"RBC" (space) message & send to 7575

نعروں سے آگے کی دنیا

سیاسی نعرے بازی اور فریب کاری میں اتنا ہی فرق ہے جتنا کھلے میدان میں کھلے ہاتھوں سے لوٹ کھسوٹ اور ''قانونی کرپشن‘‘ میں۔ ماننا پڑتا ہے کہ نعروں کے بغیر سیاست بے جان ہوتی ہے‘ مگر ہمارے جیسے ملکوں میں۔ حق و انصاف اور ترقی کی راہ دیکھتے دیکھتے جب عوام کی آنکھیں پتھرا جائیں تو نعروں کے فریب میں آنا فطری بات لگتی ہے۔ اصل کرشمہ اس میں ہے کہ نعرہ کیسے گھڑا جائے کہ لوگ جوق در جوق جلسوں میں امڈے آئیں۔ آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جب ''روٹی‘ کپڑا اور مکان‘‘ کا نعرہ بلند ہوا تو جلسوں میں تل دھرنے کو جگہ نہ ہوتی تھی۔ عوام کا جمِ غفیر ہوتا اور نعروں کی گونج میں قائدِ عوام‘ فخرِ ایشیا‘ محترم ذوالفقار علی بھٹو صاحب گرجتے۔ انسانوں کے سیلاب کو سامنے دیکھ کر ان کا اپنا جذبہ بھی گفتگو میں روایتی حدود و قیود پار کر جاتا۔ کبھی احساس ہو جاتا تو کہتے ''کاٹ دو‘ کاٹ دو‘‘ مگر جو بات منہ سے نکل گئی بس اڑ گئی‘ وہ پھر کب واپس آتی ہے‘ بلکہ ہمیشہ کے لیے تاریخ کا حصہ بھی کچھ باتیں بن جاتی ہیں۔ ہم بھی طالب علمی کے اس دور میں وہی نعرے لگاتے‘ ترنگا جھنڈا مکان پر لہرائے رکھتے اور بھٹو صاحب کو اقتدار میں لانے کے لیے انتخابات کے دوران دیہاتوں میں سائیکل پر پائوں چلاتے دور دور تک سفر کرتے۔ واقعی اس وقت بھٹو صاحب بہت مقبول تھے۔ انہوں نے نعروں‘ جذباتی تقریروں اور اپنی کرشماتی شخصیت سے عوام اور پاکستانی سیاست کا رخ موڑ دیا تھا۔ دو متوازی عوامی انقلاب تھے‘ ایک مشرقی پاکستان میں اور دوسرا مغربی پاکستان میں۔
وہ رات مجھے ابھی تک یاد ہے اور وہ لمحے جب یہ درویش ریڈیو کے ساتھ کان لگائے نیم خوابیدہ صورت میں انیس سو ستر میں یعنی اکاون سال پہلے نتائج کا اعلان سن رہا تھا۔ پھر کیا ہوا؟ اب کیا لکھنا‘ کیا کہنا‘ دل دُکھتا ہے۔ بہت کچھ گنوا چکے اقتدار کی جنگ کے المیوں میں۔ ایک سال بعد ہم اشک بار تھے‘ تو اسی اثنا میں بھٹو صاحب اقتدار کی کرسی پر بطور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بٹھا دیئے گئے۔ سوچتا ہوں‘ امن کے نعرے اور عوامی سیاست نے کتنے رنگ بدلے‘ مگر ملک کی تقدیر نہ بدل سکی۔ عجیب بات ہے کہ بھٹو صاحب نے ''نیا‘‘ پاکستان بنانے کا وعدہ کیا اور پھر عمران خان صاحب نے بھی وہی ''نیا‘‘ پاکستان بنانے کا نعرہ لگایا۔ ''روٹی کپڑا اور مکان‘‘ کمال کا نعرہ تھا کہ کس سادگی کے ساتھ اس وقت کے پیچیدہ فلسفے کو اس میں سمو دیا گیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ عوام میں عدم مساوات‘ طبقاتی تفریق اور ''انقلابی‘‘ منشور کا پیغام موثر طریقے سے پہنچے۔ وہ تو ہو گیا‘ مگر اس کے بعد عملی سیاست اور معیشت کے تقاضے بالکل مختلف تھے۔ دو سال کے اندر ہی صنعتوں‘ بینکوں‘ مالیاتی اداروں‘ کالجوں اور سکولوں تک کو قومی تحویل میں لے کر جو کچھ گزشتہ دس سال میں ترقی کی تھی‘ اس پر پانی پھیر دیا‘ بلکہ یوں کہیں کہ تباہی مچا دی۔ نوکر شاہوں اور جیالوں نے کیسے صنعتیں اور بینک چلانے تھے‘ سب کچھ بند ہونے لگا۔ گھی‘ چینی‘ آٹا بازار میں آسانی سے نہیں ملتے تھے۔ لائنوں میں کھڑے ہو کر راشن ڈپو پہ کچھ ہوتا تو مل جاتا۔ اس وقت جب ہم جامعہ پنجاب میں پڑھنے کے بعد پڑھا رہے تھے‘ تو معلوم تھا کہ مستند اشتراکی ممالک میں معیشت ناکام ہو چکی تھی۔ بجائے اس کے کہ ان کا مطالعہ کر کے پاکستان میں کوئی نئی راہ نکالی جاتی‘ سب کچھ قومیا لیا گیا۔ روٹی‘ کپڑا اور مکان کا جو حشر ان سالوں میں دیکھا‘ بعد میں کبھی مشاہدے میں نہیں آیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ بھٹو صاحب کسی کی سنتے نہیں تھے‘ اور جب حاکمِ وقت نہ سنے تو کوئی کچھ کہنے کی جرأت نہیں کرتا۔
کہتے تو سب ہیں کہ جمہوریت مشورے‘ تفکر اور سوچ بچار سے چلتی ہے‘ مگر ہمارے ہاں عوامیوں میں بھی آمرانہ مزاج ہے۔ مغل بادشاہوں کے درباروں‘ رونقوں‘ عیش و عشرت اور رعب و دبدبے کی تاریخ ہمارے حکمرانوں کا ورثہ ہے۔ ان کے لاشعور میں مغلوں کے نقوش کی تہیں جمی ہوئی ہیں۔ دوسرے ہمارے پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم کے اختیارات اور طاقت کو متوازن رکھنے کے لیے آئین میں گنجائش نہیں‘ اور نہ ہی ہماری سیاسی روایات اور سیاسی جماعتوں کے اندر کوئی رکاوٹیں ہیں۔ ایک سے ایک بڑھ کر ایک‘ ہمارے موجودہ اور ماضی کے وزرائے اعظم مطلق العنان‘ ہٹ دھرم اور من مانی کرنے والے رہے ہیں۔ پتا نہیں صبح سویرے فلم ''ضدی‘‘ کیوں ذہن میں جگہ بنائے ہوئے ہے۔ ہمارے محترم کپتان عمران خان صاحب نے بھی ''تبدیلی‘‘ کا نعرہ لگایا تو لوگ ان کے پیچھے چل پڑے‘ خصوصاً ہمارے نوجوان‘ اور وہ بھی جو کرسیوں کا کھیل کھیلنے والوں سے تنگ آ چکے تھے۔ یہ بھی بہت کام کا نعرہ ہے کہ جو حالت تھی اور لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے جو بنا دی گئی تھی‘ لوگ کچھ مختلف دیکھنا چاہتے تھے‘ لیکن کیا تبدیل ہوگا‘ کب اور کتنا جلدی‘ اس کیلئے تدبر‘ حکمت‘ سوچ بچار اور دوررس نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت تھی۔ کچھ زیادہ باتیں نہیں کہنا چاہتا‘ مگر میری پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے کہ اس اہم مسئلے کی طرف اہلِ فکر‘ اہلِ سیاست اور عوام کو متوجہ کروں۔ کاش عمران خان صاحب ماضی کی نعرے بازی سے کچھ سیکھ پاتے۔ نعرے لگائے کہ وہ گورنر ہائوس اور وزیر اعظم ہائوس میں یونیورسٹیاں بنائیں گے۔ کون کہتا ہے کہ ملک میں اچھے معیار کی یونیورسٹیاں نہ بنیں‘ ضرور بنائیں‘ مگر ان کے لیے وزیراعظم ہائوس‘ اسلام آباد کی پہاڑی‘ یہ جہاں اب ہے‘ موزوں نہیں۔ اب ملک میں ایک سو اکتالیس سرکاری جامعات ہیں اور تقریباً اتنی ہی تعداد نجی جامعات کی ہے۔ کم از کم سرکاری جامعات کے لیے وسیع و عریض جگہ کا انتخاب کیا جاتا ہے کہ یہ ادارے پھلتے پھولتے رہتے ہیں۔ لاہور کی عدالت نے گورنر ہائوس کو تو ابھی تک بچایا ہوا ہے‘ مگر خان صاحب ابھی تک بضد ہیں کہ وزیر اعظم ہائوس کے کچھ رقبے پر نئی یونیورسٹی کی تعمیر شروع ہو جائے۔ بل سینیٹ میں جا چکا ہے۔دیکھتے ہیں کہ وہاں شاید کچھ لوگ ہیں جو روک سکیں کہ یہ جگہ مناسب نہیں۔ کہیں دنیا میں دیکھا ہے کہ کتنی ہی انقلابی حکومت کیوں نہ ہو‘ اپنا قومی ورثہ تباہ کر ڈالے۔ وزیر اعظم ہائوس میں کوئی بھی رہے‘ ہے تو ہمارا قومی ادارہ۔ وہی مطلق العنانی جو ہم نے ماضی میں دیکھی۔ مشوروں کے لیے بھی جی حضوریوں کو رکھا ہوا ہے کہ انہیں بھی اعلیٰ ذمہ داریوں کی صورت میںاقتدار کے ٹکڑے نصیب ہو جاتے ہیں۔ نام لے کر لکھنا مجھے اچھا نہیں لگتا‘ بس اشاروں سے ہی آپ سمجھ جائیں گے۔ ہر حکومت کو ''مشورے‘‘ دینے کے لیے بلائے جاتے ہیں‘ یا یوں سمجھئے تائید اور واہ واہ کرنے کیلئے۔ سنا ہے تین ادارے اس یونیورسٹی کے وزیر اعظم ہائوس اور تین چار پنڈی کی کری روڈ پر واقع سرکاری زمین پر بنیں گے۔ جب وہاں کیمپس بنانے کے لیے اراضی مختص کی گئی ہے‘ اور مزید بھی حاصل کی جا سکتی ہے‘ تو وزیر اعظم ہائوس کی زمین کو اس تصرف میں لانے کی کیا ضرورت ہے؟ بات نعرے بازی اور ضد کی ہے۔ ماضی میں اگر کسی حکومت نے کسی قومی ادارے کو کچھ زیادہ زمین دے دی تو اسے ویسے ہی رہنے دیں‘ وہی مصرف رہے۔ دنیا کا دستور یہی ہے‘ اور عقل کی بات بھی‘ مگر جب ہمارے مغلِ اعظم اقتدار کے گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں تو انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا‘ سوائے اس کے کہ گھوڑا ساری عمر دوڑتا رہے۔ ایسا کبھی ہوا نہیں‘ بہتوں کو گرتے دیکھا ہے۔ نہ ہماری نوکر شاہی میں دم ہے‘ نہ سیاسیوں میں سوائے دھرنوں اور نعروں کے۔ اب وہ نعرہ یاد آ رہا ہے ''روک سکو تو روک لو‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں