"RBC" (space) message & send to 7575

سیلاب کی وجوہ اور سیاست

پاکستان میںشدید بارشوں کی وجہ سے دریائوں اور ندیوں کے پانی کا کناروںسے باہر نکل کر زیادہ تر جنوبی پنجاب اور بالائی سندھ کے علاقوں میں پھیل جانا کئی نسلوں سے حکومتوں اور میڈیا کا موسمی موضوع رہا ہے۔ مون سون کی بے قاعدہ بارشوں کے دوران میڈیا بہت باقاعدگی سے دکھانا نہیں بھولتا کہ کس طرح سیاسی طبقہ سیلابی پانی کو چارسو تباہی پھیلاتے دیکھتا ہے اور پھر کیمرے کے سامنے امدادی سامان تقسیم کرنے کی رسم اداکرکے داد لی جاتی ہے۔ اس کے بعد ضلعی انتظامیہ کو نہایت سنجیدگی سے ہد ایت کی جاتی ہے کہ سیلاب متاثرین کی امداد میںکوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے اور لگے ہاتھوں ایک دو افسران کو معطل کیا جاتا ہے تاکہ کارکردگی کی سندرہے ۔ رہنمائوں کے یہ دورے مختصر وقت کے لیے ہوتے ہیں کیونکہ اُنھوں نے کئی اور مقامات پر بھی جانا ہوتا ہے۔ سیلاب کے دوران یہ طوفانی دورے ہمارے رہنمائوں کا من پسند مشغلہ ہیں۔ کئی سالوں، بلکہ نسلوں، سے ہم یہ کارگزاری دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی رہنمائوں کے متاثرہ علاقوں کے دورے کرنے، شہری علاقوں کی گلیوں میں گھٹنوں تک گہرے پانی میں لمبے بوٹ پہن کر اترجانے اور عوام کا ساتھ دینے کے دعوے کرنے کے علاوہ سیلاب سے نمٹنے کا ایک اور حربہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا قیام ہے۔ یہ ادارہ ہنگامی حالات میں انتظامات کرنے کا ذمہ دار ہے۔ آج کل یہ نہایت مستعدی سے عوام کو بتارہا ہے کہ کس علاقے میں کتنی ہلاکتیں ہوئیں۔ بس اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ 
سیلابوں کے حوالے سے میں ایک بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم دنیا کے ہمارے حصے میں ان کا شمار قدرتی آفات میں نہیںہوتا اور نہ ہی یہ کوئی ناگہانی مصیبت ہیں۔ جوچیز باقاعدگی سے ہر سال ہوتی ہو، اُسے ناگہانی آفت کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟ ستم ظریفی یہ کہ باقی سارا سال پاکستان پانی کی کمی کا شکار رہتا ہے۔سال میں مختصر وقت سے برسنے والی بارشوںسے تباہی صرف اور صرف سیاسی طبقے کی نااہلی ، بے بصری ، موقع پرستی اور مشکل سیاسی فیصلے کرنے سے گریز کی وجہ سے آتی ہے۔ بارش کی وجہ سے دِیر سے لے کر دادو تک سیلاب اس لیے آجاتا ہے کیونکہ ہمارے رہنما قدرت کی اس نعمت (پانی) سے استفادہ نہیں کرتے چنانچہ زحمت بن جاتی ہے۔ ہر سال وہ نہایت ڈھٹائی، بلکہ بے شرمی ، سے دیکھتے رہتے ہیں کہ بارشوں کا پانی منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے سیلاب کی صورت اختیار کرکے آبادیوں، فصلوں ، جانوروں اور انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچاتا ہوا بحیرہ ٔعرب میں جاگرتا ہے۔ جس پانی کی کمی کا ہم شکار رہتے ہیں، اس کا یوںتباہی پھیلاتے ہوئے سمندر میں گرجانا مجرمانہ غفلت کے زمرے میں آتا ہے۔ 
آبی وسائل کی منصوبہ بندی کو منفی سیاست نے یرغمال بنایا ہواہے۔پاکستانی معاشرہ جن بہت سی چیزوں کوطے پاتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے، وہ بھی اسی محدود مفاد پرست سیاست کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ تقریباً ہر اہم معاملے میں پاکستان کے سامنے حقیقی چیلنج یہی ہے ۔ ہر معاملے میں اپنا سیاسی مفاد دیکھنے کی وجہ سے حقیقی اقدامات کی نوبت نہیں آتی۔ ویسے بھی سیاسی جماعتوں کی باگ ڈور اُن افراد کے ہاتھ میں ہے کہ جن کا پاکستان میں کوئی اسٹیک نہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ جمہوریت کی آڑ میں ہمیں لوٹنے یہاںآتے ہیں اور پھر دولت سمیٹ کر اُن مقامات پر ذخیرہ کردیتے ہیں جہاں تک پاکستانیوں کی رسائی نہیںہوتی۔ چونکہ ان افراد کے لیے ملک سے جانا اور آنا نہایت آسان ہے، اس لیے وہ اپنے اثاثے بیرونی دنیا میں چھپائے رکھتے ہیں ۔ قانون کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اپنے دل کے ارمان نکالتے ہیں، اور عوام کو اسی کا نام جمہوریت بتایا جاتا ہے۔ دوسری طرف شخصیت پرستی کے دلدادہ عوام بھی کچھ خاندانوں کی فکری غلامی کرنے کو اپنی جمہوریت کے ساتھ وابستگی قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ سیلابی پانی کو روکنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے اقدامات کرنے کی کیا ضرورت جب سیلاب کے موقع پر سامان تقسیم کرنے یاطویل بوٹ پہن کر پانی میں اترجانے(اور پتہ نہیں کیا کرنے؟) سے نام نہاد جمہوریت مزید مضبوط ہوتی ہو؟
نوآبادیاتی قوت کے طور پر انگریزوں نے اس ضمن میں بہتر کام کیا تھا۔ تقسیمِ ہند سے پہلے انھوں نے یہاں ایک زرعی نظام قائم کیا(گو اس میں ان کا اپنا فائدہ بھی مضمر تھا)۔پانچ دریائوں کی اس سرزمین ، اس کے میدانوںاور حتی کہ صحرائوں کو سیراب کرنے کے لیے اُنھوں نے نہایت موثر نہری نظام قائم کیا۔ قیام ِ پاکستان کے ابتدائی عشروں میںہم صرف دوبڑے ڈیم بناسکے۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ گزرتے ہوئے ماہ وسال نے ان آبی ذخیروںکی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش متاثر کی ۔ اس دوران ہمارے لیڈر اور حکومتیں نئے ڈیم بنانے کی زحمت کو ''قومی اتفاق ِ رائے‘‘کے بہانے ٹالتی رہیں کیونکہ نہ کوئی ایسا اتفاق ِ رائے ہوسکتا ہے اور نہ ڈیم بن سکتے ہیں۔ جو چیز یقینی ہے وہ یہ کہ ہرسال مون سون میں بارشیں ہوںگی، عام آدمی سیلاب میں ڈوبے اور پھر سارا سال وہ پانی کے قطرے قطرے کو ترسے گا۔ پتہ نہیں ابھی مزید کتنی دیر ایسی قیادت اور سیاست پانی اور بجلی کی کمی کا سامنا کرنے والے اس ملک پر مسلط رہنی ہے؟
ایک کمزور معاشرہ جواپنے سیاسی طبقے کا احتساب نہ کرسکتا ہو، وہ اپنی کمزوری کے مضمرات سے نہیں بچ سکتا۔ جرم ضعیفی، چاہے سیاسی بے بصری کی صورت ہی کیوںنہ ہو، کی سزا بہرطور بھگتنا ہوتی ہے۔ جب عوام ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر ِ فردارہیں تو تنکوں کو کیا لگے، چاہے اُنہیں سیلاب بہاکر لے جائے یا آندھی اُڑا کر۔جب حالیہ سیلاب بھی جی ڈی پی کے ایک فیصد تک کا نقصان پہنچا کر اتر جائے گا تو اس سے لائی گئی تباہی بھی ہمارے حافظے سے اترجائے گی۔ہماری موجودہ قیادت بھی صرف سیلاب کی علامات ، نہ کہ وجوہ، سے نمٹنے کی کوشش کررہی ہے۔ دنیا کے کسی اورحصے میں یہ صورت ِحال درپیش ہوتی تو برسات کے دوران پانی کی نعمت کو چولستان اور تھر کے صحرائوں اور دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر واقع بلوچستان کے خشک علاقوںکو سیراب کرنے اور فصلیں اُگانے کے لیے استعمال کیا جاتا۔ ہمارے ہاں سیلاب نہیں، عقل کی کمی موجزن ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں