تقریباً ایک سال ہونے کو ہے ۔ اس دوران جو کچھ اس ملک‘ معاشرے اور معیشت کے ساتھ ہوا‘ ہماری تاریخ کے بدترین ادوار میں بھی کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ بہت سے بحران دیکھے‘ ملک کو دولخت ہوتے‘ آمروں کو آتے جاتے اور حکومتوں کو بنتے بگڑتے دیکھا لیکن جس انوکھے انداز میں تیرہ جماعتی اتحاد مسلط ہوا اور جس دھونس دھاندلی کے ساتھ وہ سب حکومت کررہے ہیں‘ شاید ہی اس کی کوئی مثال ملے۔ قوانین میں تبدیلیاں کرکے پرانے کھاتے ایسے بند کیے گئے کہ دنیا کا کوئی ماہر دھوبی اور طاقتور محلول بھی ایسی صفائی نہ کر سکے۔ اب تو نئے کھاتے کھول دیے گئے ہیں۔ چن چن کر ایسے لوگوں کو کماؤ اداروں میں لگا دیا گیا ہے کہ سب کی دیہاڑیاں لگی رہیں۔ جو سن رہے ہیں‘ دیکھ رہے ہیں اور جو اپنا مشاہدہ ہے‘ منظم طریقے سے لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ اب تو کسی افسر کے خلاف آپ شکایت بھی نہیں کر سکتے۔ کریں گے تو آپ کا جو جائز کام انہوں نے بے جا روک رکھا ہے‘ سمجھیں کہ جوتوں کے کئی جوڑوں کے تلوے گھس جائیں گے مگر وہ کام نہیں ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ کوئی سرکاری خط موصول ہوجائے گا کہ انکوائری ہورہی ہے اور آپ کو مطلع کردیا جائے گا۔ مبادا آپ سوچ رہے ہوں کہ میں سنی سنائی باتیں ضبطِ تحریر میں لا رہا ہوں تو ایسا ہر گز نہیں۔ یہ جو نوے دنوں کے اندر صرف انتخابا ت کرانے کے لیے پنجاب میں آئے تھے‘ آتے ہی راتوں رات پورے صوبے کی نوکر شاہی تبدیل کردی۔ فہرستیں تو اوپر والوں نے پہلے ہی بنا رکھی تھیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ کون‘ کیوں اور کہاں فٹ ہوا ہے۔ اتنا معلوم ہوا ہے کہ جائز سرکاری کاموں کے لیے بھی مٹھائی مقرر ہے اور بہت سی زبانیں اس کی حلاوت سے آشنا ہیں۔ ہر ضلع میں یہ سرکاری کاروبار کروڑوں میں ہر ماہ ہو رہا ہے۔ ہر محکمے میں نیچے سے لے کر اوپر تک حصے مقرر ہیں۔ یقینا یہ کوئی نئی بات نہیں مگر جس ڈھٹائی اور کھلم کھلا طریقے سے کرپشن کا بازار گزشتہ گیارہ ماہ سے گر م ہے‘ بزدار صاحب اور ان کے حواری شاید پچھتا رہے ہوں کہ وہ موقع سے صحیح فائدہ کیوں نہ اٹھا سکے۔
حالات اوپر سے خراب ہوتے ہیں۔ نیچے والے تو صرف فرمانبرداری کے لیے اپنی اپنی جگہوں پر بٹھائے جاتے ہیں۔ جو حکمرانی کی روایات طاقتور حلقے طے کرتے ہیں‘ وہی معاشرے کی اخلاقیات بنتی ہیں۔ تباہی‘ جو اس وقت ہم بے بسی سے دیکھ رہے ہیں‘ اس کے ذمہ دار وہی ہیں جو سب کچھ کر سکتے ہیں اور کرتے آئے ہیں۔ اب ہر چوک‘ محلے اور پھر یہ جو بے رحم اور بے لگام برقی لہریں ہیں‘ جوباتیں وہاں ہورہی ہیں‘ ہم تو اب نہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے ہیں۔ قانون ہی ایسے بنا دیے گئے ہیں۔ ویسے قانون کی ضرورت ہی کیا؟ جس کو پکڑنا ہو‘ جس کو مثال بنانا ہو‘ موجودہ دور میں سب کچھ ممکن ہے۔ کوئی پکڑا گیا ہے‘ کوئی مقدمہ کسی پر بنا ہے؟ وہی پرانے حربے جو بادشاہت میں ہوا کرتے تھے کہ معاشرے کے اندر اتنا رعب داب بٹھا دیں‘ خوف پھیلا دیں کہ لوگوں کی زبانیں گنگ ہو جائیں‘ کوئی آواز بلند کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچے۔ ایسے نظام چلانے کے لیے کرائے کے لوگوں کی خدمات درکار ہوتی ہیں تاکہ وہ حق بات کہنے والوں کی ساکھ مجروح کر دیں۔ انہیں ایسے رنگ میں مختلف زاویوں سے پیش کریں کہ عوام کا ان پر اعتماد ڈگمگا جائے۔ اور سیاسی مخالفین کے خلاف تو ہر حربہ جائز ہوگا۔ دیکھ نہیں رہے کہ جو میدان میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کوئی کھڑا ہے اور ڈٹ کر کھڑا ہے‘ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ ہر روز ایک نیا حکم جاری کیا جاتا ہے کہ ایسے کرنا ہے اور ویسے نہیں کرنا۔ جلسہ نہیں ہونا‘ جلوس نہیں نکالنا۔ مقدمے پہ مقدمہ ہو رہا ہے۔ ہر شہر میں صحافیوں پر بھی مقدمے ہیں کہ انہوں نے اس نظامِ حکومت کے خلاف کھل کر باتیں کرنا شروع کردی ہیں کہ حضور والا‘ جو آپ کررہے ہیں‘ یہ سب کولے ڈوبے گا۔ وہ سچ کہتے ہیں۔ دیکھ لیں‘ گیارہ مہینوں میں ہم ہر میدان میں گراوٹ کا شکار ہوئے ہیں۔ اب تو تہہ تک پہنچ چکے ہیں۔ تاریخ کے صفحات پلٹتے ہیں‘ کیا کریں‘ یہ تو ہمارا شغل بھی ہے اور پیشہ بھی‘ تو کئی طاقتور دانشمندوں کی دانشمندیاں آنکھوں کے سامنے سے گزر جاتی ہیں۔ حصولِ اقتدار اور اسے دوام دینے کی کیسی کیسی تدبیریں اختیار کیں اور کیسے اس ملک کی قسمت سے کھیلتے رہے۔ آج جس طرح ہرکارے اور سیاسی فرمان بردار بکثرت میسر ہیں‘ ان کی کمی تو کسی بھی دور میں نہیں رہی۔ اب تو تعداد گننے کی کوشش ذہن کو چکرا دیتی ہے۔ کتنی جماعتیں اکٹھی ہیں‘ دنیا کی سب سے بڑی کابینہ ہمارے اوپر مسلط ہے‘ سب کا ایک ہی کام ہے کہ ملکِ عزیز میں جو جرأت و بہادری کے ساتھ طاقت کے پرانے کاروبار کے خلاف عوام کو میدان میں لے آیا‘ اسے خاموش کیسے کرایا جائے۔
ایک ہی تو اس وقت ملک کا مسئلہ ہے کہ عمران خان کی سیاست کو کیسے ختم کیا جائے۔ کیا سمجھائیں کہ عوامی جذبوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے اور جس کے لیے جن جماعتوں اور ہرکاروں کا انتخاب ہوا ہے‘ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ عوام کی آواز بھی کبھی دبی ہے؟ لیکن شاید ہمارے حکمرانوں کی ماضی میں رہنے کی عادت راسخ ہو چکی ہے۔ 'سب ٹھیک ہے‘ کی رپورٹیں زمینی حقائق کو تبدیل نہیں کر سکتیں۔ آنکھیں بند کرنے سے کبھی حالات تبدیل نہیں ہوتے۔ آخری حد تک انہوں نے انتخابات کو رکوانے کی کوشش کی‘ اور اب بھی یہ کہتے نہیں تھکتے کہ انتخابات ملک کے مسائل کا حل نہیں۔ اس پر کیا تبصرہ کریں‘ کیا کہیں؟ نوشتۂ دیوار سے ڈر اتنا لگنا شروع ہو جائے کہ شاید تمنا یہ ہو جائے کہ جمہوریت نہیں‘ موروثی سیاست کو بچانے کا کوئی طریقہ تلاش کریں۔
اس وقت تو تضاد کھل کر سامنے آگیا ہے۔ ایک طرف کپتان اور پاکستان کے عوام کی بھاری تعداد ہے اور دوسری طرف تیرہ روایتی جماعتیں اور ان کے حامی ہیں۔ اس لحاظ سے دو ہی بڑی جماعتیں میدان میں ہیں۔ انتخابات ناگزیر ہیں اور فیصلہ آئین اور جمہوریت کے مطابق ہو تو ملک میں طاقت کا توازن شاید ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو جائے۔ اب وقت آگیا ہے کہ یہ توازن فطری ہو۔ اس کو مصنوعی سہاروں سے چلانے اور برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی تو یہ تضاد مزید بڑھے گا اور اس کا نقصان کسی ایک طرف محدود نہیں رہے گا۔ ملک اور ریاستی اداروں کا نقصان‘ جو پہلے بھی بہت ہو چکا‘ اس سے پرانی طرز کے عقلمندوں پر سے اعتبار اٹھ رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اعتبار کبھی بھی نہیں تھا‘ بس خاموشی کو عافیت گردانتے تھے۔ مگر اب اتنا کچھ دیکھنے کے بعد بھی عرض گزاری نہ کریں تو کیا کریں۔ امید ہے کہ آپ سب لوگ ان باتوں کو فضول سمجھیں گے۔ ہم تو پہلے ہی سمجھتے ہیں۔ آئین‘ قانون کی حکمرانی‘ عوامی حاکمیت ہو یا آزاد‘ شفاف انتخابات‘ اس کی ہمیں کیا ضرورت ہے‘ اگر کپتان ہی ملک کا واحد لیڈر اور اس کی جماعت سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آنی ہے؟ ہماری روایت تو یہ ہے کہ انتخابات کا مقصد مثبت نتائج ہوتے ہیں اور اس نیک مقصد کے لیے تیرہ جماعتیں وزیر‘ مشیر اور ہزاروں کارندے آخر کس کام کے لیے ہیں۔ ہمیں تو فضول باتوں کی عادت ہے۔ آپ ان پر کان نہ دھریں۔