ہم میں سے زیادہ پرانے رستوں پر چلنے میں آسودگی محسوس کرتے ہیں۔ ایک ہی ڈگر زندگی کو کھپا دیتی ہے۔ کوئی عجیب بات تو نہیں کہ بندہ اپنی طے کردہ منزلوں کی طرف چلے بشرطیکہ یہ معلوم ہو کہ وہاں پہنچنے کے لیے کیا کچھ زادِ راہ درکار ہو گا‘ کون سے موسم بدلیں گے‘ کہاں پڑائو ڈالنا پڑے گا اور کتنے دریا‘ سمندر اور پہاڑ عبور کرنے ہوں گے۔ بڑے خواب مگر ان کی تعبیر کے لیے بقدر ضرورت کوشش نہ ہو تو سہانے خوابوں پہ ہی گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ اسی لیے تو ہم کئی لوگوں اور ملکوں کو کھوئے ہوئے دیکھتے ہیں۔ چلتے نظر آتے ہیں‘ مگر معلوم نہیں کہ قدم کس طرف اٹھ رہے ہیں‘ آگے کیا ہے اور سمتوں کا تعین کیسے کرنا ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے کیا کرنا ہے۔ کھوئے رہیں تو حرکت‘ اور افکار کی روشنی دم توڑ دیتی ہے۔ فرد اور قومیں جمود کا شکار رہتی ہیں جب تک کہ کوئی جگانے والا‘ کوئی تحریک دینے والا اور عوام میں بیداری کا جذبہ پیدا کرنے والا نہ ہو۔ ہم یہ تو کہتے ہیں کہ سب کچھ ہو سکتا ہے‘ مگر یہ صرف خواب سے جگانے کے لیے‘ حوصلہ افزائی اور امید پیدا کرنے کے لیے۔ باتیں‘ باتیں ہی رہ جاتی ہیں‘ اگر ابھرنے‘ کچھ کرنے کا جذبہ ماند پڑ جائے۔ علامہ اقبال نے بھی ''طرز کہن‘‘ پہ اڑنے اور ''آئینِ نو‘‘ سے ڈرنے کو قوموں کی زندگیوں کا ایک کٹھن معاملہ قرار دیا تھا۔ یہی کچھ آپ فرد کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں۔ بدلنا ہی تو جوہرِ حیات کی علامت ہے۔ سادہ بات کو الجھانا مقصود نہیں‘ تکلیف سے دور رہنا اور آسانیاں تلاش کرنا انسان کی فطرت میں رکھا گیا ہے‘ مگر اس کے لیے پیمانہ یہ نہیں کہ جو جی میں آئے کرتے جائیں۔ سود مندی کے مغربی فلسفیوں نے اس کے پرکھنے کا معیار عقل‘ دلیل اور اسباب و نتائج کے رشتے کو تلاش کرنے میں رکھا۔ کوئی کام کیوں کرنا ہے‘ یا نہیں کرنا‘ اس کا کوئی قابلِ توجیہ مقصد ہونا ضروری ہے۔
بھٹکے ہوئے لوگ وہی تو ہوتے ہیں‘ جو راستے متعین نہیں کرتے‘ جنہیں نشانِ منزل نصیب نہیں ہوتا۔ سب معاشروں میں کامیاب اور پیچھے رہ جانے والوں‘ دونوں طرح کے لوگوں کو ہم دیکھتے ہیں۔ یہ بات کہتے ہوئے مجھے ادراک ہے کہ کامیابی کا معیار ہر شخص کا اپنا ہوتا ہے‘ اور ہونا درست بھی ہے۔ اس لیے ہم بدلنے کی بات کریں تو زیادہ بہتر ہے۔ عام سی بات ہے‘ مگر اس میں بہت گہرائی پوشیدہ ہے۔ کسی کاری گر کو دیکھنا ہو گا کہ کام کرتے ہوئے کوئی ایک آلہ یا طریقہ کار بار آور نہیں ہوتا تو وہ اسے تبدیل کر لے‘ یا اسے استعمال کرنے کا کوئی اور طریقہ وضع کر لے۔ ہم سب بھی تو روزمرہ زندگی میں ایسا ہی کرتے ہیں۔ بیکار چیز کو پھینک دیتے ہیں‘ جو کام کی ہوتی ہے‘ وہ رکھ لیتے ہیں۔ ایسے کئی فعل ہمارے شعور کی تہوں سے مربوط ہیں‘ لیکن اکثر معاملات میں دیکھا ہے کہ سود مندی صرف باتوں تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ عملی شکل اختیار نہیں کر سکتی‘ متشکل نہیں ہو پاتی۔ کتنی بار آپ ہر روز کہتے یا سنتے ہیں کہ ''اس میں کیا فائدہ؟‘‘ کیا سود مند ہے یا کیا نہیں‘ اگر اس کا تعین شعوری طور پر کر لیا جائے تو بدلنا عام سی بات ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ معاملہ پھر شعور اور علم کا ہے کہ اس فیض سے محروم رہیں تو کوئی وعظ اور کوئی نصیحت کام نہیں کرتی۔ افراد اور قومیں‘ دونوں اپنی ڈگر پر قائم کھوئے کھوئے تاریکیوں میں راستے تلاش کرنے میں وقت برباد کرتے ہیں۔
