"RBC" (space) message & send to 7575

انکار کی کوئی گنجائش نہیں

یہ دن تاریخ کے اوراق پر گہرے حروف سے لکھا جا چکا۔ کوئی بھی ہیرا پھیری کا ماہر سیاست کار‘ زبا ن دراز خدمات گار مبصر اور پیادوں کا جم ِغفیر ان حروف کو اب نہیں مٹا سکتا۔ 17 جولائی 2022 ء کا دن پچیس جولائی 2018 ء پر بھاری لگتا ہے۔ مقابلہ تو ضمنی انتخابات اور فقط پنجاب اسمبلی کی بیس نشستوں پر تھامگراس کے اثرات آئندہ کی قومی اور خصوصاً پنجاب کی سیاست پر بہت گہرے مرتب ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دن کو سیاسی حریفوں نے زندگی اور موت کا معرکہ بنایا ہوا تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر‘ بہت سے بیانیے جو دھڑم سے صرف نیچے نہیں گرے بلکہ زمین میں دھنس گئے ہیں۔ اب ویسے تو ان کے باس کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں‘ مگر یہاں سب کچھ چلتا ہے کیونکہ ہم ابھی اخلاقی پستی کی دلدل میں دھنسے ہیں۔ لیکن بے جان‘ بے سمت اور بے سروپا بیان بازی زمینی حقائق کو تبدیل نہیں کرسکتی۔
پہلے ذرا اس دن کی بات کرتے ہیں۔ اس کے بعد سے سروپا بیانیوں کی جنہیں کبھی پذیرائی ملی ہی نہیں تھی۔ تبدیل ہوتے ہوئے قومی سیاسی نقشے پر ان کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ میرے ذہن میں تو کبھی ذرہ برابربھی شک نہیں تھا کہ تحریک انصاف میدان مار لے گی اور منحرفین اور ان کے سرپرستوں کو گھر بھیج کررہے گی۔ دیکھنے والی عینک کے شیشوں پر تعصب‘ ذاتی خواہشات‘ خوف اور لالچ کی گرد نہ ہو تو بہت کچھ صاف نظر آتا ہے۔ عینک رنگدار ہوتو باہر آپ وہی رنگ دیکھیں گے جو آپ دیکھنا چاہتے ہیں۔گھبراہٹ‘ خفگی اور پریشانی میں کئی چہروں کو سکرینوں پر دیکھا توان کی حالت پرترس آنے لگا۔ ہمارے ہاں سیاست میں بہت کچھ جائز خیال کیا جاتا ہے۔ کھسیانی سی ہنسی کے ساتھ بیان بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔
بہت سی باتیں لکھی اور کہی جا رہی تھیں کہ تیرہ جماعتی اتحاد اور اس کے تین بڑوں نے کیسی غضب کی چال چلی کہ کپتان سیاسی شطرنج پر مات کھاگئے۔ بلکہ شادیانے بجائے جا رہے تھے کہ ان کی سیاست ختم ہوچکی۔ عجیب و غریب مفروضے گردش میں تھے کہ وہ لائے گئے تھے اور جب لانے والوں کا ہاتھ پرانے موروثیوں کے کندھوں پر پڑا تو سمجھا جانے لگا کہ اقتدار کا ہما اب ان کے سروں پر بیٹھا رہے گا۔ کیا معنی خیز مسکراہٹیں تھیں‘ کس انداز میں ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے‘ کیسے کیسے منصوبے بنے کہ مورثی حکمرانی وہ اپنی نئی نسل کے حوالے کرکے چین کی بانسری بجائیں گے۔ غرور‘ گھمنڈ اور زر ودولت کی طاقت کی چمک دمک کا اپنا نشہ تھا۔
دوسری طرف سازش اور دھاندلی کے زور پر بنیادی پارلیمانی روایات کو پامال کرکے ایک چلتی ہوئی حکومت کو گرایا گیاتو عوام کی حمایت کا دھارا کپتان کے ساتھ ہوچکا تھا۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں تھی کہ تینوں بڑوںکی دم توڑتی سیاست کو دوبارہ زندہ کرکے عوام پر مسلط کرنے سے ملک کے کونے کونے سے شدید ردعمل آئے گا۔ اسلام آباد کے پہلے جلسے اور تمام ملک سے لوگوں کو گھروں سے باہر نکل کر احتجاج کرنے کی صدا پر لوگ باہر نکلے اور تاریخی احتجاج دیکھنے میں آیا۔ مختلف شہروں میں جلسے ہوئے تو ہمیں بندکمروں میں بیٹھ کر گٹھ جوڑ کرنے والوں کی چالبازیاں دم توڑتی نظر آئیں۔ خدشات کچھ اور تھے۔یہ نہیں کہ تیرہ جماعتیں مل کر کپتان کی پارٹی کو شکست دے سکیں گی۔ کئی خبر رکھنے والوں سے ملا قاتوں کے بعد اگرچہ تاثر یہ ملا کہ جنہوں نے نکالا ہے وہ واپس کیوں آنے دیں گے مگر اندر ہی اندر کچھ اور سوال بھی اٹھتے رہے اور ہم اپنے جواب تلاش کرنے کی کوشش میں رہے۔