نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کئی دنوں سے پاکستان میں تھی۔ دورہ کئی ماہ پہلے طے ہو چکا تھا‘ بلکہ کسی ملک کی ٹیم نے کہاں کا دورہ کرنا ہے‘ کتنے میچ کھیلے جائیں گے‘ کہاں کہاں اور کب کب‘ اس کے فیصلے تقریباً ایک سال قبل ہو چکے ہوتے ہیں۔ جس طرح دہشتگردوں اور ان کی پشت پر موجود کچھ دشمن ممالک نے پاکستان میں کرکٹ کو تباہ کیا‘ اس کی مثال کہیں اور نہیں ملے گی۔ گلی گلی‘ کوچے کوچے تو کرکٹ آزادی سے پہلے بھی کھیلی جاتی تھی‘ مگر اب یہ کھیل اتنا مقبول ہو چکا ہے کہ دور دراز کے قبائلی علاقے ہوں‘اور بلوچستان یا ملک کے کسی حصے کے دیہات‘ آپ بچوں کو ہر جگہ کرکٹ کھیلتا دیکھ سکتے ہیں۔ دشمن نے وہاں وار کیا‘ جہاں عام معاشرے اور ریاست کی ساکھ پر کاری ضرب لگ سکتی تھی۔ یہ تین مارچ دو ہزار نو کا دن تھا۔ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم میچ کھیلنے کیلئے قذافی سٹیڈیم کی طرف سکیورٹی کے حصار میں سفرکررہی تھی۔ لبرٹی مارکیٹ چوک کے نزدیک‘ بالکل اس عمارت کے سامنے جہاں کبھی میڈم نور جہاں کا مکان ہوا کرتا تھا‘ دہشت گردوں نے حملہ کر دیا۔ سکیورٹی کے چھ اہلکار ٹیم کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ قریب سے گزرتے ہوئے دو شہری بھی اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ ٹیم زیادہ تر محفوظ رہی‘ مگر اس کے چھ کھلاڑی زخمی ہوئے۔ اس ایک واقعے نے پاکستانی کرکٹ کو ایسا گھائو لگایا کہ ابھی تک مندمل نہیں ہو سکا۔ پیٹر او بورن نے کیا خوب پاکستانی کرکٹ کی تاریخ لکھی ہے۔ اس کتاب کے عنوان کا ترجمہ ہے: زخمی چیتا۔ دہشتگردی کو ختم کرنے کیلئے ہم نے کیا کچھ نہیں کیا اور کون سی قربانیاں ہیں جو نہیں دیں۔
دوسروں کی جنگوں میں شرکت کے نتائج ہم نے دیکھ لیے ہیں۔ افغانستان کی جنگوں کی آگ کے کچھ شعلے اتنے بلند تھے کہ ہماری سرحدوں کو عبور کرتے رہے اور ہماری طرف سے رکاوٹیں بھی کمزور تھیں‘ مگر ہمارے حکمرانوں نے ان جنگوں میں اپنے مفاد بھی دیکھے۔ بڑی طاقتیں جب مداخلتی جنگیں آپ کے پڑوسی ملک میں لڑیں تو ان کے اثرات سے بچنا محال ہو جاتا ہے۔ آپ غیر جانبداری اختیار کریں تو بھی وہ مانتے نہیں۔ دونوں جنگوں میں اتحادی بننے کا داخلی اور بیرونی دبائو زیادہ تھا۔ جب ہوش آیا تو بہت کچھ گنوا چکے تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ حکمرانوں کو امریکہ کی حمایت کی ضرورت تھی‘ ذاتی اور قومی مفادات کے مابین لکیر طاقت کے زور پر مٹا دی جاتی ہے۔ عمران خان نے اپنے حالیہ انٹرویوز میں جو بات کہی‘ وہ دبے اور کبھی کھلے لفظوں میں لوگ مشرف کے فیصلے کے خلاف بھی کہتے رہتے تھے‘ مگر انکی کوئی سن نہ رہا تھا۔ خان صاحب نے کہا کہ اگر وہ اقتدار میں ہوتے تو کبھی امریکہ کا ساتھ نہ دیتے۔ وہ قبائلی علاقوں میں آپریشنز کے خلاف تھے۔ اس وقت وہ واحد سیاستدان تھے جس نے جلوس نکال کر ان علاقوں میں احتجاج کیا تھا۔ میں اس موقف کی تائید کرتا ہوں کہ بات چیت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں تو جنگیں کرنے کی ضرورت نہیں‘ جنگ آخری حربہ ہوتا ہے۔ یہ بالکل درست ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی ہمارا امریکہ افغان جنگ میں اتحادی بننے کا رد عمل تھا۔ جن داخلی اور عالمی دہشتگردوں نے ہمارے خلاف ہتھیار اٹھائے‘ انہوں نے ہمارے مخالف ممالک کا سہارا لیا‘ اور ایسے دھندوں میں کرائے پہ کئی لوگ شامل ہو جاتے ہیں۔
ہماری حکومت کا فیصلہ کہ امریکہ کو پاکستان میں کوئی اڈا یا ایسی کوئی فوجی سہولت نہیں دیں گے‘ جس سے وہ افغانستان میں ڈرون یا ہوائی جہاز اڑا کر حملے کرسکے‘ ہمارے افغانستان اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کی تاریخ کے تناظر میں درست فیصلہ ہے۔ کپتان صاحب تو تواتر سے کہہ رہے ہیں کہ ''ہم نے دوسروں کی جنگوں میں شریک نہیں ہونا‘‘۔ عالمی رہنمائوں کے انٹرویوز کبھی ہوا کا رخ ماپنے کے لیے بھی کیے جاتے ہیں۔ سوال بغیر کسی سیاق و سباق کے آیا تھا کہ ''آپ امریکہ کو اڈے دیں گے؟‘‘ جواب تھا ''قطعاً نہیں‘‘۔ جس انداز سے اور جس طرح زور دے کر بات کپتان نے کی‘ اس کا اثر جہاں مقصود تھا‘ وہاں پہنچ گیا۔ پندرہ اگست کے واقعات کو سامنے رکھیں کہ کیسے افغانستان کی فوج اور ریاست‘ دونوں طالبان کے سامنے پگھل گئے‘ کس طرح عجلت اور بحرانی کیفیت میں امریکہ نے اپنا بوریا بستر بیس سال جنگ کرنے کے بعد وہاں سے گول کیا‘ تو امریکہ کی برہمی آپ کو سمجھ آجائے گی۔ ویسے امریکہ دو ہزار پانچ کے بعد ہم سے ناراض ہی رہا‘ ہم جو بھی ان کی مدد کرتے‘ کہتے: اور کرو۔ دراصل وہ تو فتح کا نشان بنا کر عراق کی طرف لشکر کشی کر چکے تھے اور وہاں بھی کچھ عرصے بعد مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ادھر طالبان نے بھانپ لیا تھا کہ افغانستان کے دیہی علاقوں میں وہ راج قائم نہیں کر سکیں گے۔ حالیہ دنوں میں مشہور مفکر نوم چومسکی نے امریکی جنگ کا دلچسپ تجزیہ کیا۔ کہتے ہیں کہ یہ کوئی نئی بات نہ تھی‘ ویت نام کی طرح افغانستان میں بھی امریکی جرنیل سیاسی قیادت کو جھوٹ کے پلندے پیش کرتے رہے کہ جنگ جیت رہے ہیں‘ جاسوسی کے اداروں نے حقائق کو چھپائے رکھا۔ جو تصویر سیاسی قیادت کو دکھائی گئی وہ زمینی حقائق سے بالکل مختلف تھی۔ ہمارے لوگ بھی تو امریکی دوستوں کو یہی سمجھا رہے تھے‘ مگر کمزوروں کی بات کون سنتا ہے۔ پھر وہی ہوا‘ جو ہونا تھا۔ کابل کا عجیب سین تھا‘ جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ایک طرف حملہ آور فوج ہوائی اڈے میں محصور افغان کارندوں کو نکال رہی تھی‘ دوسری طرف طالبان ایوانِ صدر میں چادریں فرش پر پھیلائے روٹیاں توڑ رہے تھے۔ جدید تاریخ میں طاقت کا گھمنڈ دو موقعوں پر ٹوٹتے دیکھا ہے۔ سائیگون سے جب امریکی فوج سفارت خانے کی چھت سے انخلا کر رہی تھی‘ اور دوسری مرتبہ کابل کے ہوائی اڈے سے۔ اس مرتبہ تو دنیا کے ہزاروں ٹی وی چینلز براہ راست سب کچھ دکھا رہے تھے۔ وہ لگتا ہے بہت ناراض ہیں‘ شاید اتنا کہ یہ لفظ غصے کی کیفیت بیان نہیں کر سکتا۔
مگرمچھ اور دریا کی دنیا میں ہم رہتے ہیں۔ بیر کسی صورت قبول نہیں‘ کوئی جرأت کرے تو گھیرا تنگ ہو جاتا ہے۔ قانون اور حکومت طاقتوروں کی رہی ہے۔ دہشت اتنی ہے کہ کوئی ملک ابھی تک طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ سب امریکہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے بیانات بھی اسی نوعیت کے ہیں کہ جب طالبان انسانی حقوق کی پاسداری‘ لڑکیوں کو تعلیم کی اجازت اور حکومت میں سب لسانی اور علاقائی گروہوں کو نمائندگی دیں گے تو تسلیم کریں گے۔ یہ سب کچھ تو طالبان کو کرنا چاہیے‘ ورنہ جس تعمیر نو اور امن و استحکام کے خواب ہم یا دنیا دیکھ رہی ہے‘ وہ سب خواب ہی رہ جائیں گے۔ دنیا میں رہنے اور سنورنے کے اب ڈھنگ اپنی وضع کے نہیں ہو سکتے۔ عالمگیریت کے اس دور میں اور امریکی برتری اور غلبے کے عالمی نظام میں جدا راستہ بنانے کی بڑی قیمت ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے سوویت یونین کو انقلاب کے سولہ سال بعد تسلیم کیا تھا۔
غصے میں تو وہ ہیں‘ مگر ابھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں تنہا کرنے کی بھارتی کاوشوں میں امریکہ اور یورپی ممالک شامل ہو جائیں گے۔ بھارت تو صرف شور ہی کر سکتا ہے‘ اور کچھ نہیں‘ وہ بھی افغانستان میں زخم خوردہ ہے‘ شور سمجھ میں آتا ہے۔ میرے ذہن میں ابھی تک امریکہ کے حوالے سے خدشات موجود ہیں۔ نیوزی لینڈ کو چلو ہم شک کا فائدہ دے دیتے ہیں اگرچہ دھمکی جعلی تھی اور اس میں بھارت ملوث نظر آتا ہے‘ مگر آسٹریلیا اور برطانیہ کی طرف سے جو اعلان ہوئے ہیں کہ وہ اپنی ٹیمیں پاکستان نہیں بھیجیں گے‘ ہمارے خلاف بڑے کھیل کے اندیشے پیدا کر رہے ہیں۔ اگلے چند ماہ میں حالات واضح ہو جائیں گے۔ اپنے طور پر امریکہ یا مغرب سے تصادم کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ کریں بھی تو ہمیں برداشت اور تدبر سے کام لینا چاہیے۔