جب اپنے ہی معاشرے اور اردگرد گھومتے پھرتے‘ رہتے بستے افراد اور گروہوں کے بارے میں کچھ لکھنا یا بولنا چاہتا ہوں تو سوچ میں پڑ جاتا ہوں۔ میری ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ مثبت‘ خوش گوار اور اچھے پہلوئوں کو اجاگر کیا جائے۔ جہاں درندگی ہو‘ وہاں فرشتہ صفت انسان بھی تو ہوتے ہیں اور جہاں ظلم اور نا انصافیوں کا دور دورہ ہو‘ وہاں ان کے خلاف مزاحمت کرنے والے بھی تو پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ درست ہے کہ اچھے‘ بُرے ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ پلڑا کس کا بھاری ہے۔ اگر یہ توازن ظالموں کے حق میں بدل جائے تو کوئی بھی سماج‘ چاہے وہ کہیں پہ ہو اور وہاں جس بھی مذہب سے اکثریت کا تعلق ہو‘ روشنیوں سے تاریکی کی جانب قدم خود بخود عام لوگوں کے اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ظالم کون ہوتا ہے؟ یہ کسی دقیق فلسفیانہ تعریف کا محتاج سوال نہیں۔ روزمرہ گفتگو میں ہم لوگوں کو ظالم کہتے سنتے ہیں؛ البتہ شاعروں کے ''ظالم‘‘ کی بات اور ہے۔ لوگوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے والے سرکاری دفتروں میں فائلوں کے ڈھیر لگائے عوام سے زبردستی پیسہ بٹورنے والے‘ جائز کام کے لیے بھی رشوت طلب کرنے والے۔ نظامِ عدل کے باہر اور اندر جو کچھ ہو رہا ہے‘ اور جو کچھ سن رہے ہیں‘ وہ تو زوال خوردہ سماجوں کے نصیبوں میں ہوتا ہے۔ یہ سب تاریکیاں ہیں‘ جہاں کچھ انسان درندوں کی طرح دوسروں کی عزتِ نفس‘ مال و متاع اور ذہنی چین اور سکون پر حملہ آور رہتے ہیں۔ جنگل کے قانون کی اصطلاح ایسے ہی نہیں بنی۔ جنگل کے قانون کا مطلب یہ ہے کہ دراصل کوئی قانون نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنی مرضی کرتا پھر رہا ہے۔ کمزور طاقت ور کے سامنے بے بس اور اس کا محتاج ہے۔ انارکی اسے ہی کہتے ہیں۔ اس کی سیاسی فلسفے میں طویل اور پیچیدہ بحثیں ہیں۔ ہزارہا سالوں اور زیادہ تر گزشتہ چار صدیوں‘ جب سے جدید ریاست اور معاشرے کی بنیادیں پڑنے لگیں‘ میں تو مفکروں اور سیاسی مدبروں نے قانون پر زور دیا کہ اس کی اہمیت اور معاشرے کی زندگی اور توانائی کو رواں دواں رکھنے میں اس کا وہی کردار ہے جو آکسیجن کا ہمارے جسم اور روح کے رشتے کے لیے ہے۔ قانون نہ ہو تو معاشرہ مر جاتا ہے‘ انارکی اس کی اجتماعی موت کا مظہر ہوتی ہے۔ قانون کمزور ہو جائے تو معاشرے پر پژمردگی چھا جاتی ہے۔ انسان مایوس مایوس‘ مجبور مجبور پھرتے ہیں‘ مگر موقع ملنے پر دوسرے کے مال اور عزت پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
ظالم بڑے بھی ہوتے ہیں اور چھوٹے بھی‘ اور بڑا ظلم کئی چھوٹے ظلموں کو ایسے پھیلاتا ہے‘ جیسے برسات کے مینڈک ساون کی پہلی بوند پڑتے ہی اپنی آبادیاں بڑھاتے ہیں۔ قول مشہور ہے کہ جیسے عوام ہوتے ہیں‘ ویسے ہی ان کو حکمران ملتے ہیں۔ کیا انسانی تاریخ اس کی گواہی دیتی ہے؟ جدید دور میں ترقی کے انقلاب در انقلاب کا عمل جو ہمارے سامنے جاری ہے‘ اس کے محرکات اصولِ حکمرانی پر ہیں‘ جن کی بنیاد قانون ہے۔ مغرب کی طاقت علمی روشنی‘ خیرہ کن ترقی‘ عروج اور انسانی قدروں کا راز ڈھونڈنا چاہتے ہیں تو وہ قانون کی حکمرانی میں ہے۔ مذاہب‘ سب مذاہب نے بھی قانون‘ قاعدے‘ اصول اور زندگی گزارنے کے فلسفے انسان کو دیئے‘ مگر آج کی جدید ریاستوں کا قانون وہ ہے جو پارلیمان کے اندر ان کے نمائندے موجودہ دور کی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق بناتے ہیں۔ اپنے ملک کی بات تو ہم زیادہ کر نہیں سکتے۔ خوف اتنا ہے کہ کوئی لٹھ بردار کہیں سے نمودار نہ ہو جائے‘ مگر مغربی دنیا کے علاوہ اکثریت نے صدیوں سے قانون اور مذہب کو جدا کر رکھا ہے۔ تھوڑی سی تشریح کی یہاں ضرورت ہے کہ مسلمان جدت پسندوں‘ مصلحین اور اکابرین نے بھی انیسویں صدی میں پُر زور تحریکیں مغربی علوم سیکھنے‘ سائنسی اور منطقی سوچ اپنانے کے لیے چلائیں۔ تب بھی ان کے مقابل وہی آئے جو آج وطنِ عزیز میں پائے جاتے ہیں‘ اور موقع ملتے ہی معاشرتی امن کو تباہ اور مسلمانوں کو قتل کر کے فساد پھیلاتے ہیں۔ وہ وژنری تھے‘ اپنی پس ماندگی اور مغرب کی اٹھان دیکھ رہے تھے۔ قومیں ماضی میں نہیں رہتیں؛ البتہ ماضی کے حالات و واقعات سے سبق ضرور حاصل کرتی ہیں اور ان کی بنیاد پر آگے کا سفر کرتی ہیں۔ فعال لوگ اور سماج حال میں رہتے ہیں‘ مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور سفر آگے بڑھنے کی طرف ہوتا ہے۔ ہاں تو بات انیسویں صدی کی ہو رہی تھی۔ خلافتِ عثمانیہ‘ پرشیا اور مغلوں کی سلطنتیں زوال پذیر تھیں۔ ترکوں نے سب سے پہلے خطرات کو بھانپ لیا تھا‘ مگر اصلاحات کا عمل کوئی انقلابی صورت نہ اختیار کر سکا۔ اردو میں قانون کا لفظ ترکی زبان سے آیا ہے۔ نظامِ مملکت کو جدید خطوط پر ڈھالنے اور ترقی کا عمل تیز تر کرنے کے لیے انہوں نے قانون بنانا شروع کر دیئے تھے۔ ان کے نزدیک قانون وہ تھا‘ جو حکومت اپنا کام چلانے‘پالیسیاں بنانے‘ صنعتیں لگانے اور تعلیم عام کرنے کی غرض سے بناتی ہے۔ مفہوم وہی تھا‘ جو مغرب میں تھا‘ جسے ہم ''Positive law‘‘ کہتے ہیں۔ انسان کا بنایا ہوا قانون۔ حکومت‘ ریاست چلانے اور انصاف فراہم کرنے کے لیے۔ انصاف کو قانون کا پھل ہی تصور کر لیں۔ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ قانون کی حکمرانی ہو گی تو ظلم نہیں ہو سکے گا۔ اگر ہو گا تو ظالم کو قانون کے مطابق سزا ملے گی۔ ایسا ہو سکے گا‘ تو انصاف قائم ہو گا۔
باتیں تو ذہن میں اس حوالے سے بہت ہیں مگر ایک ضروری بات یہ ہے کہ ریاست‘ جو ہماری حفاظت‘ شناخت‘ امید‘ فلاح‘ جذبوں کا مرکز اور لاکھوں قربانیوں کا ثمر خیال کی جاتی ہے‘ قانون کی حکمرانی کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے آپ ریت کے محل تعمیر کر لیں۔ اس درویش کا تعلق پاکستان کی دوسری جنریشن سے ہے۔ وہ جو اس سال یا اس کے چند سال بعد پیدا ہوئے۔ ہم نے اس ملک کو کچھ بنتے بڑھتے‘ پھلتے پھولتے اور پھر بگڑتے دیکھا ہے۔ بگاڑنے والے عوام نہیں‘ حکمران ٹولے ہیں۔ ان کو ہم یعنی میرے ہم عمر پچاس سال سے ظلم کے اندھیروں کو دبیز سے دبیز تر کرنے میں مصروف دیکھ رہے ہیں۔ دعویٰ کرتے ہیں کہ سب کچھ انہوں نے ''قانون‘‘ کے مطابق کیا ہے‘ کسی عدالت نے انہیں ''مجرم‘‘ ابھی قرار نہیں دیا‘ اور عوام ان کا ''احتساب‘‘ کرتے رہتے ہیں۔ مگر یہ تاریکیاں‘ یہ ظلم‘ یہ بربریت‘ یہ لوٹ مار‘ یہ پانامہ کمپنیاں‘ یہ ٹھنڈے ملکوں میں محل‘ یہ سب کیا ہے؟ اور معاشرے کی تباہی کا ذمہ دارکون ہے۔ انارکی ہے اور دکھ سے کہتا ہوں کہ ابھی تک تبدیلی کا نعرہ لگانے والے اسے کم نہیں کر سکے۔ جو مشاہدہ کر رہے ہیں اور ذاتی تجربے میں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ظلم اور انارکی بڑھی ہے۔ سرکاری محکموں میں ہر جگہ بد عنوانی‘ رشوت خوری اور بد عملی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ ریاست پاکستان میں قانون کی شمع اپنی آخری شعاعوں پہ ہے۔ تاریکی‘ انارکی اور حکمران طبقات کے ظلم کی تاریکی ہر طرف پھیل چکی ہے۔ عوامی رویے انہیں کے رنگوں میں ڈھل چکے ہیں۔ نہ دعائیں‘ نہ بد دعائیں‘ بے بسی ہے۔ یاد آیا‘ ظلم اور انارکی آندھیوں اور طوفانوں کا پیش خیمہ بھی ہوتے ہیں۔