"RBC" (space) message & send to 7575

بلوچ ناراض ہیں!

'ناراض‘ بہت نرم اظہار ہے، اس غم و غصے کا جو ہم نے بلوچ رہنمائوں میں، قبائلی سرداروں سے لے کر نوجوان دانشوروں تک میں دیکھا۔ ان کی بات ہمارے ہر نوع کے توانا اور کمزور میڈیا پہ شاید ہی کسی کو کرتے دیکھا ہو۔ ہم فقیروں کو اور بھی غم ہیں‘ اس لئے ہم روزانہ کی سیاسی گفتگو اور ہرکاروں کی لمبی لمبیاں سننے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کوئی بحث‘ کوئی تحقیقی رپورٹ، ناراض بلوچوں کا کوئی انٹرویو کم از کم میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ جب انگریزی میں لکھا کرتے تھے تو کئی بار لکھا کہ مسئلہ کیا ہے اور کیونکر اسے سلجھانا ہماری قومی اور ریاستی ذمہ داری ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ بلوچوں کی آواز مجھے کہیں سنائی نہیں دے رہی۔ روزانہ کے پروگراموں میں ان کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ ہم انہیں کناروں پر رکھ کر قومی دھارے میں پھر باہم مربوط کیسے کر سکتے ہیں۔ کئی سال پہلے، ارادہ باندھا کہ بلوچ رہنماؤں سے ایک ایک کرکے ملاقات کروں اور ان کی باتیں، گلے شکوے دکھ درد اور ناانصافیوں کو تاریخی حوالے کے طور پر قلم بند کر جاؤں۔ زندگی میں کئی اور اہم کاموں کی طرح یہ بھی ادھورا رہ گیا۔ سوچتا ہوں‘ ایسا احساس ذہن کے کسی بھی کونے میں نہ ابھرے کہ زندگی کے بگاڑ میں بہت کچھ ہم نہیں کر سکتے‘ مگر جو کر چکے اور جو کچھ حاصل ہوا اس پر شکر اور صبر کرنے میںآسودگی ہے۔ میرے لئے یہ قرض ہے اور اگر مہلت ملی تو اسے ضرور کروں گا۔ بس یوں سمجھئے کہ اس وقت طلوع آفتاب کی شعاعوں کے ساتھ میرے جذبے کو جِلا نصیب ہوئی۔ قرض کیوں ہے، اس کا ذکر تھوڑی دیر بعد ہو گا۔
ویسے چند انٹرویو میں نے کر رکھے ہیں۔ پہلی ملاقات میر حاصل بزنجو مرحوم سے کراچی میں کی تھی۔ بہت محبت سے مجھے خوش آمدید کہا اور پہلی ہی کال پر انہوں نے انٹرویو کیلئے آمادگی ظاہر کر دی۔ ابتدائی کلمات میں ہی انہوں نے کھل کر کہا ''ہم تو ناراض بلوچ ہیں‘‘ ہم سے آپ کیا بات کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت وہ مرکز میں نون لیگ کی حکومت کا حصہ تھے۔ کراچی میں ہی ایک دور مضافاتی علاقے میں بلوچ ثقافتی مرکز میں دن کا کچھ حصہ گزارا۔ خود انحصاری ہر طرف جھلک رہی تھی۔ نوجوان، پڑھے لکھے بلوچوں کا قائم کیا ہوا۔ پرانے اور نئے رسائل، بلوچ قبائل اور بلوچستان کی تاریخ، ثقافت اور ادب کے کئی نمونے سب آنے والوں کیلئے سجا رکھے ہیں۔ سیاست اور ماضی کے واقعات کو اشارتاً چھیڑا تو ناراضی کے طوفان برپا تھے۔ یہاں کئی ملاقاتیں ہیں جن کا ذکر فرداً فرداً کرنا ممکن نہیں، مگر کہیں بھی باشعور بلوچوں کو‘ چاہے وہ کسی تحریک سے وابستہ ہوں یا آزاد، بلوچستان میں جو واقعات رونما ہوتے رہے ہیں، ان پر رنجیدہ اور تلخ دیکھا۔
پہلے میں بلوچوں کے اپنے اوپر قرض کی بات کر لوں۔ ہر انسان کی شخصیت پیدائش‘ بچپن‘ لڑکپن سے لے کر جوانی اور اس کے بعد کے مراحل تک اپنے ارد گرد کے حالات سے مرتب ہوتی ہے۔ جس ماحول میں ہم آنکھیں کھولتے یا زندہ رہتے ہیں اس کی چھاپ ہمیشہ شناخت کا حصہ رہتی ہے۔ فقیر کی روح کے کئی حصے ہیں، کبھی یہ یکجا نہیں رہی، محبتیں پنجاب سے ہیں، دل سرائیکوں اور سندھیوں کے ساتھ دھڑکتا ہے اور اوائل سے لے کر آج تک قربتیں بلوچوں سے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے جس علاقے میں آبائی ٹھکانہ ہے وہاں سرائیکی اور بلوچ ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ بستیاں جڑی ہوئی ہیں۔ بس ذرا سے پیدل فاصلے پر ایک ختم ہوتی ہے تو دوسری شروع ہو جاتی ہے۔ بہت بلوچ آپس میں بات کریں تو بلوچی میں اور ہم سے کریں تو فوراً سرائیکی کی پٹری پہ گاڑی چلنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس علاقے کا شاید ہی کوئی ایسا سرائیکی ہو جو بلوچی زبان نہ سمجھتا ہو‘ اور ابتدائی کلمات سے اور روزمرہ کی زبان سے واقفیت نہ رکھتا ہو۔ ہمارے ساتھ رہنے والے مزاری بلوچ قبائل کا وسیع سلسلہ شمالی سندھ اور بلوچستان کے مشرقی علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔ ہمارے ٹھکانے سے بلوچستان کی سرحد کوئی پینتیس میل کے لگ بھگ ہو گی۔ بلوچوں کے ساتھ ہی زندگی گزاری ہے اور ان کی ناراض آواز کو تاریخی حوالہ نہ بنانا مجھے ادھورے پن کا احساس دلاتا رہے گا۔
ناراضی کو سمجھنا ہے تو فقط تین واقعات کو دیکھ لیں۔ ریاست قلات پاکستان میں شامل کرنے کے معاملات کو جو حضرات دیکھ رہے تھے اور جس انداز میں یہ سب کچھ ہوا‘ اور اس کے بعد کی معمولی سی مزاحمت اور انتہائی سزائوں سے جو اثرات مرتب ہوئے وہ بلوچ قوم پرستوں کی یادوں سے شاید ہی مٹ سکیں۔ وقت بہت کچھ تبدیل کر دیتا ہے، بلوچ اور پشتون نیشنل عوامی پارٹی کا حصہ تھے۔ ستر کے انتخابات جیتے، دو صوبوں میں حکومتیں بنائیں، مگر ہمارے عوامی رہنما فخر ایشیا، ذوالفقار علی بھٹو کی شخصی طرز حکمرانی کیلئے ناگوار تھا۔ زیادہ کیا کہہ سکتا ہوں کہ ہم بھی ان کے سیاسی جذبات کی رو میں بہہ رہے تھے۔ مشرقی پاکستان سے کوئی سبق نہ سیکھا تھا۔ اس سے زیادہ عجب اور دکھ کی بات یہ ہے کہ نیا آئین بنانے میں نیشنل عوامی پارٹی نے بھرپور تعاون کیا تھا۔ ابھی آئین پر دستخط ہونے تھے کہ بھٹو صاحب نے‘ جو شروع سے لے کر آخر تک ایمرجنسی کے سہارے چلتے رہے‘ بلوچستان کی حکومت کا تختہ الٹ کر گورنر راج نافذ کردیا۔ نواب محمد اکبر خان بگٹی گورنر بنے۔ اپنی حکومت جانے کے بعد بھی عبدالولی خان اور سردار غوث بزنجو قومی اسمبلی میں آئے اور آئین پر دستخط کر دئیے۔ اس لیے سب مضحکہ خیز ہے کہ ناراض بلوچوں نے پہاڑوں کا رخ کرکے مزاحمت کی اور کچھ نے افغانستان میں پناہ لے کر اپنے آپ کو منظم کیا تو ہماری پہلی جمہوری حکومت کے اقدامات نے بلوچستان میں جنگ کی سی کیفیت پیدا کر دی۔ اس سے بڑھ کر اور مذاق کیا ہو سکتا ہے کہ پشتون اور بلوچ رہنماؤں کو حیدرآباد کی جیل میں بند کرکے غداری کے مقدمات چلانے شروع کر دئیے۔
کچھ تو ان واقعات اور بلوچستان کی المناک تاریخ سے سیکھ لیا ہوتا۔ پرویز مشرف نے ''حقیقی جمہوری‘‘ رنگ دکھائے، تو نواب محمد اکبر بگٹی نے مخالفت کی اور کچھ زیادہ ناراض ہوکر اپنے علاقے سے قریب کہیں پہاڑوں کی طرف چلے گئے، تو طاقت کے گھمنڈ کا مظاہرہ بلوچستان میں ہونے لگا۔ سوچیں ایک بوڑھا شخص‘ جس کی پاکستان کے وفاق کے ساتھ قابل قدر ہم آہنگی رہی اور جو صرف بلوچستان میں نہیں پاکستان میں ہر جگہ قابل احترام اور معزز سیاسی شخصیت تھا، کو گرفتار کرنے کیلئے دستے روانہ کر دئیے۔ ان واقعات کے بہت سے راز وہاں دبی گرد و غبار میں دفن ہیں۔ بلوچ قبائلی علاقوں کے علاوہ بلوچستان کے تعلیم یافتہ نوجوان اور خصوصاً تربت اور مکران کے غیرسرداری علاقوں سے تعلق رکھنے والوں نے عسکریت پسندی کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ بردباری، برداشت اور حکمت کی راہ ہمیشہ ریاست اپنے تجربے کی بنیاد پر اختیار کرتی ہے۔ بہت نقصان ہو چکا۔ بہت خون فوج اور بلوچوں کا بہہ چکا۔ مشرف صاحب کے بعد یہ تیسری حکومت ہے۔ ابھی تک کوئی مفاہمت سامنے نظر نہیں آئی۔
محترم عمران خان صاحب اور قابلِ قدر مشیران و وزیران صاحب یہاں سوال تو بنتا ہے کہ آپ دن دہاڑے سڑکوں پہ قتل و غارت کرنے والوں کے ساتھ سمجھوتوں کے ریکارڈ بنا ڈالتے ہیں اور جو سرکاری زبان میں دہشت گرد تنظیم ہے، اس سے آپ جنگ بندی کا معاہدہ کرتے ہیں، لیکن جہاں اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے، وہاں آپ خاموش رہے ہیں۔ ہم نے اس پس منظر میں صرف آٹھ الفاظ سنے ''ہم بلوچوں سے بھی بات کر رہے ہیں‘‘ آپ نے دوسروں کی طرح بہت دیر کر دی، مزید دیر سے ناراضیاں بڑھیں گی اور وقت شاید زخموں کو مندمل نہ کر سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں