وہ ایک افسردہ شام تھی‘ دن بھی کچھ اچھے نہیں تھے۔ کئی عشروں پر محیط فرقہ واریت اور انتہا پسندی کی بادِ سموم نے علم و ادب کے تازہ پھولوں اور فن کے شگوفوں کو جھلسا دیا تھا۔ تنگ نظری کی گھٹن کی تاب نہ لاتے ہوئے کچھ نے بدیسی ساحلوں کا رُخ کیا تاکہ عمر کے آخری پل سکھ کا سانس لے سکیں۔ دیگر نے اپنی سرزمین پر ہی سکونت کا چیلنج قبول کیا تاکہ تخلیق اور اظہار کا اسلوب بدل کر مزاحمت جاری رکھیں۔ ادیب‘ شاعر‘ استاد اور ہر میدان کے اہلِ علم جس دبائو‘ ذہنی تنائو اور حکومتی جبرکا سامنا کرتے رہے‘ وہ ہم ہی جانتے ہیں۔ ہماری عملی زندگی کے وہ اوائل کے برس تھے۔ جیسی خبریں آج کل ارزاں ہیں کہ فلاں صحافی کو گرفتار کر لیا گیا اور وہ جو پچھلی حکومت میں وزیر اور مشیر تھے پریس کانفرنسیں کرکے اپنے گناہوں کی معافیاں مانگ رہے ہیں‘ اس سے کہیں زیادہ اندوہناک ماحول ہم نے پہلے بھی دیکھا ہے۔ تب میڈیا حکومتِ وقت کی تحویل میں تھا‘ اخبارات پر کڑی پابندیاں عائد تھیں‘ ترقی پسند افکار اور ترقی پسندوں کے بارے میں ایسے لکھا جاتا جیسے ملک کے بدترین دشمن وہی ہیں۔ اُنہیں غدار‘ بدعقیدہ اور بیرونی طاقتوں کے ایجنٹ قرار دیا جاتا۔ جس طالب علم پر ترقی پسند ہونے کا شک گزرتا کالج یا جامعہ سے نکال دیا جاتا۔ ہمارے ہم عصر جو شاہ کے مصاحب تھے‘ فہرستیں بناتے اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو پیش کرتے۔ سوویت یونین کی افغانستان پر فوج کشی کے بعد زمین ترقی پسندوں پر مزید تنگ ہو گئی۔ شہر‘ بازار‘ جامعات کے کلاس روم‘ لائوڈ سپیکر‘ جہاں جہاں بھی وہ نصب تھے اور میڈیا افغان جہاد کے نعروں سے گونجنے لگا۔ ملکی جہادیوں کے ساتھ عرب اور دیگر ممالک سے بھی لشکری اکٹھے ہورہے تھے۔ صرف ایک ہی سوچ‘ ایک ہی نعرہ اور ایک طرزِ فکر غالب تھی۔ اس کے خلاف بات کرنا تو درکنار‘ معمولی سا اعتراض بھی گولی کا نشانہ بنانے کیلئے کافی تھا۔ وقت کا پہیہ گھومتا رہا‘ مگر اس تنگ نظری کا جمود تحلیل نہ ہوسکا۔ تیسرے مارشل لاء کے سماجی‘ سیاسی‘فکری اثرات نہ جانے کب ختم ہوں گے۔
وہ شام کچھ زیادہ ہی اداس تھی۔ اصغر ندیم سید پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ شدید زخمی تھے۔ ہماری شناسائی شاہ صاحب سے بہت پرانی تھی۔ اس زمانے سے جب اُنہوں نے طالب علمی کے زمانے میں لکھنا شروع کیا تھا۔ ہم ممتاز شاعر‘ محسن نقوی کو ایسے ہی ایک حملے میں کھوچکے تھے۔ اصغر ندیم سید صاحب کا سنا تو دل بیٹھ سا گیا۔ جسم اور روح بڑھتی ہوئی منافرت سے جھلسے ہوئے تو پہلے ہی تھے‘ اس شام محسوس ہوا کہ ہم بے جان ہوچکے ہیں۔ نجانے کتنے اہلِ علم‘ مدبر‘ دانشور اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پیشہ ور دہشت گردی کا شکار ہو چکے۔ کبھی ذاتی ملاقات تو نہ تھی مگر وہ دل کے ہمیشہ بہت قریب تھے۔ ان کی تصانیف کو ایک عرصہ سے ہم پڑھتے آئے تھے۔ اُس حادثے نے انہیں اور بھی قریب کر دیا۔ گزشتہ ہفتے اُن کے ہاں حاضری دی تو حالاتِ حاضرہ پر کافی رنجیدہ دکھائی دیے۔ اس تاریک دور کی اب تک جاری نوازشوں کا ذکر کرنے لگے۔ رخصت ہونے لگا تو اپنا نیا ناول ''جہاں آباد کی گلیاں‘‘ عنایت کیا جو گزشتہ چند دنوں میں پڑھنا شروع کیا تو ختم کیے بغیر ہاتھ سے رکھا نہ گیا۔ کہیں بھی محسوس نہ ہوا کہ فکشن پڑھ رہا ہوں۔ ایک جھوٹے دور کی سچی کہانی ہے۔ اس زمانے کی سیاست‘ معاشرت اور علمی دنیا سے کئی کردار تصویریں بن کر آنکھوں کے سامنے گھومنا شروع ہوگئے۔
ایک داستان میں ہزار داستانیں ان اجڑے لوگوں کی ہیں جن کی زندگیاں ضیا الحق کے دور میں تباہ ہوئیں۔ ذاتی طور پر ایسے بے شمار افراد کو جانتا ہوں جن پر شاہی قلعے میں تشدد کیا گیا‘ قیدِ تنہائی میں رکھا گیا‘ اٹک کے قلعے میں بند رہے۔ وہ بھی جنہیں سرعام کوڑے مارے گئے۔ ان میں چار صحافی بھی شامل ہیں۔ ہزاروں افراد ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ ان کی گھریلو زندگیاں تباہ ہوگئیں‘خاندان بکھر گئے۔ عشروں کی جلاوطنی کے بعد کچھ واپس آئے۔ ملاقات کی تو محسوس ہو اکہ اب وہ نارمل نہیں رہے۔ جلاوطنی نے نفسیات پر گہر ا چرکا لگایا تھا۔ باتیں کرتے کرتے رُک جاتے‘ خلائوں میں گھورنے لگتے‘ الفاظ بے ربط ہوجاتے‘ پاس بیٹھے ہوتے لیکن ذہنی طور پر کہیں دور نکل جاتے۔ ''جہاں آباد کی گلیاں‘‘ کے کردار لندن کی جلاوطنی کے ہوں یا پاکستان کے‘ مرکزی خیال ایک شاعر‘ استاد‘ نوجوان ایک نوزائیدہ بچے کا باپ جسے اُس وقت کی فوجی حکومت کے خلاف چند نظمیں لکھنے کی پاداش میں شاہی قلعے پہنچا دیا جاتاہے اور جلاوطن ہوکر دیارِ غیر میں نئی دنیا آباد کرلیتا ہے‘ حقائق بہت تلخ ہیں جن کے بارے میں ہمارا معاشرہ اور ہماری تاریخ خاموش ہیں۔
شاہ صاحب کی اظہار کی قوت‘ تخلیقی صلاحیت اور ادبی مقام پر میرے لیے بات کرنابے معنی ہے۔ میرا علمی میدان ذرا مختلف ہے۔ میرا شعبہ سیاست ہے اور ادب اور تاریخ کو بھی اسی تناظر میں پڑھتا ہوں۔ اور یہ رشتہ میرے گرو پروفیسر رگھاوان آئیر نے میرے طالب علمی کے زمانے میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں قائم کردیا تھا۔ وہ سیاست اور ادب پر کورس سال میں ایک مرتبہ پڑھاتے‘ اس میں تقریباً تین سو کے قریب طالب علم ہوتے۔ میں ہر سال اُن کا معاون استاد ہوتا۔ اگر آج ویسا ہی کورس ترتیب دوں تو اصغر ندیم سید کا ''جہاں آباد کی گلیاں‘‘ سرفہرست اور تعارفی ناول ہوگا۔
موضوعات کی فہرست طویل ہے‘ جیسا کہ منافقت‘ غلامی‘ جبر واستبداد‘ فسطائیت‘ دوغلاپن‘ طبقاتی کشمکش‘ سیاسی سوداگری‘ موقع پرستی اور حکمران طبقات کی سطحی سوچ اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کی سامراجی روایت۔ مگر اصل موضوع ضیا دور کے پاکستانی معاشرے‘ سماجی رشتوں‘ ہم آہنگی‘ رواداری‘ آزادیٔ افکار اور ریاست کی سمت پر دور رس اثرات کا احاطہ کرتا ہے۔ جو کچھ بعد کے عشروں میں اور آج تک ہورہا ہے وہ اس دور کی پیداوارہے۔دہشت گردی‘ شہروں میں لسانی گروہوں کی بربریت‘ فرقہ وارانہ خوفناک خانہ جنگی اور سیاست میں نئے کاروباری گھرانوں کا ابھرنا‘ اس زمانے کی سیاست اور طرز ِحکمرانی سے جڑے ہوئے ہیں۔ تمام کرداروں کا مرکزی موضوع ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ہے۔ آج بھی دل دہل جاتا ہے۔ کیابے رحمی تھی‘ کیا ظلم تھا‘ کیسے جبر کا ننگامظاہرہ تھا کہ معاشرہ بے بس ہوگیا۔ بے بسی نے اس ظلم کے خلاف نہ جانے اُس دور کے نوجوانوں کوکن پر خطر راہوں پر ڈال دیا تھا۔ ان کی کہانیاں شاید آئندہ کا کوئی مورخ اکٹھی کرسکے۔ اصغر ندیم سید تو چشم دید گواہ بھی ہیں۔ اور یہ اُس دور کے اثرات تھے کہ دہشت گردوں کی گولی اُن کے جسم میں پیوست ہوگئی۔ بربریت کے تجربے سے گزرے۔ ناول سے کہیں زیادہ یہ کتاب پاکستانی سیاست‘ حکومت اور معاشرت کی تاریخ روداد ہے۔ کہانی حقیقی کرداروں کا عکس ہے۔ سب لٹے ہوئے‘ برباد‘ بکھرے‘ اپنے ہی ملک میں اجنبی یا دیارِ غیر میں تنہا‘ نسلی اجنبیت کا شکار‘ میرے نزدیک پاکستانی فرد اور معاشرے کی نفسیات‘ بے چینی اور شکست و ریخت پر ایسا جامع اور پُراثر تبصرہ ابھی تک سامنے نہیں آیا۔
ادیب اور مفکر گہرائی میں جا کر فسطائیت اور آمریت کے فرد اور معاشرے کی نفسیات پر اثرات کو دیکھتا ہے۔ ہمارا آج کا دور بھی اُسی دور کا تسلسل ہے‘ اس کرب کی ٹیس آج بھی محسوس کی جارہی ہے‘ وہی بے بسی آنکھوں میں جامد تصویر کی طرح عیاں ہے۔ ہم تاریک راہوں کے مسافر جو ٹھہرے‘ بقول مرزا رفیع سودا:
کہیں مہتاب نے دیکھا ہے تجھ خورشید تاباں کو
پھرے ہے ڈھونڈتا ہر شب جہاں آباد کی گلیاں