معاشرے میں ناانصافی ہو یا ریاستی حکمران خائن‘ غاصب اور خود غرض ہوں یا وہ لوٹ مار کو طاقت کے زور پر اپنا شعار بنالیں‘ ایسے میں خاموشی ان کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ نظام کی بنیاد ظلم پہ ہو‘ اور ظلم کو میں وسیع تر معنی میں لیتا ہوں‘ تو گھر بیٹھ کر چین سے جینے کی کوشش غلامی کی زنجیروں میں اپنے آپ کو جکڑنا ہے۔ زندہ معاشروں میں غلط قانون‘ بے تکی پالیسیوں اور عقل سے عاری حکومتی فیصلوں کے خلاف آواز رکھنے والے آواز بلند کرتے ہیں۔ اس کی کئی صورتیں بنتی ہیں جن میں لکھنا‘ کوئی فورم میسر ہو تو بولنا‘ عام شہریوں کو متحرک کرنا‘ کسی تحریک میں شمولیت اختیار کرنا شامل ہیں۔ مزاحمت نہ ہو تو ظلم کی تاریک طاقتیں‘ رنگ برنگے سیاسی اور نظریاتی لبادے زیب تن کیے معاشرے پر غالب ہو جاتی ہیں۔ یہی تو ہماری بدقسمت تاریخ کی داستان ہے۔ نتائج کا سامنا پھر کس کو کرنا پڑا؟ تمام معاشرے کو‘ آئندہ آنے والی نسلوں اور پھر ان کی اولادوں کو۔ کاش مغربی پاکستان کے لوگ بھی عوامی لیگ کے اقتدار کی جائزیت کے لیے آواز بلند کرتے۔ ہمارے یہاں کے سیاسی لوگ مصلحتوں کا شکار رہے اور وہ جو اس المیے کے مرکزی کردار تھے‘ اب ان کے بارے میں کیا کہیں۔ آوازیں یہاں اٹھیں بھی تو ان کا رنگ کچھ اور تھا۔ عجیب بات ہے کہ لوگ اٹھتے بیٹھتے وطنِ عزیز کے زوال‘ پسماندگی اور کرپشن کی باتیں ہر سطح پرکرتے ہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں کرتے۔ مایوسی کا شکار ہوں تو یہی رویّے رواج پاتے ہیں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرا رکھنے سے کیا ہو سکتا ہے۔ ہوا میں تیزی نہ ہو تو ایک تنکا بھی اپنی جگہ سے نہیں ہل پاتا۔ معاشروں میں کچھ جان ہو‘ کوئی جذبہ اور تحریک ہو تو قدم آگے بڑھانے‘ منزلیں مختص کرنے اور بڑے فاصلے طے کرنے میں کوئی دیر نہیں لگتی۔
میرے نزدیک مزاحمت ہر باشعور انسان کی ذمہ داری ہے۔ نتائج کچھ بھی نکلیں‘ کتنا بھی نقصان ذاتی طور پر کیوں نہ اٹھانا پڑے‘ مشکلات جو بھی سامنے ہوں‘ استقامت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے حبیب جالب بھی تو تھے‘ شورش کاشمیری کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ استاد دامن تو مزاحمت کاری کے استادِ کامل تھے اور فیض صاحب تو ساری زندگی اپنے افکار‘ شاعری اور عملی جدوجہد کے حوالوں سے مزاحمت کا پیکر بنے رہے۔ اس زمرے میں کس کس نامور کا نام لیں ہماری تاریخ میں ایسے بے شمار لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے طور پر مزاحمت کا جھنڈا بلند کیے رکھا ہے۔ ہماری ادبی تخلیق اردو میں ہو یا علاقائی زبانوں میں‘ سب میں مزاحمت کا رنگ نمایاں ہے۔ ہمیشہ سے علاقائی زبانوں میں مزاحمت کی روایت مرکزی حیثیت کی حامل رہی ہے۔ اس طرح ہمارے صحافیوں‘ معلموں اور نوجوانوں نے اس تحریک میں ہر موقع پر حصہ ڈالا ہے۔ مزاحمت جذبے سے ابھرتی ہے‘ اگر وہ نہ رہے تو شعلے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ گرتی ہوئی دیواریں کبھی بھی خود نہیں گرتیں‘ بے شک ٹیڑھی بھی کر دی جائیں‘ جگہ کیوں چھوڑیں گی‘ جب تک کہ کوئی زور دار دھکا نہ لگے۔ انقلاب ایسے تو نہیں آتے‘ جدوجہد کرنی ہوتی ہے۔ اگر وہ نہ ہو تو طاقتور استحصالی حکمران اپنی لوٹ مار کیوں کر ختم کریں گے۔ موروثی خاندان ہوں‘ ان کے گماشتے یا کسی اور نوعیت کے ریاستی جبر کے ذریعے طاقتور اور اختیار سنبھالنے والوں کے خلاف ہم مزاحمتی بیانیے اس لیے بناتے ہیں اور بناتے رہیں گے کہ ہم اس دھرتی کے ہیں۔ ہمارا مرنا‘ جینا‘ غم‘ خوشی‘ گھر اور فطرت کی دولت کے خزانے یہاں ہیں۔ ہمیں سندھ‘ جہلم اور چناب جیسے دریا اور بلتستان کے پہاڑ اور کہاں ملیں گے۔ ہماری روح بلوچستان‘ تھرپارکر اور چولستان کی وسعتوں سے باہر پرواز ہی نہیں کر سکتی۔ جذبے کی توانائی ہمیں کب چین سے بیٹھنے دے گی کہ معاشرے میں ریاستی اقتدار کے سہارے کچھ فنکار معتبر بن کر لوٹ مار کرتے رہیں اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں۔
ہم پُر تشدد مزاحمت کے خلاف ہیں۔ اس کی کوئی بھی توجیہ میرے نزدیک کوئی قابلِ جواز حیثیت نہیں رکھتی۔ امن پسندی اور فطرت شناسی اور ماورائیت (Transcendentalism) کے فلسفوں نے انیسویں صدی سے آج تک لاکھوں لوگوں کو مسحور اور متاثر کر رکھا ہے۔ فرد ہو یا فطرت کے شاہکار‘ جن کا سرسری ذکر میں نے اوپر کیا ہے اپنی ذات اور ساخت میں معصوم ہیں۔ بگڑا ہوا معاشرہ اور اس میں غالب حکمران طبقے ان کو خراب کرتے ہیں۔ ہم اکثر معصوم کو ذمہ دار ٹھہرا کر مطعون کرتے رہتے ہیں۔ ظالموں کے خلاف آواز اٹھانی ہو تو مصلحتوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہنری ڈیوڈ تھورو (1817-1862ء) کے نام سے شاید آپ واقف ہوں لیکن ہمارے وہ بھائی بند جو فطرت شناسی‘ مزاحمت کاری اور عدم تشدد کی لڑیوں میں پروئے ہوئے ہیں‘ وہ انہیں خوب جانتے ہوں گے۔ جو کچھ انہوں نے لکھا کہیں مل جائے تو آنکھوں میں تروتازگی آجاتی ہے۔ حال ہی میں‘ غیر متوقع طور پر ان کی ڈائری کی پندرہ جلدیں‘ دو بڑی جلدوں کی صورت اسلام آباد کی کسی پرانی کتابوں کی دکان سے مل گئیں۔ ایک سال سے زیادہ بوسٹن کے قریب ایک جنگل میں بغیر کسی سروسامان کے ایک تالاب کے کنارے گزارے اور ہر روز جو کچھ فطرت کا مشاہدہ کیا‘ پودوں‘ درختوں‘ جانوروں سے لے کر بدلتے موسموں کی کیفیت تک کو انہوں نے ہماری رہنمائی کے لیے تحریر کر ڈالا۔ سول نافرمانی کی روایت کے وہ بانی سمجھے جاتے ہیں۔ 1846ء میں انہوں نے حکومت کو ٹیکس دینے سے انکار کر دیا وہ اس بنیاد پر کہ یہ رقم سپین کے خلاف جنگ میں استعمال ہو گی۔ اس خلاف ورزی کے لیے انہیں جیل جانا پڑا۔ بڑا نام تھا مگر قانون ایسے معاشروں میں کسی کو معاف نہیں کرتا۔ وہ اس سزا کے لیے خود تیار تھے۔ اگرچہ وہ صرف ایک ہی رات جیل میں رہے اور وہ معمولی سا ٹیکس کسی نامعلوم شخص نے ادا کر دیا مگر انہوں نے ایک مثال قائم کر دی کہ مزاحمت کرنا فرض بنتا ہے۔ اگرآپ کو ناجائز قانون کو توڑنا پڑے تو پھر اس کے نتائج بھگتنے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ مہاتما گاندھی بڑی حد تک تھورو سے متاثر تھے۔ تاریخ پڑھیں تو انگریزوں نے نمک کی خرید و فروخت اور پیداوار پر اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے قانون بنا رکھا تھا۔ سرکار کے کارندے ہر چھوٹے بڑے شہر کے باہر چوکیاں قائم رکھتے تھے اور کوئی نمک بنا کر بیچنے کے لیے آتا تو اس سے ٹیکس وصول کرتے تھے۔ گاندھی جی نے وہ مشہور ''نمک مارچ‘‘ اس قانون کو توڑنے کی غرض سے کیا تھا۔ راستے میں کئی جگہ پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا‘ بار بار پُرامن جلوس پر تشدد کیا جاتا رہا مگر تربیت یہ تھی کہ جواب میں ہاتھ نہیں اٹھانا‘ بے شک آپ کا سر پھٹ جائے اورآپ کی پیٹھ پر کتنا ہی لاٹھیاں نہ برسیں۔
میرا مقصد مزاحمت کی روایت کی تاریخ‘ فلسفے اور ان اکابرین کی روشن مثالوں کا ذکر اس غرض سے کرنا ہے کہ اس وقت جو کچھ پاکستان میں عمران خان کی قیادت میں ہو رہا ہے‘ اس کی جڑیں کئی زمینوں اور کئی زمانوں میں پیوست ہیں۔ مزاحمت کا دھارا‘ دنیا کے دیگر حصے ہوں یا ہماری اپنی تاریخ ہو‘ یک رُخا کبھی نہیں رہا۔ کسی ملک کے معروضی حالات‘ تضادات اور کش مکش اُسے بناتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ مزاحمت دبانے سے اپنا رخ کسی اور جانب موڑ لیتی ہے مگر کوئی اُسے ہمیشہ کے لیے ختم نہیں کر سکا۔ اس وقت ملک کے اندر بنیادی تضاد اب روایتی سیاسی گھرانوں‘ جماعتوں اور ان کی سرپرست طاقتوں اور عمران خان کی تحریک انصاف کے درمیان بن چکا ہے۔ آپ عمران خان کے حامی ہوں یا مخالف یا آپ غیر جانبدار ہوں‘ یہ توآپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ موجودہ حکمران ناقابلِ علاج سیاسی جائزیت کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ آپ اس سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ آج عمران خان ان تمام طاقتوں کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکے ہیں۔ اس تضاد اور مزاحمت کا فیصلہ ہو کر ہی رہے گا۔ (جاری)