"RBC" (space) message & send to 7575

رو میں ہے رخشِ عمر…

مالٹوں کے وسیع وعریض باغ میں مصری‘ مراکش طرزِ تعمیر کا مہمان خانہ۔ کمرے تو تین چار ہیں مگر چاروں طرف بلند محرابوں کا چوڑا برآمدہ ہے۔ دور سے دیکھیں تو کسی خانقاہ کا گماں ہوتا ہے۔ بڑے کمرے میں لائبریری ہے جہاں ساڑھے تین سوکے قریب اسلامی فلسفے پرکتابیں دیکھیں۔ جہاں کہیں اُنہوں نے تعلیم حاصل کی‘ دنیا کی جن جن جامعات میں وہ پڑھتے‘ پڑھاتے رہے‘ کتابیں اکٹھی کرتے رہے۔ لائبریری ہو یا کوئی اور کمرہ‘ دونوں جانب لمبی روشن کھڑکیاں ہر طرف سے باغ میں کھلتی ہیں۔ کوئی دوست ملنے کے لیے آئے تو نشست لائبریری میں پڑے صوفوں پر ہوتی یا باہر برآمدے میں۔ چند گز کے فاصلے پر حویلی ہے۔ اس کی بیرونی دیواریں بھی روایتی محرابوں سے تعمیر کی گئی ہیں۔ باہر سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کسی بزرگ‘ صوفی کے دربار میں حاضری دے رہے ہیں۔ حویلی کے ایک کونے میں کئی فٹ چوڑے تنے کا جامن کا درخت ہے جو ان کے بزرگوں نے کسی زمانے میں لگایا تھا۔ جب حویلی کی تعمیر کا منصوبہ بنا تو اس سب سے پرانے درخت کو چار دیواری کے اندر رکھنا اتنا ہی اہم تھا جتنا اس حویلی کا خواب تھا۔
آخر میں ایک دن وہ آیا جب مجھے حویلی کے ایک ایک کمرے‘ برآمدوں‘ باورچی خانے‘ مراقبے اور عبادت کے لیے ایک تکونی کمرے اور اس میں رکھی ہوئی چند چیزوں کے بارے میں تفصیل سے لیکچر دیا گیا‘ جیسے کسی نئی آنے والے کو علم سیاست کا بنیادی درس دے رہے ہوں۔ حویلی کو دیکھنے کا اشتیاق فطری تھا کہ اس سے پہلے جب انہوں نے ایک سفید کاغذ پر کچھ لکیریں لگائیں اور نقشہ بنانے کی مشق کی تو میں سامنے موجود تھا۔ بلکہ یہ مشق کم از کم ہفتے میں ایک بار ضرور ہوتی۔ ساتھ والے کمرے میں میرا دفتر تھا۔ ہم دونوں میں دیہاتی پس منظر‘ زمین سے وابستگی‘ کئی سالوں تک امریکی جامعات میں تعلیم و تدریس اور مثالیت پسندی مشترک تھے۔ اسلامی فلسفے کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے ایک عمر چاہیے۔ یہ ان کی علمی تخصیص تھی‘ میری نہیں۔ اور جب وہ کسی موضوع پر بات کرتے تو میں سامع کا ہی کردار ادا کرتا۔ ظاہر ہے کہ اسلامی فلسفہ اگر پڑھا ہے تو مغربی فلسفے کو آپ کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں؟ امریکی جامعات میں تو سیاسیات کی تعلیم کی ابتدا ہی یونانی فلسفے سے لے کر جدید سیاسی فلسفوں سے ہوتی ہے۔ ان کی زیادہ تر علمی دلچسپی مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ اور سیاست سے علاوہ وسطی ایشیا کے ممالک‘ ان کے تعلقات اور تنظیمی رابطوں پر تھی۔ اسلامی فلسفہ بس ایسے سمجھیں کہ پہلی اور آخری محبت تھا۔ یہ پودا امریکہ میں تعلیم کے دوران پروفیسر سید حسن نصر نے لگایا تھا جو ان کے استاد اور اتالیق تھے۔ پروفیسر نصر کے علم اور فلسفے سے استفادہ کیے بغیر میرے نزدیک کوئی بھی استاد جدید یا کلاسک اسلامی نظریات کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ آج بھی وہ زمین پر روشنی کا بلند اور چمکتا ہوا مینار ہیں جن کے علم کی شعاعیں کئی کتابوں اور سینکڑوں مقالوں کی صورت متلاشی دلوں کو گرما رہی ہیں۔
دیسی مٹی کی خوشبو انہیں واپس کھینچ لائی‘ وگرنہ وہ تو امریکی شہریت رکھتے تھے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی تھی۔ چاہتے تو وہیں کسی بھی موزوں جگہ اور جامع میں بس جاتے۔ یہاں آنے سے پہلے ایک امریکی یونیورسٹی میں پڑھا رہے تھے۔ لمز کے بارے میں سنا تو اس درویش سے رابطہ کیا۔ ان کے آنے سے ماحول ہی یکسر بدل گیا۔ علمی بحث اور مباحث اپنی جگہ‘ ہم دیسی مٹی کے چند دوست مٹی کی باتیں کرتے کہ کیا اُگائیں‘ کیا لگائیں اور کوئی ایسا وقت آئے کہ ہم اپنے اگائے ہوئے باغوں کے درمیان جھونپڑی بنا کر زندگی گزار دیں۔ ڈاکٹر اعجاز اکرم جو سوچتے‘ جو خواب دیکھتے‘ فوراً اس کو عملی صورت میں ڈھالنے کی تدبیر بھی کرتے۔ ہم نے یہ خواب اکٹھے دیکھا اور گھنٹوں بحث کرتے کہ گھر مٹی سے بنانے ضروری ہیں۔ افریقہ‘ مشرقِ وسطیٰ‘ نیپال اور لاطینی امریکہ کے روایتی طرزِ تعمیر اور خالص مٹی سے بنائے گھروں کی سو تصاویر انٹر نیٹ سے جمع کیں۔ یہاں کسی زمانے میں جو گھر بنتے تھے‘ وہ بھی تو مٹی کے تھے۔ بھوسہ اور دیگر زرعی باقیات مٹی میں ملائی جاتیں۔ ملک کے مشہور ماہر تعمیرات‘ کامل خان ممتاز نہ صرف ان کے راہِ سلوک کے مسافر ہیں بلکہ دیسی مواد سے عمارتیں بنانے کے ماہر بھی ہیں۔ وہ واقعی ممتاز ہیں۔ اپنے ہاتھ سے بنائے نقشوں کی آڑھی ترچھی لکیروں میں ان کے ہاتھ کی برکت بھی شامل تھی۔ رنگ اور روغن بھی دیہاتی نوع کے ہیں۔ جب تک کسی کو بتایا نہ جائے‘ کوئی نہیں پہچان سکتا کہ اس حویلی کی دیواریں مٹی کی بنی ہوئی ہیں۔ مالٹوں کے سرسبز باغ کے اندر حویلی اور مہمان خانے کا نارنجی نما رنگ وہاں بیٹھ کر مطالعۂ کتب کو عجیب کیفیت سے آشنا کردیتا ہے۔
منگل کو صبح آٹھ بجے اعجاز اکرم اور ہماری ایک طالبہ کا پیغام آیا کہ وہ خالقِ کائنات کے حضور پیش ہوگئے ہیں۔ جنازے سے قبل اُسی برآمدے کے کونے میں پڑے صوفوں پر پروفیسر معین نظامی اور پروفیسر باسط کوشل صاحب کے ساتھ کچھ دیگر بیٹھا تو بہت کچھ میرے دل و دماغ پر گزر گیا۔ احساس ہوا کہ نظریں تو باغ اور رنگ دار مالٹوں پر ہیں مگر جسم اور روح کسی اور دنیا میں محو پرواز ہیں۔ نہ جانے اس کچھ دیر کی خاموشی میں کتنے طوفان دل میں اٹھے اور گزر گئے۔ اعجاز کو بہت جلدی تھی۔ بے چین روح تھے۔ مضبوط ارادوں اور مرضی کے مالک تھے۔ دس سال تک ہم رفیق‘ ہم کار اور دفتری ہمسایہ رہے۔ انہیں بہت روکا کہ اسلام آباد کے اداروں میں کسی کو دائمیت نہیں ملتی۔ ویسے کہیں بھی نہیں مگر وہاں جو اکھاڑ پچھاڑ ہے‘ وہاں ایک درویش صفت انسان بھلا کیسے ٹک سکے گا۔ آخر وہی ہوا جس کا مجھے خدشہ تھا۔ یہاں نہ سہی مگر اہلِ علم لوگوں کی دنیا میں تو قدر ہے۔ چین کی چند جامعات انہیں لیکچرز کے لیے اکثر مدعو کرتیں۔ وہ اپنے ڈیرے کی لائبریری سے کئی سالوں سے زُوم پر چین میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ خوش اور مطمئن تھے اور اپنے خوابوں کی دنیا میں جنت بسائے ہوئے تھے۔ ملنے کے لیے کئی بار گیا تو رشک آتا کہ کاش ہم بھی اپنے ادھورے خوابوں کی تکمیل کر پاتے۔
اسلامی فلسفے اور صوفی ازم کے حوالے سے ان کی شہرت مغرب اور ہمارے ملک کے علمی حلقوں میں بہت وسیع تھی۔ عمران خان صاحب نے رحمت للعالمینﷺ اتھارٹی بنائی تو اس کی سربراہی کا اعزاز اعجاز اکرم کو ملا۔ چند ہی ہفتے انہیں ملے اور اس دوران اس علم کے دنیا کے چیدہ چیدہ سکالرز کو اکٹھا کرکے مشاورتی کونسل کا رکن بنایا اور ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ خوشی ہوئی کہ جدید معلم کی عزت افزائی ہوئی لیکن اندیشوں کا طوفان بھی اٹھا کہ ان علوم کے روایتی ٹھیکے دار انہیں کب تک برداشت کریں گے۔ چند ہی ماہ بعد وہ اپنے ٹھکانے پر تدریس کی سرگرمیوں میں دوبارہ مصروف ہوگئے۔ اس دوران بہت کچھ دیکھا اور سنا۔ بہت تکلیف ہوئی۔ ایسا لگتا تھا جیسے اعجاز اکرم کے لیے دنیا میں ہی روزِ حساب برپا کر دیا گیا ہے۔ معین نظامی صاحب کے ٹویٹ سے نقل کرنے کی اجازت چاہوں گا: ''اعجاز‘ تم گاؤں میں پرنس کہلاتے تھے۔ تم تھے تو پرنس ہی۔ شکل و صورت کے بھی‘ دل کے بھی‘ علم کے بھی‘ انسانیت کے بھی۔ تم بہت بہت ستائے گئے‘ ہر بات سیدھی دل میں آتی رہی‘‘۔ یقین نہیں آتا تھا کہ سامنے اعجاز کی میت پڑی ہے اور پروفیسر باسط کوشل کی امامت میں نماز جنازہ میں شریک ہوں۔ یہ ان دکھوں میں سے ہے جن کی تفصیل لکھنے کا حوصلہ نہیں۔ اللہ اُنہیں جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں