"RBC" (space) message & send to 7575

ہر سُکھ

درویشوں کے دلوں سے ہر ایک کے لیے بلاتفریق دعائیں ہی نکلتی ہیں کہ سب سلامت رہیں‘ خوش رہیں‘ علم و حکمت اور فیض کے پھول سب پر نچھاور ہوں۔ دعا تو نیت‘ التجا‘ قلبی خواہش‘ عاجزی اور بندگی کی علامت ہے۔ یہ دلوں میں بس جائے تو عملی اقدامات کرنے کی حرکت تیز تر اور راستے کی سب رکاوٹیں خود بخود ختم ہو جاتی ہیں۔ کئی ایک ایسے مشاہدے نصیب ہوئے۔ اس وقت صرف ''ہر سُکھ‘‘ کی بات کروں گا۔ اس کا مطلب ہر ایک کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔ خصوصاً ان کے لیے جنہیں ہم پسماندہ طبقات‘ غریب‘ مزدور پیشہ اور دیہاڑی دار کہتے ہیں۔ علمِ سماجیات کا کوئی بھی طالب علم معاشی اور معاشرتی ناہمواریوں کو کسی فرد یا گھرانے کی کمزوری یا ان میں کوئی کمی خیال نہیں کرتا۔ یہ رائج الوقت نظام کی خرابیوں کی وجہ سے ہے کہ جن کے پاس وسائل ہیں‘ دھن‘ دولت‘ اعلیٰ مقام اور طاقت ہے‘ وہ زندگی کی دوڑ میں حتی الامکان آگے ہیں۔ اس کی ابتدا تو تعلیمی اداروں سے ہوتی ہے کہ انسانوں کی فطری صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور جلا بخشنے کا عمل درسگاہوں سے شروع ہوتا ہے۔ سامراجی دور سے ہمارے ہاں غریب اور امیر آبادیوں کے لیے سکولوں‘ نصاب اور معیار میں واضح فرق رکھا گیا۔ حکمرانوں کی تعلیم و تربیت اور ثقافت انگریزی حکومت سے وفاداری اور تابعداری کے تقاضوں سے ہم آہنگ تھی۔ زور کالے انگریز پیدا کرنے پر تھا۔ زبان‘ آداب‘ اخلاق اور رہن سہن کو سامراجیت کا ایسا رنگ دینا مقصود تھا کہ کبھی اتر نہ سکے‘ اور بے رنگے دیسی انگریز اسے اپنی ذہنی ساخت اور شخصیت کا حصہ بنا لیں۔ لوگ درست ہی تو کہتے ہیں کہ انگریز تو کب کا یہاں سے رخصت ہو چکا لیکن اس نے اپنی باقیات ایسی مضبوط صورت میں چھوڑی ہیں کہ کہیں جانے کا نام نہیں لے رہیں۔
ہمارا طبقاتی نظامِ تعلیم سامراج کی میراث ہے جسے ہم دل سے لگائے بیٹھے ہیں۔ حکمرانوں کی حاکمیت‘ غلبے اور طاقت میں تسلسل کی ضمانت ہی نظام فراہم کررہا ہے تو اس میں تبدیلی کیونکر ممکن ہو۔ ہم نے دیکھ لیا ہے کہ غلامی کی فکری زنجیریں ہمیں اتنی راس ہیں کہ کوئی توڑنے کی فکر کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بعد از نو آبادیاتی معاشروں کے مفکرین اور دانشوروں کی کوشش رہی ہے کہ سیاسی آزادی کے ساتھ ہمیں فکری آزادی بھی حاصل ہو۔ اس کی ابتدا یہ نکتہ ہے کہ سامراجیت کے ان پہلوئوں کو اجاگر کیا جائے جس سے ہماری زبانیں‘ ثقافتیں‘ تاریخ‘ علمی ورثہ اور دیسی تہذیب مسخ ہوئیں۔ اگر کسی کا اپنی ثقافت سے اعتبار ختم ہو چکا ہے اور وہ ابھی تک انگریزی عینک سے ماضی کو دیکھتا ہے تو شاید یہ فکری استعداد پیدا نہ ہو سکے کہ وہ مغربی تہذیب کو عالمگیر حقیقت اور فلسفۂ حیات کو تنقیدی نظر سے دیکھ پائے۔ ہم تو دانش گاہوں کی نصف صدی تک اسیری میں جو کچھ سیکھ پائے‘ وہ یہ ہے کہ سماجی علوم میں معروضیت تلاش کرنا ایک سراب ہے۔ اس لیے ہر مذہب‘ ثقافت اور تہذیب کی سچائی کا اپنا معیارہے اور وہ جو فطرت کی ترقی کو پیمانہ بنا کر مشرقی اور افریقی اور لاطینی امریکہ کے معاشروں کو ناپتے ہیں‘ وہ ناانصافی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ہمارے قبیلے کے کچھ انقلابی تو اسے سامراجی ظلم بھی کہتے ہیں۔ ہمارے ہمسایہ ممالک میں اس حوالے سے اپنے گم گشتہ ماضی کو دوبارہ زندہ کرنے‘ غلامی کی آلائشیں صاف کرنے اور اسے اپنی ذاتوں میں پیش کرنے کے سلسلے میں بہت کام ہوا جب خالص چیز کا اپنا فطری رنگ نکھرتا ہے تو اس پر زبردستی چڑھایا ہوا رنگ بہت بھدا لگتا ہے۔
فطری رنگ تو پھر اس صورت نکلے گا جب ہم جعلی ملمع کاری کی کارستانیوں کو سمجھ پائیں گے۔ اس لیے تو کھلا ذہن ضروری ہے جس کے بغیر ہماری تخلیقی قوتیں گھٹ کر دم توڑ جاتی ہیں۔ ہمارے نظام تعلیم کے تینوں دھارے انگریزی‘ اردو اور اسلامی روایت پر کتنے استوار ہیں؟ سب میں ایک مقرر‘ مرتب اور محدود نصاب ہے۔ ان کے تنگ دائروں میں رہ کر علم پیدا نہیں ہوتا‘ بانٹا جاتا ہے اور سندیں ہاتھوں میں تھما دی جاتی ہیں۔ کم از کم دانش گاہ کی حد تک نصاب کی جکڑ بندی ڈھیلی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ انحصار اس بات پر ہے کہ ہم نئے آنے والوں کو تلاشِ ذات کے سفر سے گزارتے ہیں یا ان کے ذہنوں پر اپنے من پسند رنگوں کا برش پھیرتے ہیں۔ اس درویش نے امریکہ اور برطانیہ کے سکولوں میں چھوٹے بچوں کو روزِ اوّل سے ہی خود آگاہی کے عمل سے گزرتے دیکھا ہے۔ خواہش رہی کہ وطن عزیز میں بھی کہیں ایسا ہو۔ چند سال پہلے ''ہر سُکھ‘‘ دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ یہ جگہ لاہور کے مضافات میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان‘ جواد ایس خواجہ صاحب کا مسکن اور کئی ذاتوں میں لپٹی ہوئی روشنیوں کا مظہر ہے۔ اس وقت حویلی کے ایک حصے میں ارد گرد کے دیہات اور گھروں میں کام کرنے والے ملازموں کے لیے ایک ''ہر سُکھ‘‘ سکول قائم ہو چکا تھا۔ خواجہ صاحب بذاتِ خود‘ اہلِ خانہ اور لمز کے کچھ اساتذہ اور طالب علم رضاکارانہ طور پر بچوں کو پڑھاتے رہے ہیں۔ ابتدائی برسوں کے لیے اس اعلیٰ معیار کے اساتذہ کہیں اور نہیں دیکھے۔ ان کی مقناطیسی شخصیت کا اثر ہے کہ ہر علم و فن کے ماہر وہاں وقتاً فوقتاً درس دینے کے لیے حاضر ہو جاتے ہیں۔ وہاں کوئی روایتی نصاب نہیں‘ کسی زبان کی پابندی نہیں اور داخلہ لینے کے لیے بھی کوئی معیار مقرر نہیں۔ اپنے بچوں کے بچوں کو بھاری بھرکم فیس لینے والے انگریزی سکولوں سے نکال کر ''ہر سُکھ‘‘ میں ابتدائی برسوں میں ہی لے آئے تھے۔ یہاں امیر غریب کا فرق بھی آپ کو نظر نہیں آئے گا۔
گزشتہ سوموار کو چند گھنٹے سکول کی نئی عالی شان عمارت میں بچوں کے ساتھ گزارے اور کلاس روم کے اندر جا کر درس و تدریس کو جاری دیکھا تو روایتی نصاب کا خود تراشا ہوا بت پاش پاش ہونے لگا۔ خود آگاہی‘ تخلیقی صلاحیتوں کی جلا اور خود اعتمادی کی روشنی کو ہر سو بکھرے دیکھا تو کچھ اپنے خوابوں کی تعبیر سامنے دکھائی دی۔ ایک کمرے میں بچوں کے بنے ہوئے پوسٹر‘ پینٹنگز دیکھ کر کسی پیشہ ور آرٹ گیلری کا گماں ہوتا تھا۔ ایک اور جگہ بچوں نے اپنے ہاتھ سے‘ اپنی پسند کے مٹی کے کھلونے بنا رکھے تھے۔ یہاں سب بچے کہانیاں‘ افسانے اور نظمیں لکھتے ہیں۔ شعر و شاعری کے مقابلے ہوتے ہیں۔ فنِ موسیقی اور رقص سے لے کر ہر نوع کے دفاعِ ذات کے لیے مارشل آرٹ کی تربیت نامور ماہرین آکر دیتے ہیں۔ میرے سامنے ہی لکڑی کے کام کی ایک مشہور کمپنی کے لوگ لکڑی کی ورک شاپ کا سامان مہیا کررہے تھے کہ اس فن کی بھی ترویج ہوگی۔ ''ہر سُکھ‘‘ پہلا سکول دیکھا ہے جہاں چار مختلف باورچی خانوں میں لاہور کے جانے مانے باورچی کھانا پکانے کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہاں اساتذہ کو یہ فلسفۂ تعلیم ازبر کرایا گیا ہے کہ بچوں کی فطری صلاحیتوں کا رنگ کیسے نکھارنا ہے‘ تلاش کی راہ پر کیسے گامزن کرنا ہے اور اچھا انسان بننے کی منزلیں کیسے طے کرنی ہیں ۔ ادھر اُدھر گھومتے پھرتے ایک معلمہ کو کہتے سنا کہ کوڑا کرکٹ ٹوکری میں ڈالنے کا صحیح طریقہ مجھے اب سمجھ میں آیا ہے۔ یہی بات ہماری روایتی تعلیم ابھی تک نہیں سکھا سکی۔ ادب‘ تربیت‘ سلیقہ‘ انسانیت اور محبت یہاں بٹتی دیکھی ہے تو گویا ہمارے خواب زندہ ہوگئے۔ یہاں سب کچھ ممکن ہے۔ سب کچھ ہو سکتا ہے۔ حضرت اقبال نے ایسے تو نہیں فرمایا تھا: ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘ مگر شرط یہ ہے کہ ہمارے گرو جواد ایس خواجہ کی درویشی موجزن ہو اور جذبۂ فیاضی کا رنگ ہر سو بکھر جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں