"RBC" (space) message & send to 7575

تماشا دیکھیں

جو کچھ مرکز اور پنجاب میں کیا اور کروایا گیا‘ اسے تماشا نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟ اسے جمہوریت اور پارلیمانی روایات سے تو دور دور تک کاکوئی واسطہ نہیں۔ چند دن پہلے گوادر سے آزاد رکن قومی اسمبلی اسلم بھوتانی صاحب نے ایوان کے فلور پر وہ سب کچھ کہہ دیا جو ہر جگہ گزشتہ تین ماہ سے کہا جارہا تھا۔ غیر جانبدار مخلوق صرف آسمانوں میں ہی کہیں رہتی ہے‘ یا ہوسکتاہے کہ اس کرۂ ارض کے دیگر خطوں میں اسے کوئی ساز گار ماحول میسر آجاتا ہو لیکن زمین کا وہ ٹکراجہاں ہمارا ملک آباد ہے‘ وہاں بڑی سے بڑی قسمیں بھی غیر جانبداری کا یقین نہیں دلا سکتیں۔ بھوتانی صاحب نے بہت بے باکی اور صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے جو دل میں تھا‘ کہہ ڈالا۔ اُن کے الفاظ کو یہاں دہرانا مناسب نہیں۔کسی اور ذریعے سے پڑھ لیں۔ بس اتنا ہی کافی ہوگا کہ دورِ حاضر میں فون کی بہت اہمیت ہے۔ ہر امیر غریب‘ تعلیم یافتہ‘ ان پڑھ‘ چھوٹا بڑا‘ فون کان کے ساتھ لگائے دنیا ومافیہا سے بیگانہ دکھائی دیتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ملک میں نہ کوئی مہنگائی ہے‘ نہ بے روزگاری نہ ماحولیاتی کثافت۔ راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتا ہے۔ گویا جنتِ ارضی میں زندگی کے مزے لے رہے ہیں۔ چہرے کے تاثرات سے اندازہ ہوتا ہے شاید غیبی‘ نادیدہ طاقتوں سے ہم کلام ہے۔ کسی اہم پیغام کے انتظار کی بے چینی لاحق ہے۔ جونہی فون کی بیل بجتی ہے‘ ایک ہیجانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ہیلو‘ ہیلو اور پھر چیخ وپکار۔ شاید ہمارا قومی مزاج ہی ایسا بن چکا ہے۔ پانی‘ بجلی بند اور پٹرول ہماری قوتِ خرید کا امتحان بے شک لیتا رہے۔ اگر فون کی لائن خراب یا سگنل ڈائون ہوں تو ہم سے برداشت نہ ہوگا۔ اوپر والوں کی بات اور ہے۔ وہ فون کرتے بھی ہیں اور کراتے بھی ہیں تاکہ اُن کے ضروری‘ سیاسی‘ غیر سیاسی اور مال پانی والے کام رکنے نہ پائیں۔
''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ کتنا زور دار اور بلند آہنگ تھا‘ گمان گزرتا تھا کہ چلا چلا کر آواز بیٹھ گئی ہے لیکن تین ماہ کے اندر آخر کیا ہوا؟ کبھی ووٹ کو عزت دو کا مطالبہ ہماری گناہگار آنکھوں نے کسی کو بھرے مجمع میں کرتے نہیں دیکھا۔ اسمبلی بھی وہی‘ اراکین بھی وہی‘ جماعتیں کوئی اور نہیں‘ تو یکایک جو دھاندلی زدہ اسمبلی تھی وہ کیسے پاک صاف ہو گئی؟ اب پتا چلا کہ ووٹ کو عزت کیسے ملتی ہے۔ آدھا ایوان مستعفی ہو چکا۔ اگر چہ شرفِ قبولیت نہیں ملا مگر وہ باہر تو ہیں۔ دیکھیں حزبِ اختلاف میں کون ہیں اور قائدِ حزبِ اختلاف کون؟ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ مذاق ایسے میں کیوں ؟ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔دنیا میں ہم بھیک مانگ رہے ہیں اور باتیں ملک کو جمہوریت اوراستحکام پر ڈالنے کی کرتے ہیں۔
معافی چاہتا ہوں‘ شاید اس بات کوکئی مرتبہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں۔ جب حالات ایسے ہوجائیں تو کسی کی اکثریت واضح نہیں‘ اور خصوصاً جب عدم اعتماد کا ووٹ کامیاب کرایا جاچکا ہو تو تازہ انتخابات سے ہی استحکام پیدا کیا جاسکتا ہے۔ انتخابات اس بنیادی تنازع کو حل کرتے ہیں کہ عوام کس کے ساتھ ہیں۔ سیاسی بحران میں قانونی اور آئینی جواز کا مسئلہ پیدا ہوجائے تو حکومتیں جوڑ توڑ کے ڈھکوسلوں سے نہیں چلتیں۔ تازہ عوامی مینڈیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس درویش کو مطلق حیرت نہیں کہ ''ووٹ کو عزت دو‘‘کی رَٹ لگانے والے کیا ہوئے ؟ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ جو سندھ ہائوس اور مرکزی شہر کے کونوں کھدروں میں سازشیں کرکے عمران خان کی حکومت گرانے میں مصروف تھے‘ عوام سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ سوشل میڈیا نے لوگوں کو بے لگام ہی سہی لیکن ایسی آزادی دے رکھی ہے کہ سچائی کے ٹھیکے دار اب اہلِ اقتدار اور ان کے زرخرید گماشتے نہیں رہے۔اسلام آباد کے پہلے جلسے نے ہی پانسہ پلٹ دیا۔ اسی بات کا توچار سال تک مسلسل مطالبہ کرتے رہے تھے تو پھر بھاگے کیوں ؟ ان کے کرتوتوں نے سیاسی فضا کپتان کے حق میں کردی۔ پاکستان کی تاریخ میں اتنے بڑے جلسے تو انہوں نے کراچی‘ لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں نہیں کیے تھے۔ تیرہ جماعتی حکمرانوں کے ہوش ابھی تک ٹھکانے نہیں آسکے‘ اور نہ ہی آسکتے ہیں۔
سب سے زیادہ نقصان (ن) لیگ کو ہوا۔ یہی ایک ایسی جماعت تھی جس کی پنجاب میں سماجی اور سیاسی اساس مضبوط تھی۔ روایتی سیاسی خاندان مشکل حالات میں ان کے وفادار رہے تھے۔ ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کابیانیہ بھی کچھ اثر دکھارہا تھاکہ میاں صاحب کو تین مرتبہ مدت پوری ہونے سے پہلے کیوں نکالا ؟ وہ پوری طرح مظلومیت کی نشانی نظر آتے تھے‘ لیکن اب کیا کہیں گے کہ ان کا اتحاد زرداری صاحب اور ایم کیو ایم سے ہے جن کے بارے میں کیا کچھ کہا‘ مقدمات بنائے‘ دنیا کے کونے کونے سے بدعنوانی کے شواہد اکٹھے کیے اور صرف پاکستان ہی نہیں‘ دنیا بھر کے میڈیا کے سامنے رکھے۔ لندن سے تازہ خبر آئی ہے کہ انہیں ہرگز ناراض نہیں کرنا‘ راضی رکھنا ہے۔ اور دھاندلی کی بات بھی نہیں کیونکہ اب شاید حکومت بیساکھیوں کے سہارے نہیں چل رہی۔ لیکن سازشوں سے حکومتوں کی توڑ پھوڑ کا اور تشکیل نو کا تماشا کب تک سہاروں کے ذریعے چل سکتا ہے؟
پنجاب میں تو کھلی دھاندلی نہیں دن دہاڑے اقتدار پر ڈاکا ڈالا گیا۔ ایسے ہی ڈاکے کا شکار یہاں نواز شریف کی حکومت ہوئی تھی۔ عدالت عظمیٰ نے اُن کی حکومت کو بحال کردیا تھا مگر پیپلز پارٹی کو ایسی سہولت نہیں ملی تھی۔ یہاں بیٹے کی حکومت منحرف اراکین اسمبلی کے ووٹوں سے بنائی گئی جو عدالت کے فیصلے کے مطابق وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں شمار نہیں کیے جا سکتے۔ ان کی رکنیت بھی اب ختم ہوچکی۔ پارلیمانی روایت یہ ہے کہ منتخب ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہ ایک اور کہانی ہے کہ کس ہلڑ بازی‘ مارکٹائی کے دوران ووٹ ڈالے گئے۔ پی ٹی آئی کے منحرف اراکین اسمبلی کو نکال دیں تو وزیر اعلیٰ کے پاس اکثریت نہیں تھی۔ یوں سمجھیں کہ کچے دھاگے سے دریا کے درمیان لٹکے ہوئے تھے۔ کسی طرف سے ہوا کا زوردار جھونکا آیا اور حکومت منہدم ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل پنجاب میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ دو اسمبلیاں متواز ی کام کررہی ہیں۔ ایک میں وزیر اعلیٰ اور دوسری میں سپیکر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ہوا میں معلق ہوائی حکومت کا دارومدار ضمنی انتخابات پر ہے جو 17 جولائی کو ہوں گے۔ اس وقت ملکی سطح پر اور پنجاب میں کپتان مقبولیت میں اتنا آگے ہے کہ حریفوں سے مقابلہ بھی مذاق ہی لگتا ہے۔ سب ایک طرف ہو کر اکیلے کپتان سے لڑیں گے مگر نوشتہ ٔدیوار صاف دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے بعد سب ہی پرانی تنخواہ پر گزارہ کریں گے۔ لیکن یہ بات اتنی آسان بھی نہیں۔ بہت کچھ کرنے کے باوجود ان کا دس پندرہ سال کا اقتدار دائو پر ہے۔ اتحادیوں کو ہار کا سامنا کرنا پڑا تو پنجاب کے ساتھ مرکزی حکومت بھی مارگلہ کی گھاٹیوں میں بکھر جائے گی۔ بہت کچھ سن رہے ہیں کہ آندھیوں کے اس موسم میں ایک ہی خاندان کی دو لٹکتی ہوئی حکومتوں کو سہارا فراہم کیا جائے۔ہے کوئی جو اس ملک کے عوام کا سوچے ؟ ایسے تماشوں سے وہ خود ایک تماشا بن چکے ہیں۔ لیکن اس کھیل میں ملک کو دنیا کے سامنے کب تک تماشا بنائے رکھیں گے ؟ جب ان کے اپنے رکن پارلیمنٹ نے بہت ہی گرما گرم بات کر دی تو پھر لوگ بھی باتیں کریں گے۔لاہور کی عدالتِ عالیہ نے آئینی جائزیت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ اب کیا رہ گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں