"RBC" (space) message & send to 7575

مصلحت کا آخری کنارہ

جب کابینہ کی تشکیل کے لیے تیرہ جمہوریت پسند‘ مختلف الخیال و نظریات سیاسی جماعتوں اور گروہوں میں مشاورت دن رات‘ اٹھتے بیٹھتے دعوتوں اور انفرادی ملاقاتوں میں میں ہو رہی تھی تو کئی دن گزر جانے کے بعد ایسا لگا کہ سب کو شاید وہ نہیں مل رہا جس کی خواہش انہوں نے حکومت گرانے کی جدوجہد کے دوران دل میں پال رکھی تھی۔ کچھ یہ بھی خیال ہے کہ جو وعدے اس اتحاد میں شامل ہونے والے نئے اور پُرانے جمہوریت پسندوں کے ساتھ کئے گئے تھے‘ انہیں من و عن پورا کرنا مسلم لیگ نون کی قیادت کے بس کی بات نہیں تھی۔آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ سیاست میں لین دین نہ ہو تو سیاست میں پھر باقی کیا رہ جاتا ہے۔ ہماری جمہوریت تو پھر ایسی ہی جمہوریت ہے کہ حکمران ٹولے فیصلہ کرتے ہیں کہ ریاستی اقتدار کی بانٹ ایک دوسرے کے درمیان کیسے ہو۔ جب ضمیر جگائے جا رہے تھے‘ اور وہ بھی تاریک کمروں کی مدہم روشنیوں میں‘ اور حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کو بہتر مستقبل کی نویدیں سنائی جا رہی تھیں تو وزارتوں کی تقسیم اور گورنروں کی تعیناتی میں حصہ داری کا تعین کرنے میں کچھ ابہام رہ گیا تھا۔ ہم تو یہی خیال کریں گے‘ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ اتحادیوںکی توقعات جائز کی حد سے بڑھ گئی تھیں۔ اتنی بڑی تعداد میں سیاسی جماعتوں کی حکومت میں شراکت داری ہو اور غالباً پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہو رہا ہو‘ تو غلط فہمیوں کا پیدا ہونا کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں۔ جب اقتدار کی تقسیم اور تسلیم و رضا کے مسائل چل رہے تھے تو ہم نے بلکہ پوری قوم نے مولانا قبلہ محترم کی طرف سے ایک انقلابی نوعیت کا پیغام سنا‘ اور یقین کریں کہ ہم جیسے درویش تو سنتے ہی رہے‘ اور بار بار کہ سخت گرمی میں ہوا کا یہ تازہ اور خوش گوار جھونکا تھا۔ قبلہ محترم اور دیگر سیاسی اکابرین کے ایسے بیانات‘ اور خلوص نیت سے‘ سننے کے لیے ہم تو ترس گئے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ یا پریشان قوم اس ہیجانی کیفیت‘ جس میں اب یہ مبتلا ہے‘ بھول جائے‘ ہم آئندہ کے تاریخ نویسوں کے لیے یہاں لکھ چھوڑتے ہیں۔ فرمایا: ''مصلحت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے‘‘۔ اور فقرے جو یاد پڑتے ہیں‘ یہ ہیں کہ فوراً نئے انتخابات کا انعقاد کرایا جائے‘ اور یہ مطالبہ ان کا شروع دن‘ یعنی اس دن سے ہے‘ جب تحریکِ انصاف بڑی سیاسی جماعت کے طور پر دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کے بعد ابھری تھی۔ میرے ساتھ راہ چلتے ایک بابا جی‘ جو فطری طور پر قنوطیت پسند ہی نہیں‘ بلکہ پرست بھی ہیں‘ کہنے لگے کہ یہ حضرت صاحب کا بیان ہو ہی نہیں سکتا‘ مگر چونکہ ہم ان کی سیاسی بصیرت اور فہم و ادراک کے عرصے سے قائل ہیں‘ اور ثبوت کے طور پر ان کا ایک ویڈیو کلپ پیش کیا تو وہ مان تو گئے‘ مگر پھر بھی ان کا ان کا اصرار تھا کہ نہیں یہ مولانا نہیں۔ بڑی مشکل سے انہیں سمجھایا کہ بالکل وہی ہیں‘ مگر سر پر اپنے مخصوص پہناوے کی جگہ انہوں نے سفید ٹوپی سے کام چلایا ہے۔ میرے ہر روز کے مشاہدے میں ہے کہ میرے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے چند بابے خواہ مخواہ کیڑے نکالنے اور شکوک و شبہات پیدا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک کہنے لگا کہ اس بیان کا مقصد اس موقع پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ جو وعدے کئے گئے تھے‘ ایفا نہیں ہو رہے‘ اور جب انہیں گوہرِ مقصود مل جائے گا تو وہ جلد انتخابات پر مصر نہیں ہوں گے۔ میں انہیں کہتا رہتا ہوں کہ کسی کی نیت پر شک کرنا مناسب نہیں اور ایساکرنے سے عاقبت بھی خراب ہو سکتی ہے‘ مگر ہماری باتوں پہ کون دھیان دیتا ہے۔
