آزادی کے وقت سے ہی ہماری سوچ، ہماری تحریروں ، ہماری سکیورٹی اور خارجہ پالیسی پر جو چیز غالب رہی ہے ، وہ خوف ہے۔ اس خوف کی بنیاد ہمارا یہ تجزیہ ہے کہ ہمارا سٹریٹجک ماحول غیر محفوظ ہے ، خطے میں طاقت کا توازن بگڑرہا ہے، طاقتور بھارت اور کمزور افغانستان ہمارے دشمنوں کی معاونت کررہے ہیں اور ہم سازشوں کا شکار ہونے جارہے ہیں۔ ہم اپنے خطے کے سیاسی جغرافیائی معروضات کے حوالے سے اپنے مفروضوں کو حقیقت مان کر ان کی بنیاد پر اپنی قومی سلامتی کے خدوخال وضع کرتے ہیں اور ان پر کاربند ہوجاتے ہیں۔ تاہم تاریخ کا سفر جاری رہتا ہے، اس میں سکوت محال ہے۔ قومیں اور ملک متحرک انداز میں آگے بڑھتے ہوئے دستیاب امکانات سے استفادہ کرتے ہیں۔
یقیناہمارے تمام خوف وخدشات بے بنیاد اور غیر حقیقی نہیںکیونکہ بہت سے تلخ تاریخی حقائق ان کی تصدیق کرتے ہیں۔ آزادی کے ابتدائی دور میں بھارت کی طرف سے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ ، مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت ، افغانستان میں سوویت یونین کی جارحیت اور اس خطے میں عالمی طاقتوں کی لڑی گئی دو عظیم اور طویل جنگیں ثابت کرتی ہیںکہ ہمارے خدشات بے بنیاد نہیں۔ ان واقعات پر نگاہ دوڑانے سے ہمیں علم ہوتاہے کہ ہم دنیا کے جس خطے میں موجود ہیں، وہ عالمی طاقتوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ تاہم خود کو درپیش خطرات کا علم ہونا اور ان کی ماہیت کو سمجھاکافی نہیں، اصل چیلنج ان سے نمٹنا ہے۔ کیا ہم ان سے نمٹنے کی پیش بندی کرنے کے لیے تیار ہیں یا پھر وقت آنے پر ہی ہماری تمام تر فعالیت متحرک ہوتی ہے؟ اگر ان مسائل کا تعلق دوسروں کے برے ارادوںسے ہے تو ہمیں ان سے لڑنے کا طریقہ سوچنا ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں دوسروں کے پھیلائے ہوئے جال میں الجھنے کی بجائے خود آگے بڑھ کر اس لڑائی کو اپنے انداز میں لڑنا ہے۔
ایک بات سمجھنے کی ہے کہ ہمسائے قسمت کی طرح اٹل ہوتے ہیں ۔ دنیا کا کوئی ملک بھی انہیں تبدیل نہیں کرسکتا ، اور نہ ہی اُنہیں پرامن طریقے سے رہنے اور تعاون کرنے کے لیے آمادہ کرسکتا ہے؛ تاہم کچھ مخصوص پالیسیاں اپناتے ہوئے ان کا رویہ کسی حدتک اپنی موافقت میں ڈھالا جاسکتا ہے تاکہ اُن سے درپیش خطرے کو زائل کرتے ہوئے اپنے لیے مفاد حاصل کیا جاسکے۔ اسی کا نام سفارت کاری ہے۔ جس دوران ہماری سکیورٹی کو اندورنی اور بیرونی خطرات لاحق ہیں، سیاسی جغرافیائی حقائق کے روایتی پیمانوں کو بیک جنبش ِ قلم مسترد کرنابھی ممکن نہیں، تاہم ان کا از سر ِ نوجائزہ لیتے ہوئے اس امر کی آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے کہ روایتی جمود کی جگہ خطے کے متحرک امکانات کیا ہیں اور ہم انہیں اپنے مفاد میں کس طرح استعمال کر سکتے ہیں۔
اس وقت جس چیز کی کمی محسوس کی جارہی ہے وہ جیوپالیٹیکل معروضا ت کے پس ِ منظر میں موجود وسیع لینڈ اسکیپ سے، جس میں ہمارے لیے امکانات کے بہت سے پہلو موجود ہیں، لاعلمی ، یا اسے بوجوہ نظر انداز کردینے کی پالیسی ہے۔ میں اس بات کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔۔۔ پاکستان کی جنوب ایشیائی شناخت کو‘ جواس کے ثقافتی، تاریخی اور مذہبی ورثے سے جڑی ہوئی ہے، مسترد نہیں کیا جاسکتا، اور نہ ہی ایسا کرنا چاہیے۔ یقینا امریکی ساجھے داری سے تقویت پاکر ابھرتا ہوا بھارت، جو اس وقت طاقت کے غرور سے سرشار ہے اور جس کی سیاست اور سکیورٹی امور پر ہندوقوم پرستوں کا قبضہ ہے، پاکستان کے لیے باعث ِ تشویش ضرورہے ، لیکن ہمیں اپنے سامنے آپشن صرف عسکری محاذآرائی ، فتح یا شکست، کی صورت ہی نہیں رکھنے چاہئیں، بلکہ ہمیں مستقبل کے امکانات کو سامنے رکھتے ہوئے عملی طرز ِعمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ماضی کے زخموں کو کریدنے یا ان کا حساب کتاب برابر کرنے کے عزائم پالنے میں دانائی نہیں۔ دنیا کے بہت سے دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی ایک اہم حقیقت کو نظر انداز کررہا ہے کہ تاریخ کے عمل کا ایک مستقل قانون ''تبدیلی ‘‘ ہے۔کسی ملک،معاشرے، سائنس، معیشت اور ان کی وجہ سے سوچ میں ہونے والی تبدیلی کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس سے دنیا میں دوطرفہ تعلقات کی جہت بھی تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ، جو پاکستان کاتین مرتبہ سٹریٹیجک اتحادی رہا ہے، ہم سے زیادہ بھارت کے قریب ہورہا ہے۔ دوسری طرف بھارت اور اس کی قیادت اس پارٹنر شپ کی اہمیت کو سمجھتی ہے۔ اُنھوں نے بھی اپنے آپ کو داخلی، یا کم از کم خارجی طور پر بدل لیا ہے۔
اس وقت پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے سیاسی جغرافیائی معروضات پر چھائے ہوئے خوف کے پردے کو چاک کرنے کی ہمت کرے۔ اُسے اپنے اوپر اعتماد کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایک اہم اور طاقت ور ملک ہے۔ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم معیشت، قدرتی ذرائع کی ترقی اورسیاسی استحکام پر توجہ دیں اور یقین رکھیں کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ختم کرنے کے درپے نہیں۔ کسی کے پاس اتنی فرصت نہیں ہے کہ وہ بیٹھ کر ہمارے خلاف سازشیں کرتا رہے۔ دراصل ہمارا دشمن ہمارے درمیان ہی موجود ہے۔ تاہم پاکستان کو اعتماد کو ن دے گا؟یہ ایک قابل ِ بحث سوال ہے۔ اس کے لیے قیادت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح تاریخ کی منطق سے نہیں بچ سکتا۔۔۔ تبدیلی کی منطق۔ جہاں طاقتور فوج دشمن کی جارحیت کو روکتی ہے، موثر سفارت کاری دوستوں میں اضافہ کرتی ہے۔ اس وقت جبکہ ہم اپنے دشمن سے جنگ کررہے ہیں، ہمیں اپنی سرحدوں کے آس پاس دوستوںکی ضرورت ہے۔ دوست بنانا کمزوری نہیں،دانائی ہے۔ ہمارے شمال مغرب کی طرف تجارت، توانائی اور طاقت کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ ہم ان سے استفادہ کرسکتے ہیں،لیکن اس کے لیے ہمیں اس تاریخی تبدیلی کا خود ہی حصہ بننا ہے، وگرنہ زمانہ تو اپنی چال چل ہی رہا ہے۔ جو قومیں آگے بڑھ کر اس چال کو اپنے مطابق نہیں ڈھالتیں، وہ اس کے تلے روندی جاتی ہیں۔ یقینا ہمارے پاس بہت سے امکانات موجود ہیں۔