اس دنیا کے سٹیج پر کھیل شروع ہوتا ہے‘ تماشا چلتا رہتا ہے اور ایک دن آخر‘ جلد یا بدیر‘ اپنے منطقی انجام کو پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے۔ ہم سب کچھ دیکھتے تو رہتے ہیں‘ لیکن آنکھیں صرف من پسند مناظر پہ ٹکے رہنے کی عادت اپنا لیتی ہیں۔ اندر کی آنکھیں تو کھلتی ہی نہیں کہ اس لائق کم ہی ہوتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو سوچنے‘ سمجھنے اور غوروفکر کی خُو لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ زندگی خوشی خوشی پُر لطف انداز میں‘ مزے لے کر گزارنے کا ڈھنگ آجائے تو پھر بیکار کی باتوں میں وقت ضائع کرنے پہ طبیعت مائل نہیں ہوتی۔ راز کی بات یہ ہے کہ انسان وہی کرے‘ جس کے وہ لائق ہے‘ جس کے لیے اس نے اپنے آپ کو تیار کر رکھا ہے‘ اور جس میں اس کا جی لگا رہتا ہے۔ کوئی بھی پیشہ ہو‘ اگر وہ صرف پیسے کمانے کے لیے اختیار کیا جائے تو آدمی اس میں جذب نہیں ہو سکتا‘ کام ایک مصیبت بن جاتا ہے اور اس سے پیچھا چھڑانے کی فکر رہتی ہے۔ کوئی بھی شعبہ ہو‘ ہم نے دیکھا ہے کہ لوگ کوئی عہدہ سنبھالتے ہیں‘ اور مدت پوری ہونے کے بعد اگلی منزلوں کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ کوئی ناگزیر نہیں ہوتا‘ لیکن بڑے‘ اور بڑے نہ بھی ہوں‘ کچھ ہمارے جیسوں کو مل جائے‘ تو ان کا نیچے اترنے کو جی نہیں چاہتا۔ اصل میں طاقت مل جائے تو کچھ کرم فرما اس کے نشے میں رہنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ ہمارے جاگیردار معاشرے میں قدر طاقتور کی ہوتی ہے‘ پرستش کی حد تک۔ کچھ لینے کے متمنی تعریفوں کے پُل باندھ دیتے ہیں‘ واہ آپ جیسا تو اس عہدے پر کبھی آیا ہی نہیں‘ اور نہ آئے گا۔ چالاک چاپلوسوں کے ہاتھ میں خوشامد بہت کارآمد ہتھیار ہے‘ اور جو مہربان خود تعریفی کے شوقین ہوں اور خوشامدیوں کے ہتھے چڑھ جائیں‘ بس سمجھ لیں‘ وہ اپنی آزادی کھو بیٹھتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ کام نکالنے والے کی میٹھی اور رسیلی باتوں کی کوئی حقیقت نہیں‘ بندہ ان کے سامنے ڈھیر ہو رہتا ہے۔ کم ہی ایسے دیکھے ہیں جو خوشامدیوں کے نرغے میں نہیں آتے۔ پہلی نظر میں پہچان لیتے ہیں۔ عہدوں پر قائم رہنے کی عادت بھی ہمارے بڑے لوگوں کو اس نفسیاتی بیماری کا شکار کر ڈالتی ہے۔
جامعات میں بھی ایک زمانہ تھا‘ جب کوئی صدر شعبہ یا ڈین کے عہدے پر فائز ہوا تو دہائیوں تک نہ چھوڑا اور اسی عہدے سے ریٹائر ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے زمانے میں چند سالوں میں مختلف شعبہ ہائے مملکت میں اصلاحات ہوئیں‘ کوئی اس سے اتفاق کرے یا نہ کرے‘ لیکن جس تعداد میں ادارے اس زمانے میں بنائے گئے اور جس وسیع پیمانے پر تشکیل نو اس دور میں ہوئی اس کی مثال بعد کے ادوار میں نہیں ملتی۔ جامعات میں بھی نیا ایکٹ آیا تو اس میں صدر شعبہ کی مدت تین سال رکھ دی گئی‘ اس کے بعد میرے نزدیک یہ معمولی سا عہدہ‘ کسی اور کو سنبھالنا تھا‘ لیکن تعلیم کے میدان میں بھی جگادری کھلاڑی ہوا کرتے تھے‘ ایسے ایسے گر نکالے کہ بس گھنٹی بجانے والی میز پہ بیٹھ گئے تو چپکے ہی رہے۔ ان کے ممتاز ہونے کی یہ ضرورت تھی‘ کچھ جعلی رعب داب اور دستخط کرانے والوں کی‘ کبھی تین چار طالب علموں کی‘ چھوٹی سی لائن سے ان کی انا کی سیرابی ہوتی رہتی تھی۔ ان سے زیادہ اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ اہل اور بہتری کے خواب لیے ہم کار بڑی کرسی پہ براجمان بھائی کی چالبازیوں پہ معنی خیز مسکراہٹ اورکبھی طنز کے نشتر چلاتے۔ امریکہ اور مغرب میں بالکل اس کے برعکس ہے‘ اس درویش کا شعبہ ہو یا کوئی سرکاری یا غیر سرکاری شعبہ‘ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے لیے جگہ بنائی جاتی ہے۔ ان کو تیار کیا جاتا ہے اور ایک مخصوص مدت کے بعد ذمہ داری دوسروں کے سپرد کر دی جاتی ہے۔ عقل رکھنے والے‘ اور جینے کا سلیقہ جن کو آ جاتا ہے‘ وہ اپنے کام سے مسرت حاصل کرتے ہیں‘ عہدوں کی فکر نہیں ہوتی‘ اور جن کے پلے کچھ زیادہ نہیں ہوتا‘ اور ہمارے جیسے ملکوں میں ہاتھ مارنے کی گنجائش ہوتی ہے‘ بذریعہ سفارشی گلی کوچے دوسروں کو کہنیاں مارتے راستہ بنا لیتے ہیں۔ آپ روزانہ کہانیاں تو پڑھتے ہی ہیں‘ وہی پُرانی باتیں دہرا کر آپ کو بور نہیں کرنا چاہتا۔
جب کسی بڑے کو توسیع ملتی ہے تو دل میں کئی طرح کے خیالات ابھرتے ہیں۔ میرے جیسے غیر ذمہ دار لکھنے والے فطری طور پر وہمی ہوتے ہیں۔ خواہ مخواہ دوسروں کے خیرہ کن بلکہ برق رفتاری سے ترقی پانے‘ بڑے عہدوں کی نالائقوں میں تقسیم اور مدتِ ملازمت میں توسیع پر بحث شروع کر دیتے ہیں۔ کیا کریں‘ پیشہ ہی ایسا ہے‘ معلمی اور قلم کاری‘ کہ سوال اٹھانے ہی پڑتے ہیں اور دل ہی دل میں ان کے جواب نکالنے کی کھوج رہتی ہے۔ آخر کون سی ایسی ان میں خوبی ہو سکتی ہے کہ گھنٹی بجانے کی طاقت ان کے ہاتھوں میں مرکوز رہے‘ وہ جس کو بلائیں‘ اندر آنے دیں‘ دل چاہے تو کسی سے ملیں‘ ورنہ نہ ملیں‘ خفیہ یا روشن دن میں مشاورت کریں۔ بہت زور سالہا سال لگایا مگر مجھے تو اس نوعیت کی سوچ سے پسپائی ہی اختیار کرنا پڑی۔ اندر کی باتیں اندر والے ہی بہتر جانتے ہیں۔ ہم تو جو ہو رہا ہے‘ اس کو اب دیکھتے ہیں۔ قومی منظرنامے پر نمایاں نقش‘ حالات کا رخ موڑنے کی طاقت اور پھر اہمیت کا تو آپ اندازہ ہی نہیں لگا سکتے۔ اور پھر مانگنے والوں سے جان چھڑانے اور قافلے میں شمولیت کے سائلوں کی قطاریں لگی ہوں تو وسیع تر قومی مفاد میں عہدہ رکھنا فرضِ منصبی بن جاتا ہے۔ کچھ اور بھی غیر متعلقہ معاملات ہیں‘ جن کے بارے میں کچھ کہنا اور لکھنا اب ضروری نہیں رہا۔ اس کے دو منفی اثرات تو ضرور پیدا ہوتے دیکھے ہیں۔ ایک یہ کہ دوسروں کے لیے آگے بڑھنے کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے‘ اور وہ ارمان دل میں ہی لیے ناخوش گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ پہلے والی عزت اور مقام نہیں رہتا‘ چولیں ڈھیلی ہو جاتی ہیں‘ اور ہمارے جیسے باتونی لوگوں کو قصے کہانیاں گھڑنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ویسے ہم کون ہیں دوسروں کے کاموں میں ٹانگ اڑانے والے‘ وہ جانیں اور ان کا کام۔
سنا بھی ہے اور اب کچھ سرسری طور پر پڑھ بھی لیا ہے کہ احتساب والوں کو گدی نشینی کا مزا آ گیا ہے۔ قانون تو یہ تھا کہ چار سال مکمل کرنے کے بعد توسیع نہیں ملے گی۔ اب ایسا ہو سکے گا۔جو لوگ باتیں کہتے اور سناتے رہتے ہیں‘ یہ فقیر تو ان پر دھیان نہیں دیتا‘ مگر حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے بیانیے یا بیان بازی میں ان کو اور ان کے ادارے کو حکومت کے ساتھ نتھی کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ غیر جانبدار نہیں۔ ہمیں پتا ہے کہ یہ سب کھوکھلے الزامات ہو سکتے ہیں‘ مگر جب اتنا طوفان اٹھایا جا رہا ہو‘ تو توسیع دینے اور لینے سے احتسابی عمل کی ساکھ کیا رہ جائے گی؟
ناگزیر شخصیات نہیں‘ ادارے اور ان پر عوامی اعتماد ہوتا ہے۔ ہماری حکومتوں نے خوش کر کے خوش رہنے کے لین دین میں اہم اداروں کے وقار میں اضافہ تو درکنار‘ الٹا تنازعات کو جنم دیا ہے۔ کیا اچھے زمانے تھے‘ اور کیا اچھے لوگ تھے کہ اپنا کام ختم کیا‘ بستہ بغل میں دابا‘ گھر سے گاڑی منگوائی اور ایک شہری بن کر ہمارے ساتھ آ ملے۔ کچھ کو اب بھی دیکھتا ہوں‘ ابھی وہ زندہ ہیں‘ جنہوں نے اعلیٰ روایات کو زندہ رکھا۔