"RBC" (space) message & send to 7575

چلو، چلو پنچایت چلو

مقامی حکومت کے بغیر حقیقی جمہوریت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مغربی معاشرہ ہو یا مشرقی، جمہوریت کی اساس مقامی حکومتیں ہی رہی ہیں۔ ان کے بغیر جمہوری حکومت محض نام کی ہوتی ہے، ہوائی یا جعلی۔ مقامی حکومتوں کے بغیر جمہوری مسابقت محض بالا دست اور متمول خاندانوں کا کھیل بن کر رہ جاتی ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ میں بنتی بگڑتی تصویریں اسی کھیل کا پتہ دیتی ہیں۔ اگر جمہوریت کا تصور محدود ہو تو جمہوری کھیل سمٹ کا امیر خاندانوں کے درمیان ایک نمائشی میچ سے بڑھ کر کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ چونکہ سیاسی خاندانوں کی پاکستان کے اقتدار پر اجارہ داری رہتی ہے، لہٰذا وہ کسی بھی صورت طاقت کی تقسیم گوارا نہیں کرتے۔ نچلی سطح پر طاقت کی منتقلی سے اُنہیں خطرہ ہے؛ چنانچہ پہلے ہم اُن اسباب کا جائزہ لیتے ہیں جن کی وجہ سے ہماری زنگ آلود، روایتی سیاسی جماعتیں مقامی حکومتوں کے قیام کی راہ میں رکاوٹ رہی ہیں۔ یہ سوال اٹھائیں گے کہ پنجاب میں مقامی حکومتیں کیوں اور کیسے سماجی اور سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔ 
حکمران طبقے، اور اس کے سیاسی اور سماجی وقار کی بنیاد سرپرستی کا روایتی نظام ہے۔ پارلیمانی طرزِ حکومت میں اسمبلیوں میں عوامی نمائندے حکومت سازی کرتے ہیں، وزیرِاعظم کا چنائوہوتا ہے اور اقتدار کے دروازے وا ہوتے ہیں۔ اسمبلی میں ووٹ ڈالنے کے لیے اراکین قیمت مانگتے ہیں۔ سرمائے کی تقسیم بظاہر ترقیاتی کاموں کے زمرے میں آتی ہے، اور ضلع کے انتظامی امور میں مداخلت کو بھی فعالیت کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر ماضی میں کسی ایسی کوشش کی ابتدا کی بھی گئی کہ ضلعی انتظامیہ کو سیاسی مداخلت سے بچایا جائے تو اراکینِ اسمبلی سامنے کھڑے ہوگئے، مزاحمت پر اتر آئے، اور یوں فارورڈ بلاک بنے۔ صورتحال کو اس نہج تک پہنچنے سے روکنا، اراکین کو رام کرنا، سرپرستی کرنا، ترقیاتی منصوبوں کی کنجی اُن کے حوالے کرنا اور دیگر کئی طرح سے ریاست کے وسائل سے استفادہ کرنے کا موقع دینا‘ ہماری جمہوریت کی تلخ حقیقت ہے۔ چند سو سیاسی خاندان اس طاقت کا تحفظ دو طریقوں سے کرتے آئے ہیں۔ ایک یہ کہ پارلیمانی نظام پر سب کا اتفاق ہے، اور دوسرا، مقامی حکومتوں کا برائے نام قیام۔ اوّل تو اُنہیں وجود میں آنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا۔ ان طبقات کو تین طرح کے خدشات لاحق رہتے ہیں۔ پہلا یہ کہ اُن کی اجارہ داری کی گرفت ٹوٹ جائے گی۔ ترقیاتی منصوبوں کی تقسیم اُن کے ہاتھ میں نہیں رہے گی۔ سرمایہ، فیصلہ سازی کا اختیار اور مقامی سطح پر اثرورسوخ آہستہ آہستہ اُن کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ 
دوسری بات یہ کہ مقامی حکومتوں کے قیام سے دنیا کے کونے کونے میں متبادل سیاسی قوتیں ابھر کے سامنے آتی ہیں۔ جمہوری نظام کو نئی قیادت کی شکل میں تازگی اور طاقت ملتی ہے۔ یہ فعال، متحرک اور جاندار رہتا ہے۔ نئی سوچ کے نئے زاویے سامنے آتے ہیں، نیاافق، نئی راہیں دکھائی دیتی ہیں۔ امیدوں کا نخل ہرا رہتا ہے۔ برطانیہ کی پختہ جمہوریت ہو یا امریکہ کی کئی صدیوں سے تسلسل کے ساتھ جاری کامیاب جمہوریت، ان کی ہمہ گیر اور لامتناہی تبدیلیوں کا راز مقامی حکومتوں میں ہی ہے۔ وہ نئے رہنمائوں اور فعال سیاست دانوں کی نرسری اور تربیت گاہ ثابت ہوتی ہیں۔ امریکہ کے سابق صدر نے اپنی سیاسی زندگی شکاگو کی مقامی حکومت سے شروع کی تھی۔ بوسیدہ سیاسی جماعتوں اور اُن کی موروثی قیادت کو ہم نسل در نسل برداشت کرتے چلے آئے ہیں۔ یہ نام نہاد حکمران طبقہ نہیں چاہتا کہ مقامی حکومتیں ان کے سیاسی کارکنوں کے لئے زینہ ثابت ہوں، اور وہ اہمیت اختیار کر جائیں اور ایک دن ان کے مقابلے میں اسمبلیوں کے انتخابات میں کھڑے دکھائی دیں۔
آخری بات، اگر اراکین اسمبلی کی مالی سرپرستی ختم ہو جائے تو سیاست میں کارکردگی کا معیار ہی تبدیل ہو جائے گا۔ پھر معیار گلی کوچے میں سڑکیں پختہ کرنا یا بجلی اور گیس کے میٹر لگوانا نہیں ہوگا۔ لوگ کچھ اور پرکھیں گے۔ پھر معیشت، قانون کی پاسداری، انصاف کی فراہمی، سماجی خدمات، انتظام، تعلیم، صحت اور ماحولیات کی بابت سوال ہوگا۔ اراکین کو انفرادی طور پر نہیں، بلکہ ایک حکومتی جماعت کے طور پر جانچا جائے گا۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہوگی۔ رائے دہندگان امیدواروں کی ذاتی حیثیت کی بجائے اُن کی پارٹی، اس کی تاریخ‘ منشور اور تصورات کے حوالے سے ووٹ دیں گے۔ اس کی قیادت کی جانچ ہوگی۔ یہ نہیں دیکھا جائے گاکہ اُنھوںنے گلی پکی کرائی ہے یا نہیں، بلکہ یہ کہ کہیں اقتدار سے فائدہ اٹھا کر ملکی خزانہ تو نہیں لوٹا۔ یہ ایک پیش رفت موروثی، خاندانی اور روایتی سیاست کے خاتمے کی شروعات ہوگی۔ قیادت کے دروازے عام کارکنوں پر کھلیں گے۔ ظلم کی بات تو یہ ہے کہ موروثی سیاسی جماعتیں نہیں چاہتیں کہ اُن کے اندر جمہوریت آئے؛ چنانچہ ہماری روایتی سیاسی جماعتیں مقامی حکومتوں کے قیام کے خلاف مزاحم ہیں، اور یہ بات قابلِ فہم ہے۔
میرے نزدیک تحریکِ انصاف کا عوامی تائید حاصل کرنا، اور ایک متبادل سیاسی جماعت اور طاقت کے طور پر ابھرنا پاکستان میں سیاسی طور پر آنے والی ایک تاریخی تبدیلی ہے۔ تبدیلی کا عمل خیبرپختونخوا سے شروع ہوا۔ یہ بذاتِ خود ایک بڑی کامیابی تھی۔ آج کل ہمارے میڈیا میں شور اور اضطراب کی فضا بہت گہری ہے۔ بے چینی کا طوفان برپا ہے۔ معیشت زوال پذیر ہے، مہنگائی ہے، لوگ پریشان ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ تبدیلی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ حکومت کوئی سمت طے نہیں کرپائی ہے۔ نوکرشاہی میں مایوسی ہے، کام رکے ہوئے ہیں۔ بہت سے روایتی خاندان بڑے دھڑلّے سے حکومت کررہے ہیں۔ تحریکِ انصاف کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ ہے وہ موسیقی جو ہماری سماعتوں میں اتاری جارہی ہے۔ ہمارے قابلِ احترام سیاسی مبصرین اور مفکرین قوم کو مایوسی کی خبریں سناتے نہیں تھکتے۔ اس دوران سچائی جذبات کا تر نوالہ بن چکی۔
بات یہ ہے کہ سیاسی عمل پرکھنے کا معیار کرکٹ کمنٹری نہیں۔ یہ تاریخی اور سماجی حرکیات اور عوامل کی پرکھ کرنے، اور توقعات کو معروضی حقائق کے پیمانے میں رکھ کر تولنے کا نام ہے۔ اب ہمارے ہاں ہر سیاسی مبصر خود کو معاشی ماہر بھی سمجھتا ہے۔ معیشت پر بات کرنے کے لیے اپوزیشن کے رہنمائوں کو مدعوکیا جاتا ہے۔ وہ نہ تو معیشت کے بارے میں جانتے ہیں اور نہ ہی اُن سے کوئی خیر کی توقع کی جانی چاہیے۔ کوئی شک نہیں کہ تبدیلی اور کامیابی، جس کا وعدہ تھا، اس کی جھلک ابھی نہیں ملی‘ لیکن نااہلی اور ناکامی کا فتویٰ کیوں؟ قنوطیت کو میڈیاکی فضائیں ہی کیوں راس آتی ہیں؟ ذرا صبر کریں۔ قدم اٹھانے سے ہی منازل طے ہوتی ہیں، اور یہ تو راہگزر ہے۔ اس پر قیدِ مقام کی پھبتی کیسی؟
بات دور نکل گئی۔ مقامی حکومتوں کا تجربہ، تعلیم اور صحت کے شعبے میں مثبت تبدیلی، پولیس، پٹوار کے نظام میں اصلاح کا تجربہ ہو یا شجرکاری کا معرکہ۔ اس کے لیے خیبرپختونخوا حکومت کے گزشتہ پانچ سال دیکھے جائیں۔ رکھی جانے والی ہر اینٹ مکان نہیں ہوتی، لیکن مکان آخرکار اسی سے تعمیر ہوتا ہے۔ خوش کن بات یہ ہے کہ پنجاب میں مقامی حکومتوں کے قانون کے مسودے اور اس کے خدوخال سامنے آرہے ہیں۔ ماضی اور حال کی یونین کونسلوں پر بھی روایتی سیاسی خاندانوں کا قبضہ تھا۔ اب یہ بات خوش آئند ہے کہ موضع کی سطح پر پنچایت بنے گی۔ یہ نظام ہماری آزادی سے پہلی بھی کسی نہ کسی صورت موجود تھا۔ ہندوستان میں فعال ہے۔ موضع کے مقامی لوگ بااختیار ہوں گے۔ وہ اپنے لوگوں کے ساتھ مل کر اپنی ضرورت کے مطابق ترقیاتی منصوبے بنائیں گے۔ عملاً یہ ایک بہت بڑی سماجی تبدیلی کی ابتدا ہوگی۔ امریکی جمہوریت کا بنیادی طور پر پہلا قدم کائونٹی ہے، جو ہمارے ہاں موضع ہے۔ یہاں سے مقامی حکومتیں اور رہنما پیدا ہوتے ہیں۔ اسی سے روایتی موروثی اور خاندانی سیاسی جماعتوں کا زور ٹوٹے گا۔ پی ٹی آئی حکومت کا یہ ایک زبردست فیصلہ ہے۔ اڑتیس ضلعی حکومتوں کی بجائے ایک سو تیرہ تحصیل حکومتیں منتخب ہوں گی، اور شہروں میں محلہ حکومتیں ہوں گی۔ 
قوانین، پالیسی سازی، حکومتی ڈھانچہ، اقتصادی حرکیات اور گورننس میں بہتری کا نام تبدیلی ہے۔ راتوں رات گلی پکی ہو جاتی ہے، مذکورہ بالا امور میں بہتری کے لیے وقت لگتا ہے۔ نتائج جلد نہیں نکلتے، خاص طور پر معاشی میدان میں۔ گزشتہ دس سال کی معاشی خرابی کے کچرے کا انبار ہے۔ اسے صاف کرنا اور راستہ بنانا وقت طلب کام ہے۔ حکومت کو مہلت ملنی چاہیے۔ شاموں کی رونق میڈیا کی چاند ماری کی بجائے کچھ اور ہو تو بہتر ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں