ہم گزرے ہوئے زمانوں کے لوگ بہت کچھ ہوتا دیکھ چکے۔ کئی ادوار گزرے مگر مناظر میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئی۔ لاٹھیاں اور گولیاں چلانے والے تو وہی ہیں مگر جن سروں پر وہ برس رہی ہیں اور جو سینے چاک ہو رہے ہیں‘ وہ اب نئی نسل کے لوگ ہیں۔ اس نظام کے خلاف پہلی تحریک پتا نہیں جمہوری تھی یا نہیں۔ ہم اس وقت کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ تھے اور بس اس کی رو میں بہہ گئے تھے۔ اٹھاون برس پہلے کی بات ہے۔ بھارت کے ساتھ جنگ ہوئی‘ تاشقند معاہدہ ہوا‘ ایوب خان حکومت کے پائوں لڑکھڑانے لگے تو ملک گیر تحریکوں کا آغاز ہوجن کا مقصد ملک میں جمہوریت قائم کرنا تھا۔ اس کی شروعات طلبہ نے کی۔ سیاسی جماعتوں کو کچھ حوصلہ ہوا اور پھر سب اپنے رنگ برنگے جھنڈے اُٹھا کر میدان میں آگئے۔ ایوب سرکار کی پہلی گولی ملتان میں چلی اور ایک خاندان کا اکلوتا بیٹا‘ جودت کامران شہید ہوا۔ اس دن ہمارا نعرہ تھا: ''لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی‘‘۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے خون سے رنگی تحریک اور ہمارے نعروں پر قبضہ اس طبقے ہی نے کرلیا جو خود ایوب خان کی خدمت گزاری دس سال سے کررہے تھے۔ سیاسی موسم خود سے تبدیل نہیں ہوا‘ طلبہ کی سیاسی بیداری نے یہ کرشمہ کردکھایا تھا۔ یہ درویش کئی بار ایسے جلسے جلوسوں میں شامل ہوا جن میں ہر روز تقاریر ہوتیں‘ خون گرمانے کے لیے کوئی شاعر اچانک نمودار ہوا کر سکوٹر پر کھڑا ہوکر سیاسی نظمیں گاتا‘ نعرے لگتے اور ایک دو گھنٹوں کے بعد ہم اپنی کلاسوں میں چلے جاتے ۔
جامعہ پنجاب میں کئی مرتبہ سیاسی جماعتوں کے جلوسوں میں بھی شرکت کی۔ وہاں بھی کوئی پُرتشدد کارروائی نظر نہ آئی۔کسی جگہ ایسا ماحول نہ تھا۔ طلبہ کی صفوں میں کبھی کبھار کوئی اجنبی تصادم کی صورت میں اچانک کہیں سے گھس آتے اور ہاتھا پائی ہوجاتی۔ ایک دوسرے پر اینٹیں برسانے لگتے۔ یہ مناظر میں نے جامعہ پنجاب میں دیکھے۔ پہلے ہی ایسے واقعے کے بعد ہم نے طلبہ کے جلسوں میں جانے سے ہمیشہ کے لیے توبہ کرلی۔ تشدد انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ مجھے تو آج تک سمجھ نہیں آئی کہ انسانوں کی عزتِ نفس‘ جان اور سرکاری اورنجی املاک کو نقصان پہنچا کر آخر کوئی کون سا بڑا مقصد حاصل کرسکا ہے۔ ہم تو ایک مدت سے عدم تشدد کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔ اور اس ضمن میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اپنی جامعہ میں عدم تشدد کی تھیوری اور ایسی تحریکوں پر کئی برسوں تک ایک کورس پڑھاتا رہا ہوں۔ جدید فلاسفرز میں سے روس کے کروپاٹکن‘ امریکہ کے ہنری تھورو‘ مارٹن لوتھر کنگ‘ بھارت کے مہاتما گاندھی‘ جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلااور پاکستان کے عبدالغفار خان کے نظریات اور عملی زندگی ہمیں سیاست کی حقیقی روح سے آشنا کرتے ہیں۔ یہ تذکرہ اس لیے کر ڈالا کہ عالمی جنگوں‘ داخلی لڑائیوں اور معاشروں میں فساد اور تشدد کے متوازی عدم تشدد کی تحریکیں بھی چلتی رہی ہیں۔
