شہر بدل گئے ہیں‘ دنیا بھی بدل گئی ہے‘ ایک ہم ہیں کہ بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ جو بنے‘ بس وہی رہے۔ مٹی پک گئی‘ سانچہ ڈھل گیا‘ روش بن چکی‘ راستے متعین ہو گئے۔ منزلیں اور مقام مسافرت میں آتے رہے‘ آنکھ جھپکتے اوجھل ہوتے رہے۔ لاہور نے ہمیں جو ہمتیں‘ محبتیں‘ الفتیں دیں‘ زندگی کا ڈھنگ سکھایا‘ جس رنگ میں رنگا بالکل وہی تھا‘ جس کے خواب ہم نے دیکھے تھے۔ اسی رنگ و حال کی کیفیت نشے کی صورت زندگی میں حاوی رہی۔ زمانے گزر گئے‘ نہ جانے مقدر کہاں کہاں لے گیا اور دنیا کے کیسے رنگ دکھائے‘ مگر پھر وہی لاہور ایک ابدی آرزو کی صورت اپنی طرف کھینچتا رہا۔ ہم اپنی ساری زندگی اس کے شناسا گلی کوچوں میں گزار دینے کا عہد کر چکے تھے۔ یہ کوئی دیوانگی نہ تھی‘ نہ ہی بے مقصد منزلوں کا تعین‘ علمی شعور کی آنکھ ہی یہاں کھلی تھی۔ ساٹھ کی دہائی کے آخری سالوں کے لاہور میں وہ سب کچھ تھا‘ جسے زندہ معاشروں کی علامت خیال کیا جاتا ہے۔ آزادی‘ ثقافت‘ شعروادب‘ فلمی دنیا‘ سماجی اور سیاسی تحریکیں اور ہر نوع کے فکری اور نظریاتی انقلابی۔ مناسب آبادی‘ شہر کھلا کھلا‘ سرسبز‘ بارونق اور عام لوگ باوقار اور خوشحال۔ سب خوش تھے‘ مایوسی نام کی کوئی چیز جو آج کل منحوس سائے کی طرح ہمارے اوپر لہراتی ہے‘ نہ تھی۔ ہم سب اپنے اپنے انقلابوں کی امیدوں کی شمعیں جلائے بے پروا چلے جا رہے تھے۔ بحثیں ہوتیں اور جھگڑے بھی کہ کس کا انقلابی نظریہ سچا ہے اور کون کامیاب ہو گا۔ ہم سب نعرے لگاتے اور کسی حد تک ایک دوسرے کو نظریاتی دشمن بھی خیال کرتے‘ مگر کھانا ایک جگہ‘ رہائش قریب قریب‘ کھیل کا میدان مشترکہ اور لاہور کے رونق میلوں میں ایک قافلے کے مسافر لگتے۔ انار کلی ایک سرے سے دوسرے سرے تک‘ رنگ محل‘ اندرون شہر کی ان گلیوں‘ جہاں ہماری جوانی ہی میں مٹر گشت جرم ٹھہرا دیا گیا تھا‘ مال روڈ‘ جس کے بارے میں ہم نے بچپن میں ''لاہورکی ٹھنڈی سڑکیں‘‘ کے عنوان سے تیسری چوتھی کی اردو کی کتاب میں پڑھ رکھا تھا‘ پر حیرانی کے عالم میں چلتے رہتے۔ جی کرتا تو کہیں رک کر چائے کی پیالی پی لی۔ نئی فلم پوسٹرز کی صورت میں لاہور کی دیواروں پر جلد آنے کا اعلان کرتی۔ گھوڑا تانگے یہاں کبھی کبھار نظر آنے والی موٹر گاڑیوں کو راستہ دینے میں بہت کاہلی کا مظاہرہ کرتے‘ جس طرح آج کل ہزاروں موٹر سائیکل گاڑیاں کیا‘ انسانوں تک کو پیدل سڑک پار کر جانے کی مہلت نہیں دیتے۔ کئی تانگوں میں فلمی ہیروئنوں کی بہت جاذبِ نظر‘ نکھرے نکھرے روپوں اور رنگوں میں ہاتھ سے بنائی تصویریں مہارت سے ٹکائی جاتیں۔ تانگے کے پیچھے ایک صاحب دنگل جیسے ردھم میں ڈھول بجا کر راہ گزرتے لوگوں کو متوجہ کرتے۔ تب مشہوری کے طریقے انسانی ہاتھوں میں تھے۔ شاید ہی اس زمانے کا کوئی بد ذوق ہو گا جس نے نئی فلم دیکھنے میں پہل نہ کی ہو۔ دلوں کی گرمی میں سب نظریے پگھل جایا کرتے تھے۔
اس فقیر نے لاہور کو اپنا مسکن بنانے کے لیے جس ہمت اور محنت کی ضرورت تھی‘ وہ محبتوں میں قربانیوں کی طرح کر ڈالی۔ جو اعزاز اور سرفرازی تعلیم مکمل کرنے پر ملی‘ وہ میرے لیے آگے کی منزلوں کے لیے زادِ راہ بن گئی۔ اپنی روایت کے مطابق جامعہ پنجاب کو مجھے معلمی کے لیے مدعو کرنا چاہیے تھا۔ یہ نہ ہوا تو آتشِ شکم کو ٹھنڈا کرنے کی اور راہیں تلاش کرنے لگے۔ پہلی مرتبہ ایک بڑے گائوں کی طرح کے اسلام آباد کا فطری رنگ اور وسعتیں دل کو بھا تو گئیں‘ مگر روح لاہور میں اٹکی رہی‘ فرصت پاتے ہی اِدھر آ جاتے اور ایک دو دن دوستوں سے جامعہ پنجاب میں ملاقاتیں رہتیں تو لاہور سے وابستگی تازہ ہو جاتی۔ تقریباً ڈیڑھ سال کی اس آمدورفت کے بعد جامعہ پنجاب میں جگہ مل ہی گئی۔ توقع نہ تھی مگر جنہوں نے ہمارے ستاروں کو گردش میں رکھا ہوا تھا‘ ان کے اپنے ستارے اپنے اپنے مدار اور توازن میں نہ رہے۔ کہانی تو لمبی ہے مگر آخر اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور کو چھوڑنا پڑا۔ امریکی تعلیم اور ایک مشہور جامعہ سے سند ہاتھ میں تھامے دست بستہ گزارشیں کیں‘ مگر یہاں تو سب کچھ تبدیل ہو چکا تھا۔ ہم ان لوگوں میں سے ہیں جو اس وقت جمہوریت‘ آئین اور عوامی راج کی باتیں بہ آوازِ بلندکرتے تھے۔ کوئی ملال اب دل میں نہ تھا‘ خوشی خوشی پوٹھوہار کی وادیوں میں دل لگ گیا‘ لیکن لاہور کی تڑپ کبھی مٹی نہ تھی۔
کہتے ہیں‘ عشق سچا ہو تو مطلوب و مقصود مل ہی جاتا ہے۔ بیس سال پہلے تنگی محسوس کی تو امریکہ میں ایک دوست کو چٹھی لکھی کہ ایک سال کے لیے معلمی وہاں کرنے کی ضرورت ہے۔ چند ہی دنوں میں تقرری کا پروانہ دہلیز پہ تھا۔ تیاریوں میں تھاکہ لمز سے بھی دعوت نامہ موصول ہو گیا۔ ایک مرتبہ پھر ہم لاہور کے ہو رہے‘ مگر یہ وہ والا لاہور نہیں تھا‘ دیکھتے ہی دیکھتے بھارت کی سرحدوں کو چھونا شروع کر دیا۔ ہمارا لاہور وہ پُرانی یادوں کا لاہور تھا۔ اس کی تلاش میں جب نکلتے ہیں تو سانس رک سی جاتی ہے۔ عالم حیرانی میں سوچتے ہیں کہ ہر طرف بے ہنگم رش‘ بھیڑ‘ دھوئیں کے بادلوں‘ ہزاروں موٹر سائیکلوں کی مسلسل غوں غوں کی آوازوں اور جابجا کچرے کے ڈھیروں کو کیا اب لاہور کہیں؟ اب تقریباً دو سال کی جبری چھٹی کے بعد لاہور آیا تو ہفتے کے روز جوانی کے دنوں کے لاہور کی طرف قدم بے ساختہ حرکت میں آ گئے۔ فرق یہ تھا کہ قدم گاڑی کے اندر ہی حرکت میں تھے۔ ہم پُرانی روایات کے لوگ ہیں‘ جہاں سے نصف صدی پہلے مال روڈ پر واقع عینکوں کی دکان سے نظر درست رکھنے کا بندوبست کرتے تھے‘ اب بھی نسخہ وہیں لے جا کر عینک میں نئے عدسے ڈلواتے ہیں۔ نہر سے چڑیا گھر تک اب بھی انگریز کے لگائے درختوں نے چھاتہ تان رکھا ہے۔ اس سے آگے ترقی اور مال روڈ کی چوڑائی کے منصوبوں نے آہستہ آہستہ ''ٹھنڈی سڑک‘‘ کو گرم سڑک میں تبدیل کردیا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ سے انار کلی پیدل چلا تو لوٹ مار‘ نااہلی اور کرپشن کے مظاہر ہر جگہ نمایاں تھے۔ چند سال پہلے جو فٹ پاتھ بنے تھے‘ اب ٹوٹنے لگے ہیں‘ نہ اینٹوں میں ترتیب نہ فرش میں یکسانیت‘ کون نگرانی کرتا ہے اور باریکیوں میں جاتا ہے۔ کہیں مغرب میں ایسے منصوبے ہوں تو نسلوں تک چلتے ہیں۔ صبح بارش ہوئی تھی‘ ہر طرف کیچڑ اور یہ نہیں پتا چلتا تھاکہ بارش کا پانی ہے یا سیوریج کا۔ راستے میں بنی آرام گاہیں‘ گندگی کا ڈھیر تھیں۔ تلاش کرتے کرتے آخر مطلوبہ ہیٹ والے کا کھوج لگا ہی لیا۔ اس کی کہانی پھر سہی۔ پُرانی انارکلی کی لسی نہ پیئوں تو لاہور کے اس حصے میں آنا امریکہ کی افغان جنگ سے بھی زیادہ فضول معلوم ہوتا ہے۔ آدھی سڑک پر تو دکانداروں نے ابلتے ہوئے کڑاہ لگا کر قبضہ کر رکھا ہے۔ کئی سال پہلے لگایا گیا خوبصورت اینٹوں کا فرش اب سیاہ ہو چکا ہے‘ ہر طرف کالا گارا بہہ رہا تھا۔ آ تو گیا مگر خود کو اور کپڑوں کو موٹر سائیکلوں کے سیلاب سے محفوظ رکھنا بس ایسے ہی تھا جیسے سرکس میں ماہر کھلاڑی رسے پر چلتا ہے۔ اگر اس دکان کی صفائی ستھرائی کا ذکر کروں تو شاید آپ ساری زندگی کے لیے لسی پینے سے توبہ کر لیں۔ حیرت ہے کہ عوام مکھیوں کی طرح ان کڑاہوں کے گرد جمے ہوئے تھے۔ حلوہ پوری‘ کچوریاں‘ پراٹھے چنے اور موٹے نانوں کی چیر پھاڑ کیا دیکھی کہ دل ہی بیٹھ گیا۔