال‘ نہ مغرب اور نہ جنوب میں سرحدیں قائم تھیں۔ پنجاب کو ہتھیانے کے ایک سال بعد انہوں نے شاہ شجاع کو‘ جو برسوں سے لدھیانہ میں انگریزی حکومت کے مہمان تھے‘ آگے کرکے ایک بڑی فوج افغانستان پر حملے کیلئے براستہ ریاست بہاول پور اور سندھ‘ بلوچستان اور قندھار روانہ کی۔ اس جنگ میں انگریزوں کو فتح ہوئی‘ اور کٹھ پُتلی حکومت بھی قائم کی گئی‘ مگر چند سالوں کے بعد جو ہوا‘ اس کی المناک داستان انگریز آج تک نہیں بھولا۔ مقصد تھا افغانستان کو روسی مداخلت سے محفوظ رکھنا۔ تقریباً ایک صدی سے کہیں زیادہ دو بڑی طاقتوں کے مابین افغانستان اور مرکزی ایشیا میں ''عظیم کھیل‘‘ کھیلا گیا۔ دوسری انگریز افغان جنگ 1878 کے بعد امیر عبدالرحمن خان کو تخت پر بٹھایا گیا۔ افغان حکمران‘ دوست محمد خان کے زمانے سے ہی انگریز حکومت کے وظیفہ خوار چلے آ رہے تھے۔ امیر عبدالرحمن کو بھی لاکھوں سالانہ وظیفہ ملتا تھا‘ اسلحہ بھی۔ دوستی اور امدادِ باہمی کے معاہدے تھے۔ بنیادی مقصد افغانستان کے خارجی تعلقات کو کنٹرول میں رکھنا تھا‘ اس لیے کہ شمال میں وسعت پذیر روسی سلطنت اور جنوب میں برطانوی راج کے درمیان افغانستان بفر زون رہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ روس بھی اپنا غلبہ مرکزی ایشیا کے ممالک تک محدود رکھنا چاہتا تھا‘ مگر موقع کی تلاش میں ضرور تھا کہ افغانستان میں قدم جما سکے۔ جونہی روس اور انگریزی راج نے اپنی اپنی استعماریت کو پختہ کیا‘ افغانستان ان کیلئے بفر کے طور پر بھی اہمیت اختیار کر گیا۔ اس ملک میں اثرورسوخ کو استعمال کرکے برطانیہ روس کے اور روس برطانوی ہندوستان کے ملحقہ علاقوں میں گڑبڑ کرانے کی صلاحیت حاصل کر سکتا ہے۔ دونوں جنگ سے پہلوتہی کے خواہشمند تھے۔ کسی بھی ایسے خطرے کو دور رکھنے کیلئے انہوں نے آپس میں بات چیت کی اور معاہدے بھی کئے کہ افغانستان کی سرحدوں کا تعین کر لیا جائے۔
روس نے 1885 میں افغانستان کے محدود علاقوں پر قبضہ کیا تو برطانیہ نے روس پرزور دیاکہ سرحدوں کا تعین کریں۔ انہوں نے اس مقصد کیلئے مشترکہ کمیشن بنایا اور اگلے دو سالوں میں سرحد قائم کردی۔ اس کے بعد امیر عبدالرحمن نے انگریزوں سے بات چیت کا آغاز کیا کہ ان کے ساتھ بھی بارڈر کو معاہدے کی صورت میں حتمی شکل دی جائے۔ خواہش دونوں جانب تھی‘ مگر برطانوی حکومت افغانستان کی طرف قبائلی علاقوں میں آئے روز کی مداخلت‘ اغوا اور تاوان کے واقعات اور جرائم کرکے افغان علاقوں میں پناہ لینے سے نالاں تھی۔ اس مقصد کیلئے امیر عبدالرحمن کی رضامندی حاصل کرنے کے بعد سر مورتیمر ڈیورنڈ کو 1893 میں ایک وفد کے ہمراہ کابل روانہ کیا گیا۔ وہاں اس وفد کا قیام تین ماہ رہا۔ معاہدہ کرنے کے بعد جو خفیہ رپورٹ تمام واقعات اور معاہدے کے بارے میں سر ڈیورنڈ نے برطانوی حکومت کو پیش کی وہ سرحدی علاقوں کی پیچیدگیوں اور افغان حکمران کے اصرار کہ انگریزی راج میں شامل کچھ علاقے انہیں دیئے جائیں‘ کا احاطہ کرتی تھی۔ ان کو خوش کرنے کیلئے شمالی وزیرستان کے چند دیہات سے برطانیہ دستبردار ہو گیا۔ معاہدہ ہو گیا۔ نقشے بنانے والے برطانوی حکومت کی طرف سے تھے‘ وہیں بنے‘ لیکن زمین پر لکیریں مشترکہ طور پر اس کے بعد کھینچی گئیں۔ پاکستان نے آزادی پر وہی علاقے اور سرحدیں حاصل کیں۔
اگلے چوّن سالوں میں افغانستان میں کئی حکومتیں آئیں اور گئیں‘ مگر کسی نے ڈیورنڈ لائن کے بارے میں کوئی سوال برطانیہ کے ساتھ نہ اٹھایا۔ یہ من گھڑت بات ہے کہ افغانستان کی کسی حکومت نے اس لائن کو تسلیم نہیں کیا۔ 1946 میں جب پاکستان کا وجود ابھرتا ہوا دکھائی دیا تو کابل نے لندن کو خط لکھاکہ اب آپ جا رہے ہیں‘ ہم چاہتے ہیں کہ اس سرحد کے بارے میں نیا معاہدہ ہو۔ صاف جواب دے دیا گیا‘ اور اس کے بعد افغانستان نے خاموشی اختیار کر لی۔ ان کے اس مطالبے کو عبدالغفار خان کی کانگریسی سیاست کے تناظر میں دیکھیں تو بات سمجھ میں آ جائے گی۔ پاکستان بننے کے بعد افغانستان سرحد کے اس پار لائن کی جائزیت کے بارے میں سوال تو اٹھاتا رہا مگر اصول طے ہے کہ موروثی ریاست یا ریاستیں معدوم ہونے والی ریاست کی تمام ذمہ داریاں اور حقوق حاصل کرتی ہیں۔ ایک اور مغالطہ بھی ہمارے ہاں عام ہے کہ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرے۔ میرے علم کے مطابق کبھی یہ مسئلہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ نہیں اٹھایا‘ نہ اٹھایا جائے گا۔ عجیب باتیں ہوتی ہیں کہ طالبان ڈیورنڈ لائن کو مان لیں گے یا نہیں؟ اس سرحد کو قائم ہوئے 128 سال ہوچکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رنجیت سنگھ کے زمانے سے ہی پشتون تین علاقوں میں تقسیم ہو گئے۔ دو تہائی پاکستان میں‘ ایک تہائی افغانستان اور کچھ اضلاع بلوچستان میں۔ قوم پرستوں کا دکھ محسوس کر سکتے ہیں‘ مگر تاریخ کے فیصلے تقدیر بن جائیں تو قبول کرنا پڑتا ہے۔ ویسے دنیا سرحدوں کی کیفیت سے آگے نکل گئی ہے۔ امن اور سلامتی قائم ہو جائے تو کئی رشتے ہمیں آپس میں ایسے جوڑیں گے کہ سرحد بے معنی ہو جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں