افغانستان کی قسمت کے ستارے نہ جانے کب سے گردش میں ہیں۔ آپ اس ملک کے حالات‘ جنگوں‘ ہجرت‘ خطرناک نظریات‘ خوفناک گروپوں اور طالبان کی حکومت اور موجودہ حالات کے بارے میں پڑھتے رہتے ہیں۔ ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ پاکستان کے استحکام‘ امن و سلامتی کی تباہی‘ معیشت کی زبوں حالی اور دہشت گردی کے ذمہ دار بھی وہی ہیں جو ڈیورنڈ لائن کے اُس پار رہتے ہیں۔ ایسی باتیں آج سے نہیں‘ شروع سے ہی کی جارہی ہیں۔ اسی لیے تعلقات کسی پختہ بنیاد پر استوار نہ ہو سکے۔ روزانہ اخبارات میں اداریوں پر اداریے اور مضامین پر مضامین لکھے جارہے ہیں کہ ہماری کھاد‘ بیج‘ گندم اور حق حلال کی کمائی کے ڈالر افغانستان سمگل ہورہے ہیں۔ کچھ جماعتوں اور گروہوں نے تو یہاں افغان مہاجرین کے خلاف باقاعدہ مہم چلا رکھی ہے کہ یہ ہمارے ملک میں کیوں بس رہے ہیں‘ انہیں فوراً یہاں سے نکال باہر کیا جائے۔ اور جو عوامی سطح پر اور اشراف کی مجلسوں میں کہا جاتا ہے‘ وہ بیان کرنے کے قابل نہیں۔ آج کل دنیا میں‘ افغان بچیوں کی تعلیم کے دروازے جو طالبان حکومت نے بند کردیے ہیں‘ کا بہت شور ہے۔ اس میں اس درویش کی آواز بھی شامل ہے۔ بہت پریشان کن صورتحال ہے۔ یہ قدم انہوں نے کیوں اٹھایا اور اب انہیں کیسے مائل یا قائل کیا جائے کہ سکولوں پر پڑے ہوئے تالوں کی چابی گھمائیں اور یہ ویرانیاں ختم ہوں اور بچیوں کا بنیادی حق انہیں مل سکے۔ ساری دنیا کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ یہ تمام انحراف‘ حالات کا بگاڑ اور آج کی صورتحال پر تبصرہ یا تنقید اس ملک کو سمجھے بغیر ایسے ہی ہے جیسے آپ سمندر سے مچھلی پکڑنا چاہتے ہوں مگر جال ہوا میں گھما رہے ہوں۔
دنیا کے ایک بڑے ادارے میں مقرر ہمارے عزت مآب سفیر کبیر نے افغانستان میں بچیوں اور خواتین پر پابندیوں کو ان کا ثقافتی مسئلہ قرار دیا تھا تو دنیا کے کچھ سیاسی اور دانشور طبقوں میں جو طوفان اٹھا‘ وہ تو خیر تھم گیا مگر ہمارے دل میں اٹھنے والا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ بات نہ مذہب کی ہے اور نہ ہی ثقافت کی‘ یہ ریاست کی صلاحیت اور استعداد اور اس وقت کے حکمرانوں کی ترجیحات کی ہے۔ معاشرے تو اپنی فطری رفتار سے دیکھا‘ دیکھی اور کہیں ایک روشنی کا چراغ جلا تو اس سے کچھ مزید چراغوں کے جلنے سے آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ ایسے روایتی معاشروں کی ترقی کی رفتار سست رہتی ہے۔ یہی حال کبھی مغرب کا تھا۔ انگریزوں کے یہاں قدم جمانے سے پہلے ہم بھی ایسے ہی تھے۔ نئے علوم اور ترقی کا عمل تاریخ میں ایک ساتھ چلے اور چل رہے ہیں۔ ترقی جدید علوم کی ہی مرہونِ منت ہے۔ اس کی تاریخ دلچسپ اور طویل ہے جس کا ابھی صرف ذکر ہی کر سکتے ہیں۔ ہم انگریزوں کے تسلط میں آئے تو انہوں نے اپنی نوآبادیاتی ریاست تعمیر کرنے کی غرض سے ہر میدان میں تبدیلیوں کا آغاز کیا۔ افغانستان کے حکمران بھی اس سے متاثر ہوئے۔ انیسویں صدی میں دو جنگوں کے نتیجے میں انہوں نے بھی جدید ریاست کی تعمیر شروع کردی۔ ادارے بنائے‘ ملک کو متحد کیا‘ اقتدار کی مرکزیت قائم کی۔ اس سلسلے میں امیر عبدالرحمن خان کا نام قابلِ ذکر ہے۔ افغانستان کی شمالی اور ہمارے ساتھ سرحدیں بھی ان کے دور میں معاہدوں کے ذریعے قائم ہوئیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پنجاب ریاست نے جب شمال مغرب کی طرف پھیلنا شروع کیا تو افغانستان کی درانی ریاست بکھر چکی تھی۔ آج سے دو سو سال پہلے‘ 1823ء میں سکھوں نے دریائے اٹک کے اُس پار‘ سب علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ پشاور کے افغان سردار مہاراجہ کے اب باج گزار بن چکے تھے۔ بعد میں پشاور پر بھی قبضہ کرکے ان کو بے دخل کردیا گیا۔ یہ تاریخی حوالہ اس لیے ضروری ہے کہ افغانوں کی تاریخی‘ ثقافتی اور قومی اکائی کو بزورِ شمشیر پہلے پنجابی سکھوں نے توڑا اور بعد میں انگریزوں نے سرحد قائم کرکے پکی مہر لگا دی۔ ہم اس کے وارث ہیں۔ قانونی اور سیاسی‘ اور اب تو باڑ لگا کر اور بھی پختہ کر لیا ہے۔ جو حالات اس ملک میں ہماری وجہ سے پیدا ہوئے ہیں‘ اس کے نتائج اب ہم دہشت گردی کی صورت اپنی سرزمین پر بھی بھگت رہے ہیں۔ ہم اپنے زخم تو گنتے رہتے ہیں مگر ہمیں افغانوں کے زخم دیکھنے کی توفیق نہیں۔ وہ بجا طور پر ہم سے ناراض ہیں۔ اس ناراضی کا جو بھی جواز ڈھونڈیں‘ کتنی ہی فصیح و بلیغ زبان استعمال کریں‘ قومی سلامتی کی کتنی ہی پُرمغز دلیلیں دیں‘ افغانوں کی انگلیاں ہماری ہی طرف اٹھتی ہیں۔
افغانستان کی ریاست کو جدید اور فعال بنانے کا عمل تو انیسویں صدی کے آخری ربع میں شروع ہوگیا تھا مگر معاشرے کو نئی تعلیم اور نئے اداروں کے ذریعے تربیت دینے کا عمل پہلے امیر حبیب اللہ اور پھر ان کے بعد امیر امان اللہ خان نے شروع کیا۔ کابل میں جدید ہائی سکول 1903ء میں قائم ہوا۔ دیگر شہروں میں بھی یہ سلسلہ چل نکلا۔ یہ عمل کسی نہ کسی صورت میں گزشتہ صدی سے‘ جب پشاور اور ہمارے دیگر علاقوں میں نئے تعلیمی ادارے کھل رہے تھے‘ تو وہاں بھی شروع ہو چکا تھا۔ کسی بھی افغان کے لیے تب کے برطانوی ہندوستان میں کہیں بھی تعلیم حاصل کرنے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ امان اللہ خان نے جن معاشرتی تبدیلیوں کا اعلان کیا ‘وہ اس وقت کے اعتبار سے انقلابی تھا۔ بچیوں کی تعلیم‘ جو آج ایک مسئلہ بنا ہوا ہے‘ پر نہ صرف زور دیا بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں سکول کھولے جہاں پرائمری تک بچے اور بچیاں ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ عورتوں کے پردے کی قانونی حیثیت ختم کردی اور کثرتِ ازدواج پر پابندی لگائی۔ ایک اور بات‘ شناختی کارڈ‘ جو اب ہمارے ہاں ناگزیر ہو چکا ہے‘ کا آغاز بھی انہوں نے کیا مگر تب وہ فوجیوں اور سرکاری ملازمین پر ہی لاگو ہوتا تھا۔
دو بنیادی مسائل افغانستان کی تاریخ میں رہے ہیں۔ حکمران اور غیرسیاسی گھرانوں میں اقتدار کی جنگیں اور حریفوں کو نیچا دکھانے کے لیے بیرونی طاقتوں سے اعانت طلب کرنا۔ باقی سب حالات و واقعات کا نتیجہ ہیں‘ سبب نہیں۔ بنیادی فساد اقتدار کے پُرامن انتقال کی روایت نہ بن پانے سے شروع ہوتا ہے۔ یہ کھیل نہ صرف درانی سلطنت کے دو دھڑوں نے کھیلا بلکہ اشتراکی انقلابی ہوں یا مجاہدین کے دھڑے ہوں یا وہ گروہ جنہیں امریکہ نے ایک نئی ریاست اور قوم بنانے کے تصور میں تختِ کابل پر بٹھائے رکھا اور بیس سال تک جنگ لڑی تاکہ یہاں امن اور استحکام قائم ہو۔ یہ کوئی مؤثر نظام بنانے میں کامیاب نہ ہوئے۔ ایک قدر سب میں مشترک ہے کہ وہ ریاست پر قبضہ کرکے اپنے مخصوص تصورات کا افغانستان تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ اس میں ہمارے حکمرانوں کی طرح اپنے محلات بھی شامل ہیں۔ لڑائیوں میں ریاست تباہ ہوگئی۔ ریاست اگر ایک بار گر جائے یا گرا دی جائے تو اس کا دوبارہ کھڑا ہونا بہت محال ہوتا ہے۔ بالکل یہی کھیل ایک عرصہ سے ڈیورنڈ لائن کے اِس پار بھی کھیلا جارہا ہے۔ مسائل وہی تین ہیں: کمزور ہوتی ہوئی ریاستی استعداد‘ حکمرانوں کی نصف صدی سے جاری لڑائیاں اور جمہوری طریقے سے پُرامن انتقالِ اقتدار کے جھگڑے‘ جنہوں نے تیزی سے پھیلتی ہوئی آبادی کے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ممکن ہے کہ ہم قدرت کا انتقام دیکھ رہے ہوں۔ جو کچھ ہم نے افغانوں کے ساتھ کیا‘ وہ اب ہمیں خود درپیش ہے۔ خیر‘ خود کلامی کی ہمیں عادت سی پڑ چکی ہے۔