میں تو ان لوگوں کی خوشی میں شامل ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ ''فسطائی‘‘ حکومت ختم ہوئی اور عمران خان کی ''آمریت‘‘ کو جمہوری اتحاد نے چلتا کر کے آئین کی بالا دستی بلکہ آہنی گرفت کو دوبارہ سے مضبوط کر دیا ہے۔ جب میں آہنی گرفت کی بات چلاتا ہوں تو بابے پھر مشکوک نظروں سے مجھے دیکھنا شرو ع کر دیتے ہیں کہ کس کی آہنی گرفت کی بات کر رہے ہیں‘ آئین کی یا کسی اور کی۔ آپ کا بھی تجزیہ میرے مشاہدات سے مختلف نہیں ہو گا۔ شکی مزاج لوگوں کو جو بھی کام کی بات بتائیں‘ اور جتنا بھی منطق اور ثبوت سے انہیں سمجھانے کی کوشش کریں‘ وہ ایسے فضول سوال کرنے سے باز نہیں آتے۔ کتنی اچھی بات ہے کہ اتحادی حکومت‘ جسے وہ قومی حکومت کا نام دیتے ہیں‘ سب کو خوش رکھنے کی زبردست کوشش کر رہی ہے۔ یہ راز تو کم از کم پا لیا ہے کہ ساتھ دینے والے خوش رہیں گے‘ تھپکی دینے والے اور دور سے ڈوریں ہلانے والی غیر مرئی طاقتیں شاباش دیتی رہیں گی تو حکومت اپنی ''آئینی‘‘ مدت پوری کر سکے گی۔ عقل مند بھی یہی کچھ تو کہتے آئے ہیں کہ دوسروں کی غلطیوں سے سیکھو اور ایسی غلطیوں کو نہ دہرائو جن کی وجہ سے دوسرے مصیبت میں پھنسیں۔ یہ تو ابھی تازہ سبق ہے کہ عمران خان نے نہ جانے کتنے حلقوں کو اپنی نا تجربہ کاری کی وجہ سے ناراض کر لیا‘ اور نتائج اب سب کے سامنے ہیں۔ اتحادی اور غیر اتحادی خوش رہیں گے تو حکومت میں شامل سب خوش رہیں گے‘ چین اور آرام سے رہیں گے اور عوامی خدمت کے نئے جذبے کے ساتھ پُرانے پاکستان کے کھلاڑی اپنی پُرانی کارکردگی کے سارے ریکارڈ توڑ دیں گے۔ مجھے تو اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔ میں قنوطی بابوں کی باتوں کو ذرہ بھر بھی اہمیت نہیں دیتا۔ خواہ مخواہ ایسی باتیں کرتے ہیں کہ یہ صرف اقتدار کی بندر بانٹ ہے‘ اور وہ بھی ان حضرات کے درمیان جن کے خلاف کرپشن‘ کرپشن اور مزید کرپشن کے الزامات‘ عدالتوں میں مقدمات اور تفتیشی اداروں میں زیرِ التوا انکوائریاں ہیں۔ بالکل‘ میں سب حکمران ٹولوں کو یہ کہنے میں حق بجانب خیال کرتا ہوں کہ ان کے سیاسی مخالفین نے وطنِ عزیز کی چھوٹی‘ بڑی اور اعلیٰ عدالتوں میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے‘ اور تیس تیس سال گزرنے کے بعد بھی آج تک کسی کے خلاف ایک ''دھیلے‘‘ کی کرپشن ثابت نہیں کر پائے۔
قنوطی بابے ہیں کہ مانتے نہیں۔ مجھے تو ان کی کوئی فکر نہیں کہ اس ملک کی لوٹ کھسوٹ دیکھتے ہوئے اب عمر کے آخری حصوں میں ہیں‘ نہ جانے کب اپنے آخری ملک کا ویزا انہیں موصول ہو جائے اور وہ ہم سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو جائیں۔ فکر تو نوجوانوں کی ہے کہ ان کا موجودہ حالات کا نیا تجربہ ہے اور ان کا خون کھول اٹھا ہے۔ ہمارا تو کھول کھول کر جم چکا ہے‘ مگر وہ ہیں کہ بپھرے ہوئے شیروں کی طرح ہیں۔ عوام ہیں کہ نئی بیداری کی گرفت میں ہیں‘ اور ان میں جوش اور جذبہ ایسا ہے کہ آہنی گرفت کو پگھلا سکتے ہیں۔ یہ سطور لکھتے ہوئے اخبار میں پڑھا کہ کپتان نے ''ٹویٹر‘‘ پر بھی جلوس نکال ڈالا۔ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ کیا نئی بلا ہے کہ آناً فاناً چار لاکھ چھیاسی ہزار لوگوں کو جمع کر لیا۔ ابھی تک کوئی لیڈر‘ کھلاڑی یا فنکار ایسا نہیں کر سکا۔ آثار تو یہ بتا رہے ہیں کہ آخر وہ تبدیلی‘ جس کی خواہش میں ہم نے زندگیاں گزار دیں‘ رونما ہو رہی ہے۔ عوام جاگ اٹھے ہیں‘ اور سوال کر رہے ہیں کہ مصلحت کی بھی آخر کوئی حد ہوتی ہے۔ ہمارے حکمران تو آخری کنارہ بھی پھلانگ چکے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ عوام کے پاس جائیں‘ جلدی کریں‘ انہوں نے جلدی دکھائی تو حالات بگڑ جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں