ہم بہت کمزور دل ہیں۔ حوصلہ تو کبھی نہیں ہارا‘ مگر راستہ بدل لیتے ہیں۔ مقابلہ کرتے نہیں‘ نہ کبھی سکت تھی۔ دوسروں کی جیت تسلیم کر لیتے ہیں۔ مبارکباد بھی گرم جوشی سے پیش کرتے ہیں۔ یہ کہنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا کہ خوش رہو۔ موجودہ نظامِ جمہوریت حکومتِ وقت اور سب طاقتوروں کو گزشتہ ایک سال سے حاصل سب کامیابیاں مبارک ہوں۔ یہ کہتے ہوئے کہ میرے اوپر کوئی دبائو نہیں‘ دل بہت رنجیدہ ہے۔ افسردگی ہے کہ جاتی نہیں۔ دل پاگل ہوتو اس کا کیا علاج۔ کوئی حکیم اس کا علاج نہیں بتا سکا۔ مگر درویشوں کی روایت ہے کہ وہ ابتلا کے دور میں ہجرت کرجاتے ہیں۔ آج کا دور ایسا ہے کہ آپ ملک میں ہونے والے واقعات اور عالمی حالات سے صرفِ نظر نہیں کرسکتے۔ ٹیلی وژن بند رہے یا اخبار نہ پڑھیں تو فون کی گھنٹی کا گلا کب تک گھونٹ کر رکھیں گے۔ ہمیں تو راہ چلتے لوگ پکڑ لیتے ہیں کہ بتائیں ملک میں کیا ہورہا ہے‘ا ور یہ گرفتاریاں ہو رہی ہیں‘ عدالتیں ضمانت پر رہا کررہی ہیں‘ محترمہ شیریں مزاری کو پانچویں مرتبہ پکڑ کر جیل میں ڈالا گیا۔ معیشت کے بارے میں کچھ کہیں کہ ہم ڈیفالٹ کریں گے یا نہیں؟ جواب نہ بھی دیں تو وہ خود ہی پورا دفتر کھول دیتے ہیں۔ کئی روز کی خبریں اور واقعات جن کے بارے میں سننے کی ہمت نہیں رہی‘ وہ زبردستی ہمارے کانوں میں انڈیل دیے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے شکایت کوئی کیوں کرے کہ وہ مایوسیوں اور پریشانیوں میں کوئی اچھی خبر سننا چاہتے ہیں۔ ان کا دل چاہتا ہے کہ ہم ان کے منفی خیالات کی تردید کریں۔ آج صبح ہی ایک اجنبی پارک میں ملا اور اپنے سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی غرض سے مجھے گھر تک چھوڑ گیا۔ آخری سوال یہ تھا کہ اب ملک کا کیا بنے گا‘ باہر کیوں نہ چلا جائوں ؟
میں واقعی کمزور دل ہوں مگر بزدل نہیں۔ کمزوری یہ ہے کہ دوسرے کا درد اور تکلیف دیکھ کر دل بہت رنجور ہوتا ہے۔ لکھاریوں کا مسلۂ رہا ہے کہ وہ اپنے موضوع سے اثر لیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ کچھ تو ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں اور لکھنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ افغانستان کے معاملات‘ اس کی تاریخ کے ساتھ جو لگائو ہے‘ وہ توجاری رہے گا‘ مگر نہ کبھی اس ملک کے لوگوں کے زخم بھریں گے نہ ہمارے دل کے درد کا در ماں ہوگا۔ پاکستان کے حالاتِ حاضرہ پر لکھتے ہوئے اب اڑتالیس برس ہوگئے۔ یا د ہے کہ پہلا مضمون میں نے 1975 ء میں ایک اردو رسالے کے لیے لکھا تھا۔ کئی ادوار ایسے آئے کہ ملک سے باہر تھا تو یہ سلسلہ ٹوٹ جاتا مگر جب بھی واپس آیا دوبارہ قلم سنبھال لیا۔ نہ جانے کتنے ادوار سے گزرے مگر نفرت‘ منافقت‘ دہشت‘ تشدد‘ کرپشن اور کھلی دھاندلی کا جوچلن دور حاضر میں دیکھا ہے‘ ایسا کبھی نہ تھا۔ جب افتخار تاری اور چوہدری ارشاد غیرہ کو پنجاب سے گرفتار کرکے دلائی کیمپ آزاد کشمیر میں رکھا گیا تو یہ معلوم تھا کہ وہ کہیں پہ ہیں اور زندہ ہیں۔ وہ بھی تو ایک جمہوری دور کی شامیں تھیں۔ اب دل کچھ کہنے کو نہیں چاہتا۔ سننے کا بھی حوصلہ نہیں رہا۔ ارشد شریف مرحوم سے صرف ایک ملاقات تھی جب وہ دنیائے صحافت میں قدم جما رہے تھے۔ لاہور کی ایک جامعہ میں اُنہوں نے غالباًابتدا میرے ساتھ ایک طویل مذاکرے سے کی۔ جو کچھ اس کے ساتھ ہوا‘ غم ہے کہ جاتا ہی نہیں۔ ابھی تک نہ ذمہ داروں کا تعین ہوسکا نہ کوئی قابلِ اعتبار رپورٹ سامنے آئی۔ عدالتِ عظمیٰ آرڈر کرتی رہتی ہے مگر سب بے بس ہیں۔ گزشتہ دنوں عمران ریاض کوسیالکوٹ ہوائی اڈے کے قریب سے نامعلوم افراد اُچک لے گئے۔ لاہور کی عدالت عالیہ آئی جی پنجاب کو بلا کر کہہ چکی ہے کہ اُنہیں بازیاب کرایا جائے۔ جواب میں شاید کہا گیا ہے کہ اُنہیں معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے۔ کوئی پولیس کا سربراہ کسی ہمسایہ ملک یا مغربی دنیا میں ایسا کہہ سکتا ہے؟ پہلے تو وہ خود استعفیٰ دے کر گھر چلا جاتا۔ نہ جانے اور کتنے صحافی ہیں جو خوف وہراس کی فضا میں مصلحت سے کام لے رہے ہیں۔
نو مئی کے واقعات قابلِ مذمت ہیں۔ کور کمانڈر لاہور کے گھر گھسنا‘ توڑ پھوڑ بالکل مجرمانہ فعل ہے۔ اسی طرح فوجی تنصیبات پر حملے اور یادگاروں کے بے حرمتی کسی بھی لحاظ سے قابلِ جواز نہیں۔ مقدمات ضرور بنیں اور جو لوگ ملوث ہیں‘ انہیں قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔ مگر بات آگے بڑھ چکی ہے۔تحریک انصاف کے رہنمائوں کی روزانہ پریس کانفرنسیں دیکھ رہے ہیں۔ وہ پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرتے سنائی دیتے ہیں۔ ایک بات سب دہراتے ہیں کہ کوئی دبائو نہیں‘ لیکن خلقِ خدا کا کیا کیجیے۔ معمولی عقل و فہم رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ سیاسی وابستگیاں کسی جماعت اور ا س کے رہنما سے اچانک تبدیل نہیں ہوتیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نو مئی امریکہ کے نو گیارہ کی سی سیاسی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ امریکہ نے اس واقعے کے بعد ''دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘کے نام پر القاعدہ کا صفایا کرنے کیلئے افغانستان میں بیس سال تک جنگ کی مگر آخر کار طالبان ہی جیتے جن کی حکومت گرا کر وہاں فوجی مداخلت کی گئی تھی۔ ہمارے ہاں نو پانچ کا ہدف تحریک انصاف ہے۔ تیرہ جماعتی سیاسی رہنماؤں کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ جو سیاسی جنگ وہ انتخابات کے ذریعے نہیں جیت سکتے تھے اب راستے صاف ہو رہے ہیں۔ انتخابی دھاندلی کے پہلے مرحلے میں کامیابی پر ہم انہیں تہِ دل سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ اب آپ کا مستقبل روشن ہے۔
فیاض باقر ہمارے جامعہ پنجاب کے زمانے کے دوست ہیں اور اب کینیڈا میں اپنی سوچ کی شمعیں روشن کئے ہوئے اور تصنیف و تدریس کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آج ہی صبح انہوں نے مولانا جلال الدین رومی کی ایک خوبصورت کہاوت بھیجی جو حالاتِ حاضرہ پر ایک تبصرہ ہے۔ مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ جب کوئی قالین پر لاٹھیاں برساتا ہے وہ قالین کے خلاف نہیں ہوتیں بلکہ اس مٹی کے خلاف ہوتی ہیں جو قالین کے اندر ہوتی ہے۔ آپ اس کا جو بھی مطلب نکال لیں۔ درست ہے کہ تحریک انصاف کی مٹی جھڑ رہی ہے یا ایسی مار دی جا رہی ہے کہ قالین ہی اتنا بوسیدہ ہو جائے کہ کسی کام کا نہ رہے۔ دیکھتے ہیں کتنے ثابت قدم رہ سکیں گے‘ مگر جوفیصلے نظر آتے ہیں وہ ایک ایسی سیاسی جنگ کا آغاز ہے جس کا مقصد نو گیارہ کی حکمت عملی کی طرح ایک فریق کا خاتمہ ہے۔آج نہ جانے کیوں سقراط کا مقدمہ یاد آرہا ہے کہ اس نے نوجوانوں کو گمراہ کیا ہے اس لیے اسے زہر کا پیالہ پینا پڑے گا۔ ایسے حالات میں اس درویش کا جی نہیں چاہتا کہ سیاسی امور پر لکھے۔ قلم اٹھاتا ہوں تو دل میں ایک ٹیس سی اٹھتی ہے۔ اپنے اصل پیشے میں اب نصف صدی گزرے والی ہے‘ بہت سے کام ادھورے رہ گئے ہیں‘ انہیں سمیٹنے کی ضرورت ہے۔ دو تحقیقی مقالوں کا وعدہ ہے اور پھر دو کتابوں پر کام کی ضرورت ہے۔بعد میں شاید وہ جذبہ کمزور ہو جائے۔ کالم جاری نہیں رکھ سکوں گا کہ دیگر پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا بوجھ ایسا ہے کہ کچھ وقت کے لیے خاموشی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