دورِ جدید ہو یا گزرے ہوئے زمانوں کی داستانیں ہوں‘فکر اور بے فکری میں فرق بالکل وہی ہے جو ترقی‘بیداری‘ طاقت‘ امن اور خوش حالی اور ان کی برعکس حالتوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ فکر کا تعلق آنے والی نسلوں کے لیے بہتر جگہ‘ بہتر ملک‘ بہتر قوم اورخوشحال معاشرہ تشکیل دینے سے ہے۔ میرے نزدیک کامیاب شخص وہ نہیں جو اپنے لیے‘ اپنے خاندان اور بچوں کے لیے کافی مال و دولت کے انبار لگا کر اس دنیا میں نہایت شان و شوکت سے رہے‘ جب وہ ڈھیروں مٹی میں دفن کردیا جائے تو لوگ یہ کہیں کہ کتنا دولت مند اور خوشحال شخص تھا۔ خیر‘ ہمارے ہاں کامیابی کایہی معیار بن چکا ہے۔ کہتے ہیں کہ فکری اعتبار سے وقت کے دھارے کے ساتھ بہنا اور اکثریت کی ہاں میں ہاں ملانا صرف اس وقت مناسب ہے جب آپ نظریاتی لحاظ سے حالات کو اپنے قریب پائیں۔ دل نہ مانے تو بہتر یہی ہے کہ آپ اپنی رائے پر قائم رہیں اور منفرد زاویۂ نگاہ مقبولیت کے ترازو میں تولنے کی ضرورت محسوس نہ کریں۔ دولت کمانے اور جمع کرنے کے جائز طریقوں میں کوئی حرج نہیں اور نہ ہی خود کو آسود حال رکھنے میں کوئی خرابی ہے مگر اسے منزلِ مقصود بنانا خود غرضی ہے۔ آپ کے مال میں دوسروں کا حصہ بنتا ہے۔ ہر روز ہم مغرب کے ارب پتیوں کے بارے میں سنتے رہتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنی دولت کا بیشتر حصہ تعلیمی اداروں‘ فلاحی کاموں اور موسمیاتی تبدیلیوں سے عالمی سطح پر نمٹنے کے لیے وقف کردیا۔ گزشتہ ہفتے پٹا گونیا کمپنی کے بانی اور امریکی کوہ پیما ایوان شوینارڈ(Yvon Chouinard)نے تین ارب ڈالر کی پوری کمپنی ماحولیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزماہونے کے لیے وقف کردی۔ اس سے بھی بڑی مثالیں موجود ہیں۔ ہمارے ہاں بھی تہذیبی لحا ظ سے وقف کی روایت بہت گہری ہے۔ ان میں بڑے بڑے زمیندار بھی شامل ہیں۔ صرف مظفرگڑھ سے دوکا نام لینا چاہوں گا‘ کوڑا خان اور نواب مشتاق احمد گرمانی صاحب۔ کبھی موقع ملا تو ان کے بارے میں تفصیل سے لکھوں گا۔ مجموعی طور پر ہماری تہذیبی شناخت اور پاکستان کے تمام لوگوں کا مزاج بے پناہ مخیرانہ ہے‘ اور ضرورت پڑنے پر دل کھول کر لوگوں کی خدمت کرتے ہیں۔ اس لیے یہ صرف مغرب کی روایت نہیں بلکہ انسانی تہذیبی رنگ ہے جو ہر مذہب اور ملک میں ہم دیکھ سکتے ہیں۔
بات میں کامیاب انسان کی کررہا تھاجس کے لیے یہاں کسی طویل اور پیچیدہ فلسفے کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ صرف اتنا ہی کہنا ہے کہ جو وقت‘ فرصت اور وسائل ہمیں ملے ہیں‘ ان سے اپنے فائدے کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی کچھ کرنے کی فکر کریں۔ کچھ اور نہیں توکہیں درخت ہی لگادیں‘ کوئی جنگل کا ٹکرا سرسبز کردیں‘ اردگرد کا ماحول ہی ٹھیک کرلیں‘ پارک‘ گلی‘ محلہ ہمیشہ کے لیے صاف ستھرے ہوجائیں۔ یہ تو وہ کام ہیں جو ہم چلتے‘ پھرتے بغیر بڑے اخراجات کے سرانجام دے سکتے ہیں۔ لیکن یہ تب ہوں گے جب ان کے لیے کوئی فکر ہوگی‘ کوئی تحریک پیدا ہوگی۔ آپ کے اندر کوئی جذبہ بیدار ہوگا تو آپ اپنے محدود دائرے میں چھوٹے انقلابی اقدامات کر سکتے ہیں۔ بڑے انقلابات تو پتا نہیں کب آئیں گے‘ اس کے بارے میں ہم اتنے ناامید تو نہیں تو مگر ان میں محنت‘ جدوجہد اور قومی بیداری کی موجودہ لہر کو نہ جانے کتنی آزمائشوں سے گزرنا ہوگا۔ جو اس وقت میدان میں ہیں ان میں استقامت نظر آتی ہے۔ جذبہ اور جنون بھی ہے اور جس سمت حالات جارہے ہیں اس سے بہت کچھ ہوسکتا ہے لیکن انقلاب یہ نہیں کہ ایک دھڑا اقتدار میں آ جائے۔ انقلاب کا تعلق اُن مثبت اور بڑی تبدیلیوں سے ہے جو معیشت‘ معاشرے اور فرد کی زندگی میں لائی جائیں۔ بیداری بھی ایک مسلسل تحریک کی صورت چلتی رہتی ہے۔ یہ نہیں کہ سیاسی طور پر بیدار ہوجائے اور پھر خواب ِخرگوش میں کھو جائے۔ مقابل سیاسی دھڑا یا جماعت اپنے منشور میں ناکام رہتے ہیں تو بیدار عوام کسی اور کو سامنے لاتے ہیں۔ جمہوریت میں یہ عمل چلتا رہتا ہے۔ کوئی مثالی حکومت تو کبھی نہیں بن سکتی۔ ذرابہتر‘ یا پھر اس سے بہتر اور حکمرانوں کی سمت صحیح رخ میں رکھنے اور انہیں ریاستی امور میں ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے عوامی شعور‘ فکر اور آگہی درکار ہے۔ اگر عوام بے حسی کی زنجیریں توڑنے میں غفلت برتیں تو ظاہر ہے کہ وہی ہوگا جوہوتا چلا آرہا ہے۔
جس فکر کی بات میں کرنا چاہ رہا ہوں وہ ذاتی نہیں اجتماعی معاملات کی ہے جس میں آپ کا معاشرہ اور سیاسی امور میں آپ کی دلچسپی اورکچھ کرنے کا جذبہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ کامیاب معاشرے وہ ہیں جہاں لوگ مل کر اجتماعی مسائل کا حل مشترکہ کوششوں سے نکالتے ہیں۔ جب مسائل ختم نہیں ہوتے تو پھر مشترکہ کاوشیں کیوں ختم ہوں ؟ اگر ہم اس صلاحیت سے عاری ہوجائیں تو‘ جیسا کہ میں محسوس کرتا ہوں‘ اکیلے میں کڑھنے کے سوا آپ کچھ اور کرنہیں سکتے۔ آگے بڑھنے والی قومیں اور ریاستیں ا س فکر میں رہتی ہیں کہ اس سال کے آخر میں‘ اگلے پانچ برسوں کے بعد‘ اورپھر دو تین عشروں میں کہاں پہنچنا ہے۔ اس کے لیے اہداف مقرر کیے جاتے ہیں‘ بڑے بڑے منصوبے ہر بنیادی شعبے میں بنائے جاتے ہیں‘ وسائل کا بندوبست کیا جاتا ہے‘ مشکل فیصلے بروقت ہوتے ہیں اور ان پر عمل درآمد میں حائل رکاوٹیں فوراً دور کی جاتی ہیں۔ چین نے اس طرح چالیس سال سے بھی کم عرصے میں خیرہ کن ترقی کی ہے۔ آزادی کے وقت کئی اعتبار سے ہم ان سے بہتر تھے‘ جب وہ نظریاتی جمود کا شکاراور ثقافتی انقلاب کے گرداب میں پھنسے ہوئے تھے۔ یہاں بھی وہی فکر جاری رہتی جو ساٹھ کے عشرے میں ہم نے دیکھی تو ہم بھی خوشحالی اور ترقی یافتہ اقوام کی صف میں جگہ بنا چکے ہوتے۔ ہمارے زوال کے اسباب بہت گہرے اور ایسے بھی ہیں جن کا تواتر سے ذکر کیا جاتا رہا ہے۔ ایک قدم آگے چلتے ہیں تو اندھیروں میں چھپے دیوتا زوردار دھکا لگا کر دو قدم پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں کی بے فکری کا رونا کیا روئیں کہ کیا بچ پایا ہے۔ ہمارے قومی خزانوں‘ وسائل اور وقار کی دولت پر دن دہاڑے ڈاکے ڈالے جارہے ہیں۔ اختیار لوٹ مارکرنے والوں کے ہاتھوں میں مرتکز‘ جمہوریت ان کے حکم کے تابع‘ ادارے مفلوج اورفعالیت صرف شخصی مفادا ت کے تحفظ کے لیے۔ یہ بے فکری نہیں تو اور کیا ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم خوراک درآمد کرتے ہیں۔ زمین ہے تو پانی نہیں اور پانی جب آسمان سے برستا ہے تو زمین نہیں رہتی۔ مانا کہ یہ ایک قدرتی آفت ہے مگر ہم نے زمین اور پانی کو بچانے کے لیے کون سی تدبیریں ابھی تک کی ہیں ؟ جو حکمران ٹولے اپنی سیاست چمکانے اور کمیشن کی طلب میں پانی کے ذخائر اور پن بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو التوا میں ڈالتے رہے ہیں۔ قدرت نے ہمیں اس دولت سے مالا مال کیا ہے مگر استفادہ کرنے کی منصوبہ بندی کمزور‘ مصلحتوں کا شکاراور خود ساختہ الجھنوں میں پھنسی ہوئی ہے۔ کبھی کوئی یہ سوچ کر رات کو چین کی نیند سو سکتا ہے کہ کروڑوں بچے سکول نہیں جا سکتے؟ ہاں‘ صرف وہ جنہیں یہ فکر نہیں کہ یہ ہمارے بچے ہیں۔ ہمارے حکمران اور اشرافیہ انہیں غریبوں کے بچے سمجھ کر جس طرح نظر انداز کرتے آئے ہیں‘ اس سے آپ کو قومی فکرکی گہرائی کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ تعلیم‘ صحت‘ روزگار اور ترقی بے فکری کے کھوکھلے نعروں سے نہیں ملتی‘ان کے لیے فکر درکار ہے۔