آپ پاکستانی عوام کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ ذخیرہ اندوز اپنے دھندے میں کامیاب اور حکومت ناکام ہے اس لیے آپ چینی کا استعمال ترک کر دیں‘ ہمیشہ کے لیے نہیں‘ کچھ وقت کے لیے‘ یا ترک نہیں کرنا تو استعمال ہی کم کر دیں‘ تاکہ منافع خوروں کے ہوش ٹھکانے آ جائیں اور وہ چینی سستی کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ یہ بھی نہیں کہہ سکتے تو جو روزانہ ہر گھر میں خوردنی تیل استعمال ہوتا ہے‘ اس کی ہر چند ضرورت نہیں‘ الٹا لوگ بیمار ہو رہے ہیں۔ اسے ختم نہیں کر سکتے تو اعتدال ہی میں استعمال کر لیں۔ اتنا جتنی ضرورت ہو۔ ویسے بھی چکنائی کا ضرورت سے زیادہ استعمال بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ اربوں ڈالرز کا زرِ مبادلہ خرچ ہوتا ہے اس کی درآمد پر‘ اور اسی طرح چائے نوشی‘ جو زیادہ تر دودھ اور چینی سے اب تیار کی جاتی ہے‘ آپ کی صحت کو برباد کر رہی ہے۔ یہ بات کسی سے کرنا ایسا ہی ہے کہ ہم کہیں کہ کل سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو گا۔ مغرب کی بات کروں یا زندہ قوموں اور افراد کی تو جب کوئی چیز گراں ہو جائے یا کر دی جائے تو وہ استعمال کم کر دیتے ہیں‘ اور جب ذخیرہ اندوزی اس کے پیچھے ہو تو احتجاجاً اس کا بائیکاٹ کر دیتے ہیں۔ آج مجھے ایران کے آیت اللہ مرزا حسن شیرازی یاد آ رہے ہیں۔ اٹھارہ سو نوے میں ایران کے بادشاہ نصرالدین شاہ نے برطانیہ کو تمباکو کا کاروبار کرنے کی ملک میں اجارہ داری دے دی تھی۔ آیت اللہ شیرازی نے فتویٰ دیا کہ تمباکو نوشی اب ایرانیوں کے لیے حرام ہے۔ تہران اور دیگر شہروں میں کاروباری طبقے نے اس فتوے پر من و عن عمل کیا۔ شاہ نے اس کے لیے بھاری رشوت لی تھی۔ آیت اللہ کی آواز سب کی آواز بنی۔ آج سے ایک سو تیس سال پہلے‘ ایران اور اس سارے خطے کا کامیاب احتجاج تھا۔ نصرالدین شاہ اور برطانیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکر دیا گیا تھا۔
وطنِ عزیز میں کوئی آیت اللہ نہیں ہیں جنہیں عوام کا غم ہو‘ اور ذاتی کردار ایسا کہ لوگ کوئی سوال اٹھائے بغیر ان کی رہنمائی قبول کر لیں۔ نہ ہی مغرب جیسا معاشرہ اور اس کی صارفین کے حقوق کے تحفظ والی تنظیمیں۔ اور پھر نوکر شاہی بھی ایسی کہ پہلے تو ہمارے ٹیکسوں پہ سب شان و شوکت غریب عوام کے سہارے اور کارندے ان منظم گروہوں کے جو ہمارا خون چوستے ہیں۔ کاش آج کوئی آیت اللہ مرزا حسن شیرازی ہوتا۔ صرف ایک ہفتے کا بائیکات ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں کو سبق سکھانے کے لیے کافی ہے۔
سب کو دیکھ لیا‘ اقتدار میں وہی کرتے ہیں‘ جو ہمارے حکمران‘ ہمارے جیسے پسماندہ معاشروں میں کرتے آئے ہیں۔ ہم خود ہی اپنے آپ کو بدل لیں۔ کل جس پہلے شخص سے ملا‘ اس نے چینی مہنگی ہونے کی شکایت سے گفتگو کا آغاز کیا۔ عرض کیا کہ استعمال نہ کریں یا کم کر دیں‘ حساب برابر ہو رہے گا۔ بھڑک اٹھے‘ کہ ''چائے پینا بند کر دیں؟‘‘ یہاں بغیر چینی کے چائے پینے کا تصور ہی نہیں ہے۔ انگریزی حکومت نے یہ چالاکی کہ اس خطے میں چائے متعارف کرانے کے لیے اس نے دوددھ اور چینی کا سہارا لیا۔ انگریز خود ہلکی‘ کالی چائے پیتا تھا‘ اور اب بھی زیادہ تر وہاں ایسا ہی رواج ہے‘ اور اب یہ ہمارے منہ کو ایسی لگی ہے کہ چائے میں چینی نہ ڈالنے کا مشورہ عام آدمی کو مضحکہ خیز لگتا ہے۔ میں احتجاج کی سیاست کے حق میں ہوں‘ پُرامن اور جہاں کرنے کی ضرورت ہے‘ وہاں۔ اس موضوع پر کبھی آئندہ۔ کاروباری کمپنیوں‘ صنعتوں اور مضرِ صحت پیداوار کا بائیکاٹ کرنا ہی سیکھ لیں‘ تو بہت کچھ بدل سکتا ہے۔ زمانہ نہیں تو ہم بدلیں‘ آسودگی اسی میں ہے۔