کسی بھی ملک کی سیاست کے ناخدا ہمارے اکابرین جیسے ہوں تو ویسا ہی ہوتا ہے جو آپ گزشتہ چھ سات عشروں سے دیکھ رہے ہیں۔ اوپر کی طرف پرواز کرنے کے بجائے پستیوں کی جانب ہمارے سفر کی وجوہات کئی ایک بتائی جاتی ہیں۔ سرِ دست ہم صرف ایک کا ذکر کرتے ہیں‘ اور وہ ہمارے حکمرانوں کے درمیان محاذ آرائی ہے۔ سیاست میں اختلاف فطری امر ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو صرف آمریت قائم ہوگی۔ آزادی ہو تو سیاست میں مقابلہ بازی اور مسابقت کی نوبت آجاتی ہے۔ سیاست کی منڈی میں نظریات لائے جاتے ہیں‘ ان پر بحث ہوتی ہے‘ سیاسی جماعتیں بنتی اور سماجی تحریکیں اٹھتی ہیں۔ یہ سب آزادی کی نعمتیں ہیں۔ ملکی مسائل کے بارے میں اصولی اختلاف بھی سیاسی دنیا کا ایک معمول ہے۔ سیاست دان ان مسائل کے اسباب اور حل کے بارے میں یکساں رائے نہیں رکھتے۔ اختلاف نہ ہو تو جمہوریت نہیں پنپ سکتی۔
لیکن محاذ آرائی کا معاملہ مختلف ہے۔ یہ جمہوریت کو زنگ آلود اور آزادی کو دیمک کی طرح چاٹ کر مٹی میں ملا دیتی ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی مسابقت‘ انتخابی میدان میں مقابلہ بازی اور اقتدار کی جمہوری کاوشیں تقریباً ہر دور میں ذاتی مخاصمت اور شخصی تصادم کی صورت دکھائی دی ہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کے سیاسی اختلاف متحارب سیاسی رہنمائوں اور گروہوں کے درمیان جنگی کیفیت کا سماں پیدا کیے رکھتے ہیں؟ جو کچھ آپ آج کل دیکھ رہے ہیں‘ ہم آزادی کے اوائل برسوں سے اس کے گواہ رہے ہیں۔ اگر اس کیفیت کا کوئی عنصر تبدیل ہوا ہے تو وہ صرف نئے کھلاڑیوں کے گروہ ہیں۔ گزشتہ چوالیس برسوں میں تصادم کی فضا میں شدت بڑھی ہے۔ اب تو برساتی سیلابوں کی طرح اس صورتحال نے ہمیںہر طرف سے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ نہ کوئی محفو ظ جگہ ہے اور نہ ہی کوئی سیاست دان اس سے بچ سکتا ہے۔ ان کی سیاست کے نتائج ہم سب پر واضح ہیں۔ خود ہی سوچ لیں‘ ہم آج ابھرتی ہوئی اقوام کے درمیان کیا مقام رکھتے ہیں؟ اس کے ذمہ دار کسان ‘ کاشت کار‘ مزدور یا عام آدمی نہیں۔ اس کے ذمہ دار وہ ہیں جو سیاست‘ حکومت‘ ریاست ‘ زمین ‘ دولت کے کھیل کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں۔
میرے نزدیک اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک سیاسی ثقافت اور دوسری ریاستی اداروں کے درمیان اختیارات اور توازن کے مسائل۔ سیاسی ثقافت میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں‘ جن کا تعلق معاشی اور سماجی دھاروں میں تبدیلی سے ہے‘ مگر اس کا بنیادی ڈھانچہ اپنی جگہ پر قائم ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سماجی طور پر غالب حلقوں کی بنیادیں قبائل‘ ذات پات اور جاگیرداری نظام میں گڑی ہیں۔ گویا آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اسی نظام کی پیداوار ہیں۔ سیاست میں ان کا مقام ان کے سماجی رشتوں کی بدولت بنا ہے۔ جن کی جڑیں معاشرے میں مضبوط ہیں۔ یہاں میں کسی ذاتی پسند‘ ناپسند کی بات نہیں کررہا۔ آپ خود بھی اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمارے سیاسی لوگوں کا سماجی پس منظر آپ کے سامنے آجائے گا۔ اپنے رویوں میں ہماری آبادی کا بڑا حصہ جاگیرداری نظام سے متاثر ہے۔ بیشک ان کا تعلق اُن خاندانوں سے نہ ہو۔ اس کو صرف سرمایہ دارانہ نظام نے ہی زک پہنچائی ہے۔ ہم اس نئے مغربی نظام کو اپنا تو چکے ہیں لیکن ہم اس کے قیدی بن کر رہ گئے ہیں حالانکہ یہ نظام ہمارے ثقافتی رویے تبدیل کر سکتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اس جاگیرداری نظام کا محاذ آرائی کی سیاست سے کیا تعلق بنتا ہے؟ اگر آپ ملک کے کسی بھی کونے میں کسی غیر شہری انتخابی حلقے کا مشاہدہ کریں تو آپ کو پتا چلے گا کہ سیاسی تقسیم ذاتی مخالفت کے قالب میں ڈھل چکی ہے۔ مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریت میں مقابلہ عوام کی آرااور سیاسی جماعتوں کے متبادل منشوروں اور اقتصادی پروگراموں میں ہوتا ہے۔ ہماری جاگیر دارانہ جمہوریت میں مقابلہ دو شخصیات اور سیاسی خاندانوں کے درمیان ہوتا ہے جو تصادم میں بدل جاتا ہے۔ مغرب میں ہار جیت عوام اور نظریات کی ہوتی ہے‘ یہاں انتخابی شکست ذاتی ہزیمت قرار پاتی ہے۔ سیاست دانوں نے نظام میں اتنی خرابیاں پیدا کردی ہیں کہ اگر آپ اقتدار میں ہیں تو ٹھیک‘ باہر ہیں تو مخالفت آپ کو چین سے نہیں رہنے دیں گے۔
اداروں میں اختیارات کی تقسیم کے بارے میں ابہام اور خواہ مخواہ کی لڑائی نہ ہو تو سیاسی ثقافت کے منفی پہلو رفتہ رفتہ کمزور پڑ جاتے ہیں۔ آئین اور قانون سیاسی کھیل کے اصول طے کرتے ہیں اور اس کا ریفری جو میدان میں ریڈ کارڈ دکھا کر آپ کو آئوٹ کر سکتا ہے وہ ملک میں عدالت عظمیٰ ہے۔ ہمارے سیاسی کھلاڑیوں میں سے کوئی بھی ریفری کو آزاد اور خود مختار نہیں دیکھنا چاہتا۔ جوسیاسی کردار آپ نے آزمائے ہیں اور جنہیں اب تک بھگت رہے ہیں ‘ وہ فائول کھیلے بغیر میدان میں رہ ہی نہیں سکتے۔ ماضی میں اس حوالے سے جو کوششیں کی گئیں اورجن کا اشارہ گزشتہ ہفتے ملا‘ کوئی ہمارے جیسا درویش یا مست ملنگ ہی ان سے صرفِ نظر کر سکتا ہے۔ کہنے کو تو پارلیمان‘ جسے ہر جمہوری آئین میں ریاست کا اولین ادارہ سمجھا جاتا ہے‘ عوامی اقتدار کا مظہر ہے لیکن اس کی آزادی اور خود مختاری پر چند افراد نے تالا ڈال رکھا ہے۔ وہ اسے کھولتے‘ بند کرتے اور ہمارے منتخب نمائندوں کو ہدایات جاری کرتے ہیں۔ دیکھا ہوگا کہ ہمارے گجرات کے بڑے چوہدری صاحب جو خود تو کسی اسمبلی کے رکن نہیں‘ لیکن اُنہوں نے ایسی انگریزی میں وہ خط لکھ مارا جو وہ خود ہی پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں‘ یا وہ جو ان کے بیان سے شناسائی رکھتے ہیں ۔ اس کے مقابلے میں برطانیہ میں حالیہ تبدیلی پر بھی ذرا غور فرمائیں ۔ کون بنے گا وزیر اعظم‘ اس کا فیصلہ کنزرویٹو پارٹی کے اراکین نے پارلیمنٹ میں کیا ۔ دو تین مراحل کے بعد وہ امیدوار میدان میں رہ گئے ۔ اب اس جماعت کے عام رکن ووٹ ڈال کر فیصلہ کریں گے ۔
باغبانی میرا زندگی بھر کا شوق رہا ہے ۔ اس تجربے سے ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ بڑے درخت کے سائے میں کوئی اور درخت نہیں پروان چڑھ سکتا ۔ اُسے صبح کی پُرنور کرنیں‘ رگوں میں گھل جانے والی سورج کی حرارت‘ آکسیجن اور ہوا کے گداز جھونکے میسر نہیں آتے ۔ سائے پیچھے ہٹیں گے تو پارلیمان کو عزت اور احترام نصیب ہوگا۔ ریفری پرکھلاڑی چڑھائی کرنا بند کریں گے ۔ تو اسی طرح جمہوریت کے پودے میں وہ توانائی پید اہوگی جو اسے پروان چڑھائے گی ۔
یہ گزارشات جن کا ذکر ابھی میں نے کیا ہے‘ ان کے لیے ہمارے سیاسی کھلاڑیوں کو مل کر بیٹھنا ہوگا‘ تلخیاں ختم کرنا ہوں گی‘ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی عادت اپنا نا ہوگی۔ کھیل کے اصول وہ خود بات چیت کے ذریعے طے نہیں کریں گے تو پھر کوئی اور ادارہ نظریۂ ضرورت کا حوالہ استعمال کرکے طے کرگزرے گا۔ محاذآرائیوں نے ہی وہ حالات پیدا کیے ہیں جب دستور ردی کی ٹوکری میں اور کھلاڑی حوالات میں بند کردیے گئے ۔ اگرچہ ان میں سے اکثر جان بچا کر بیرونِ ملک اپنے خزانوں کو سنبھالنے چلے گئے ۔
کچھ تو خیال کریں ۔ بہت ہوچکا۔ جس طرح آپ اس ملک کی قسمت کے ساتھ کھیل رہے ہیں‘ زمینی مخلوق کاخون کھول رہا ہے۔ اپنے وجود میں تو خیر اتنا نہیں لیکن معاشرے اور لوگوں کے لہو کا اُبال دکھائی دینے لگا ہے ۔ یہ لہو اُبل پڑا تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ اب گزارشوں کا وقت بھی تمام ہورہا ہے ۔ ضروری ہے کہ حکومت میں شامل اور حکومت سے باہر دھڑے مل کر انتخابی اصول‘ وقت اور تاریخ طے کرلیں۔ معاشی‘ حکومتی‘ قانونی اور سماجی اصلاحات پر سب کو اکٹھا ہونا ہوگا۔ سیاسی لڑائیاں آج تک کوئی نہیں جیت سکا۔ وہ بھی ہارے اور ملک بھی پیچھے رہ گیا ۔