تمہیدہمیشہ کی طرح طویل ہوگئی۔ کہاں ہماری پُر امن جمہوری جدوجہد کا آغاز اور کہاں آج کی صورتحال۔ زمین آسمان کا فرق ہے۔ تشدد نے ہمارے معاشرے کی صورت ہی بگاڑ دی ہے۔ اس کا نقطۂ آغاز انتہا پسندی ہے کہ مخالف نقطۂ نظر کے حامل کئی گروہ پیدا ہوچکے ہیں۔ کسی پر تہمت باندھنا‘ الزام لگانااور خود فتویٰ جاری کرنا‘ حملے کرنا اتنا آسان ہے جتنا گلی کے کونے پر کھڑے چائے کا ایک کپ نوش کرنا۔ اس بارے میں کچھ زیادہ لکھنے کی ہمت اب نہیں رہی۔ پہلے ہی گوشہ نشین ہیں۔ کچھ برس پہلے جب کھل کر بات کرنے کی ہمت تھی تو ایک دہشت گرد تنظیم کے کارندوں نے مختلف اوقات میں دو محبت نامے ارسال کیے جو لفافوں سمیت ہم نے اپنی بد عمالیوں کی پاداش میں تحفہ سمجھ کر سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔ اب ایک نہیں‘ کئی ایسے گروہ ہر جگہ موجود ہیں۔ ہم تو بہت کمزور لوگ ہیں۔ محفوظ وہ بھی نہیں رہے جو خود کو طاقتور خیال کرتے ہیں۔ جنگل میں لگی آگ کسی درخت‘ جھاڑی‘ پرندے اور کیڑے مکوڑے کو کہاں بخشتی ہے۔
نومئی کے واقعات نے ایک بار پھر ہماری روح کو‘ کمزور جسم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ جس انداز میں عمران خان کی گرفتاری عمل میں آئی‘وہ غیر متوقع اور غیر معمولی تھا۔ ایک آدمی کی گرفتار کے لیے درجنوں اہلکار وں کی کیا ضرورت تھی ؟ گرفتاری پُرامن انداز میں بھی ہوسکتی تھی۔ افسوس کہ ہمارے حکمران صرف لاٹھی‘ گولی اور دولت کی طاقت استعمال کرکے معاشرے میں وہ رویے فروغ دیتے رہے ہیں جن کے بھیانک نتائج ہم دیکھ رہے ہیں۔ اخلاقی طاقت اب اخلاقی نہیں رہی۔ اسے کمزوری‘ معذوری اور بے بسی تصور کیا جاتا ہے۔ نفرتوں کے اس دور میں اور انتقام کے بلند ہوتے نعروں میں صبرکی توقع رکھنا‘ ویران صحراؤں میں تازہ پانی کی نہریں بہانے کی خیالی باتیں ہیں۔ ریاست پر قابض حکمرانوں کی اخلاقی اور قانونی اتھارٹی کمزور ہو تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہونا لازم ہے۔ جو بربادی ہم اس ملک میں دیکھ رہے ہیں‘ اس کے ذمہ دار حکمران ہیں۔ آج کے اور ماضی کے ادوارکے۔ ان میں کون شامل ہے‘ کون نہیں‘ اس بارے میں آپ جانبدار ہوں تو کسی ایک کانام لے لیں۔ ہمارے سرائیکی وسیب کے ایک ہی وزیر اعظم رہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ ''ہم سب اکٹھے جائیں گے‘‘۔ آپ کو یاد ہی ہوگا۔ سب تو نہیں‘ وہ بیچارے اکیلے ہی گئے تھے مگر بات اس کے بالکل الٹی ہے۔ اور وہ یہ کہ ہم سب اکٹھے رہیں گے۔ سب کی موجیں ہوں تو کس کو پڑی ہے کہ ملک میں کوئی سدھار پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
تنائو‘ تصادم اور تشدد اب تو ہماری قومی شناخت بن چکے ہیں۔ا ن سے نکلنے کے لیے بھی سیاسی فریق تیار نہیں۔ ہمارے سکولوں میں بیت بازی کے مقابلے ہوتے تھے۔ دو گروپ بن جاتے۔ ایک دوسرے کے مقابلے پر شعر کے آخری حرف سے جواباً شعر پڑھتے۔ اچھے سے اچھا شعر پڑھنے کی کوشش ہوتی۔ علم اورادبی ذوق کی آبیاری ہوتی۔ اس کے برعکس ہم اب تصادم اور نفرت کی مسابقت میں شریک ہیں۔ مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو ایک صف میں کھڑے کرکے اگر بس چلے تو انہیں ختم کرکے میدان صرف اپنے لیے صاف کرلیں۔ یہ پکڑ دھکڑاور سیاسی رہنماؤں کی تذلیل اوران پر تشدد کسی نئی سیاسی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔ لاٹھی اور گولی جب چلتی رہے تو پھر سروں اور سینوں کی تمیز بھی ختم ہوتی جاتی ہے۔ ضرورت دونوں جانب ہوش‘ عقلمندی اور برداشت کی ہے۔ بات چیت اب بھی ہوسکتی ہے۔ معاملات مزید خراب کرنے سے بچاجاسکتا ہے۔ سیاسی حریف اور دہشت گردی میں فرق رکھیں۔ خیال آتا ہے کہ سارے مسائل زبان کے ہیں۔ غصے‘ نفرت اور نرگسیت اتنا زور پکڑ لیتی ہے کہ زبان پر قابو نہیں رہتا۔ الفاظ کی کاٹ اور گھائو لاٹھیوں اور گولیوں سے زیادہ گہرے ہوتے ہیں۔ عقل و فہم سے ذرا کام لیں تو سب کے سر محفوظ رہیں گے۔ ہمارا سر آپ کی لاٹھی کے لیے حاضر ہے۔