سیاسی بحرانوں کی بات اور ہے کہ وہ ہر ملک میں وقتاً فوقتاً پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ جمہوری روایات اور ادارے مضبوط ہوں تو ان کا حل جلد نکل آتا ہے۔ بحران کی ویسے تعریف تو یہی بنتی ہے کہ درپیش سیاسی مسئلہ حل طلب ہے‘ مگر فریق اپنی اپنی جگہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک میں شروع ہی سے بحران ایک سے ایک خطرناک پیدا ہوتے رہے اور ہمارے سیاسی اور ریاستی حکمران انہیں حل نہ کر سکے۔ نوبت یہاں تک بھی پہنچی کہ آئین‘ جسے مقدس اور بنیادی قانون کا درجہ حاصل ہے‘ ردی کی ٹوکری میں گرتا پڑتا رہا۔ وہ بھی تو سیاسی بحران تھاکہ ہماری ریاست اور مغربی پاکستان کی طاقتور اشرافیہ‘ مشرقی پاکستان کی اکثریتی جماعت کو اقتدار منتقل کرنے میں تامل سے کام لیتی رہیں۔ خیر اب ان باتوں میں سر کیا کھپانا‘ چند سال بعد انتخابی دھاندلی کی گئی اور ڈٹ کر کی گئی‘ تو کسی کو اندازہ نہ تھا کہ اس کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں۔ ہمارے حکمران بحران پیدا کرنے میں تو مہارت رکھتے ہیں‘ حل کرنے کی صلاحیت‘ فراست اور سیاسی ذہانت دیکھنے میں نہیں آئی۔ ہمارے ملک میں نظام کی پیچیدگی ہو یا معاشی ڈھانچے کی بنیادی خرابیاں‘ سیاست برائے سیاست کا نتیجہ ہیں‘ جس سے بحران جنم لیتے ہیں۔ کہیں بھی عدم استحکام‘ سیاسی تنائو‘ صف بندیاں‘ تصادم اور یہ سوچ کہ 'ہم کرسی پہ نہیں تو کرسی پر بیٹھنے والے کو چین سے نہیں ٹکنے دیں گے‘ بحران ہی تو ہے‘ جس سے ہم آج تک نہیں نکل سکے۔
معاشرے میں عام رویّوں‘ نظریوں جیسی سیاسی اخلاقیات کے دیوالیہ پن‘ انتہا پسندی‘ سیاسی تشدد کے پھیلائو اور دہشتگردی کا تعلق سیاسی بحرانوں کی پیداوار سے ہے۔ ہم اکثر نتائج پر نظر رکھتے ہیں‘ وہ جو ہمارے سامنے ہو رہا ہوتا ہے اس کے اسباب کا تجزیہ کرنے سے کتراتے ہیں۔ تصادم کی سیاست‘ جس کا رواج تھا‘ ایک کلچر کی صورت اختیارکر گیا ہے‘ یہ جنگ ہی تو ہے‘ جسے ہم سیاسی جنگ کہتے ہیں۔ راستے بند کرنے‘ چوراہوں پہ قبضہ جما کر انقلاب برپا کرنے اور سڑکوں پر مارچ کرنے والوں کی تقاریر کبھی فرصت ملے تو پڑھ لیں۔ چلو وہ تو ماضی میں ہے‘ روزانہ کے بیانات اور سکرینوں پر شام کے وقت کشتیوں کے اکھاڑے کس بات کی دلیل ہیں؟ کاش کبھی سوچ اور زبان و کلام میں کوئی بلوغت پیدا ہو سکتی۔ سنتے ہیں‘ ترس آتا ہے کہ یہ ہیں وہ لوگ جو اس ایٹمی طاقت کی سربراہی کے خواب دیکھتے ہیں۔ بدزبانی اور بدکلامی کو ہمارے حکمران گھرانوں نے چوری کے خزانوں کے زور پر ہنر بنا دیا ہے۔ کہتے ہیں: جتنا گڑ ڈالیں گے‘ اتنا ہی میٹھا ہوگا۔ جتنا زبان و کلام کے ماہر آپ سیاسی میدان کارزار میں صف آرا کریں‘ بیانیے کا زور اتنا ہی دورتک پھیلے گا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے‘ اگر کوئی ہے تو وہ دوسرے کی سیاست‘ اقتدار اور مقبولیت ہے۔ جہاں تک ہم اپنی کم علمی کااقرار کرتے ہوئے سمجھ پائے ہیں‘ جمہوریت دوسرے کی عزت‘ تکریم‘ برداشت اورسیاسی کھیل میں برابر کے کھلاڑی تسلیم کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ ''چھوڑوں گا نہیں‘‘ کا نعرہ اگرچہ عمران خان صاحب سے منسوب ہو چکا ہے لیکن سب نے نصف صدی سے اسی پہ زوردیا ہے۔ باریاں لینے والی دو دہائیاں ہوں‘ پرویز مشرف کا دور ہو یا بحال یا بے حال جمہوریت کا تیسرا دور ہو ہر جگہ ''چھوڑوں گا نہیں‘‘ سننے کو ملا۔ بچپن میں جنوں بھوتوں کی کہانیاں اگرآپ نے پڑھی ہیں اور کچھ یاد پڑتا ہے تو بہادر بچے اور جن کے مابین مقابلے کا سماں ہی نظرآتا ہے۔ سیاسی حریف کو جو مقام ہمارے اہلِ سیاست دیتے ہیں‘ اگر انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمے کرکے دنیا کے سامنے رکھیں تو وہاں کے دانشوروں کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ اس ملک کے مسائل کا ذمہ دار کون ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے سیاسی جنگوں کا ذمہ دار صرف سیاسی حکمرانوں کو ٹھہرا کر دوسری نوعیت کے حکمرانوں کی حاکمیت کا جواز پیدا کیا ہے۔ ہرگز یہ مقصد نہیں بلکہ میرا موقف یہ ہے کہ ان کی طرف سے جو سیاسی ورثہ اور تحائف ہمیں ملے ہیں‘ یہ ان کی ہی کرشمہ سازی ہے۔ تاریخی حوالے سے تو کوئی برا نہیں مانے گا۔ یہ جو دو بڑے سیاسی گھرانے ہیں‘ عوامیت اور جمہوریت کی سنہری خلعت اوڑھے ہوئے‘ یہ کس نے انہیں عطا کی تھی۔ بالکل درست ہے کہ سیاسی آنکھ اقتدار اور طاقت کے مزے میں بند ہی رہتی ہے۔ اس وقت کھلتی ہے جب دھکے دے کر کرسی سے گرا دیا جائے۔ بالکل درست ہے کہ انہیں عوام کے ایک حصے اور سیاسی اشرافیہ کی اپنی صف بندی میں سے گروہوں کی حمایت حاصل ہے۔ جمہوری جائزیت کی ان کیلئے گنجائش بنتی ہے‘ مگر اکھاڑ پچھاڑ کی سیاسی جنگ کا آغاز تو دوسری جمہوری تبدیلی سے شروع ہوا تھا۔ ''وطن دشمنوں‘‘ ''غداروں‘‘ اور ''ضیا کی باقیات‘‘ کو چھوڑیں گے نہیں۔ کیا کھیل تماشا ہماری سیاست بنی رہی۔ لاہور کے شریفوں نے جب دو تہائی اکثریت‘ جو کبھی کسی کو نصیب نہ ہوئی‘ لے لی تو بس امیرالمومنین بنتے بنتے رہ گئے۔ اس کی تائید اور حمایت کیلئے کتنے گماشتے اور جاں نثار تیار تھے۔ تب پاکستان کے شہروں کی دیواریں تو نعروں سے کالی کی جا چکی تھیں‘ ''نوازشریف فورس‘‘ اور ''علامہ‘ پروفیسر شیخ الاسلام طاہرالقادری‘‘۔ بنگالی بابوں کی بات ہم نہیں کرتے کہ وہ بھی لوگوں کو دھوکا دینے کیلئے کیا کچھ لکھواتے ہیں۔ معاف کرنا‘ علاج معالجے کیلئے کہ قوم کو صرف ایک ہی بیماری لاحق ہے۔
سیاست میں ماردھاڑ جمہوری نہیں بادشاہی اور آمرانہ روایت ہے۔ جب مقابلے کا میدان عوام ہوں اوران کی حمایت سے حکومتیں بنیں تو کئی کھلاڑی سامنے آتے ہیں۔ سب کو یہ حق حاصل ہے کہ نمائندگی کی سند حاصل کر سکیں۔ دھکے دے کر کسی کو باہر نہیں نکال سکتے۔ یہاں تک تو کسی کا بس نہیں چلتا کہ نظام میں اب کچھ سکت پیدا ہو چکی ہے اور حریفوں کو جیل کی تنگ کوٹھڑیوں میں بند کرکے وزیر اعظم اور سب وزرائے اعلیٰ کو بلا مقابلہ منتخب نہیں کرایا جا سکتا۔ قابلِ یقین شفافیت‘ حتمی غیرجانبداری اور بعد از انتخابات جائزیت کو تسلیم کرنے کی روایت ہم قائم نہیں کرسکے۔ اگرایسا ہو تو عدالتوں میں جا کر اس کا فیصلہ کرا لینا چاہئے۔ یہ کیا کہ پوری مدت گزر جائے اور ہم کہتے رہیں ''ہم نہیں مانتے‘‘۔ اس سے تصادم پیدا ہوتا ہے۔ عمران خان صاحب کی پارلیمان میں پہلی تقریر اورجو کچھ اس دن ہوا‘ یہ سب پاکستان کی سیاسی جنگوں کا عکس ہے‘ اورہمارے‘ اور سب کے محترم مولانا صاحب دھرنوں پہ دھرنے‘ جلوس پہ جلوس نکال کر بھی دل کی بھڑاس اورغصے کی بھاپ تین سال کی ''جمہوری جدوجہد‘‘ کے باوجود نکال نہیں پائے۔
سیاسی جنگوں اورخود پیداکردہ بحرانوں نے سیاسی بگاڑ پیدا کیا ہے۔ جب تک یہ جاری ہیں‘ سیاسی امن کے امکانات مدہم رہیں گے۔ عوام میں بے چینی اور مسلسل غیریقینی صورتحال سے جمہوریت‘ اداروں اور سیاست بازوں پراعتماد میں دراڑیں پیدا ہوئی ہیں۔ اعتماد اور ساکھ ہی تو ہے جس سے اقتدار‘ چاہے یہ کسی کے بھی ہاتھ میں ہو‘ کو جائزیت عطا ہوتی ہے۔ ان جنگوں اور بحرانوں نے معاشرتی اور انفرادی رویّوں میں بھی وہی کیفیتیں پیدا کر رکھی ہیں۔ بعض اوقات سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ ہم اس حالت میں اپنی ذہنی اور نفسیاتی صحت کو کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں۔ درویش تو اس تدبیر پر عمل کرتا ہے کہ اس طرف دیکھو ہی نہیں‘ سنو تو دوسرے کان سے نکال دو‘ سیاست اور جاری جنگ کو کھیل تماشے سے زیادہ اہمیت نہ دو۔ یہ ضروری ہے کہ منافقت‘ جعلی پن اورفریب کاریوں پر نگاہ رکھو اور فرصت کے ان لمحوں میں کچھ لکھ ڈالو۔ اب کیا توقع رکھنا کہ یہ کھلاڑی مل بیٹھ کر گمبھیر قومی مسائل کو حل کرنے کیلئے مشاورت کریں گے۔ انہیں جنگوں سے فرصت کہاں؟