اندیشے اپنی جگہ کہ ان کا پس منظر کوئی دھندلا ماضی نہیں تھا‘ مگر دو سوال زیادہ زور سے ابھرتے تھے کہ اتنی بڑی عوامی حمایت کے ہوتے ہوئے کوئی گھپلوں کی روایت کو کیوں دہرائے گا اور تاریخ کے کٹہرے میں الزامات کا سامنا کرے گا۔دوسرے یہ کہ جو مسلط ہوئے ہیں ان کا ماضی لو ٹ مار کے ہر جگہ بکھرے ہوئے ثبوتوں اور چوتھی پانچویں باری ناقص کارکردگی کی ذمہ داری کا بوجھ ہے‘ جسے کوئی اور کیوں اٹھائے گا؟بہت اچھا ہوا کہ جن سے غیر جانب دار رہنے کی ہم خواہش رکھتے تھے انہوں نے کوئی مداخلت نہیں کی۔ ظاہر ہے بیساکھیاں ٹوٹیں تو جو بت ان پر رکھ کر کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی تھی وہ اپنے ہی وزن سے زمین بوس ہو گئے ہیں۔اب دیکھیں کب تک یہ اٹھ کر چل سکیں گے۔ پرانے‘بااثر اور باوسائل کھلاڑی ہیں اور کچھ جوڑ توڑ کی سیاست میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ میدان وہ نہیں چھوڑیں گے‘ یہ ان کا پیشہ ہے۔بکنے والوں کی کمی نہیں۔وہ دکان لگانے میں تامل نہیں کریں گے۔ اور سلطنتِ اسلام آباد کی مختصر حدود میں بادشاہت کا رعب جہاں جہاں چل سکتا ہے‘ وہ چلائیں گے۔اگرچہ وہ چلے گا نہیں۔
عجیب صورتحال ہے‘ غالباًپاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ مرکزی حکومت کسی بھی صوبے میں حکومت میں نہیں۔ (ن) لیگ کی جلد بازی‘ پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد اور جن کے خلاف بیانیے کے زور پر وہ چل رہے تھے‘ ان کا سہارا بہت مہنگا ثابت ہوا۔ان کے ہاتھ کھینچ لینے سے ان کی ''مقبولیت‘‘ واضح ہو چکی۔ اب وہ بے جان سے لگ رہے ہیں۔ سانس لینا دوبھر ہوچکا۔ ضمنی انتخابات میں( ن) لیگ کامیاب رہتی تو لگ رہا تھا کہ شاید ا س کی سانسیں دوبارہ بحال ہونا شروع ہوجائیں گی لیکن (ن) لیگ کی واضح شکست نے سیاست کا دھارا کپتان کے حق میں کردیا ہے۔ اب مصنوعی سہارے کام نہیں دیں گے۔
کپتان پہلے بھی مقبول ترین قومی لیڈر تھے‘ اور اب تو انہی کا سکہ چلے گا۔ بڑے زور سے پنجاب کی جنوبی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے بیداری کی لہر سندھ کی وڈیرہ شاہی کے درودیوار ہلا سکتی ہے۔ اس چالیس سالہ سیاسی اجارہ داری نے سندھ کی جو حالت بنائی ہے‘ اسے اب بھاری بھرکم اشتہاروں کے زور پر چھپانا ممکن نہیں۔ کراچی تو پہلے ہی ان کے ہاتھ سے جا چکا ہے۔ سندھ کیوں منظم کرپشن اور مفلوج حکمرانی کے اندھیروں میں بھٹکتا رہے گا؟ سیاسی ہوائیں اور بیداری کی لہریں صوبائی حدود کی پابند نہیں ہوتیں۔
ان انتخابات کے بعد کیا کوئی جھٹلا سکتا ہے کہ کپتان وہ واحد لیڈر ہیں جو طویل جدوجہد‘ استقامت اور استقلال کے ساتھ ابھرے ہیں اور جو بات کہتے ہیں اس پر عوام اعتماد کرتے ہیں۔ انہیں امید کی کرن جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ وہ کرپٹ ٹولوں کے خلاف مزاحمت کو حتمی انجام تک لے جائیں گے اور ایک دن انہیں ان سے آزادی دلائیں گے۔ ہمیں بھی کوئی شک نہیں کہ موروثیوں کی سیاست‘ ان کے بیانیے اورتحریک نے بوسیدہ کرکے رکھ دی ہے۔یہ کھائے ہوئے بھوسے کی طرح معلوم ہوتی ہے جسے لوٹ کھسوٹ کی دولت کے سہارے کھڑا رکھنے کی کوششیں جاری ہیں۔ دم ہوتا یا جمہوری اصولوں کی پاس داری ہوتی تو نئے انتخابات کا اعلان کردیتے۔ اب اتحادی بری طرح پھنس چکے ہیں۔ انتخابات ہوئے تو وہ دھول بن کر اُڑ جائیں گے۔ کپتان کی تحریک اور بیانیے نے ان کے اقتدار کے راستے تنگ کردیے ہیں۔ اب وہ بضد ہیں کہ اسمبلیاں مدت پوری کریں گی تو ان کی سیاست اور حکمرانی پر اتنی ضربیں لگیں گی کہ ان کی حالت بگڑ جائے گی۔ ابھی وہ خریدو فروخت کی سیاست میں بقا تلا ش کررہے ہیں۔ آج پتا چل جائے گاکہ عوام جیتیں گے یا سوداگر۔ سوچتا ہوں کہ کب تک یہ حربے کام دیں گے؟ فطرت کے بھی تو کچھ اصول ہوتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں