پاکستان میں ہر نئی سرکار کوئی اور پالیسی بنائے نہ بنائے‘ تین پالیسیاں نئے سرے سے ضرور مرتب کرتی ہے ۔ یہ تعلیم‘ محنت اور صحت ہیں۔ اگر ان امور پر بنائی گئی پالیسیوں کا شمار کرنا ہو تو آپ اب تک قائم ہونے والی فوجی اور سول حکومتوں کی تعداد گن لیں۔ ملک وہی‘ ادارے وہی‘ نوکر شاہی وہی‘ مگر جب سیاسی وڈیرے کرسیاں تبدیل کرتے ہیں تو یہ پالیسیاں اس طرح نئی بناتے ہیں جیسے ملک میں واقعتاً کوئی بہت بڑا سیاسی اور فکری انقلاب برپا ہوگیا ہو۔ ابھی کل پرسوں وفاقی کابینہ نے نئی تعلیمی پالیسی کی منظوری دی۔ متن ابھی سامنے نہیں آیا‘ انتظار ہے۔ دیکھتے ہیں کہ اس بار نسخہ کتنا تبدیل ہوا ہے ؟ خبروں کے جھرمٹ میں تعلیمی پالیسی کے حوالے سے ایک چھوٹی سی خبر نے مجھے چونکا دیا۔ کابینہ ‘ یعنی عمران خان‘ نے ہائرایجوکیشن کمیشن (خدارا قومی اداروں کے نام تو قومی زبان میں ڈھالیں)‘ کو ہدایت کی ہے کہ ہائی رینکنگ جامعات کی پاکستان میں شاخیں کھولنے کا بندوبست کریں۔جس طرح آسٹریلیا‘ امریکہ اور برطانیہ کی کچھ جامعات نے خلیجی ریاستوں میں اپنی شاخیں قائم کی ہیں‘ اسی طرح اُنہیں پاکستان میں بھی مدعو کیا جائے ۔ واہ‘ واہ۔ لیکن معاملہ غورطلب ہے ۔ معلوم نہیں کونسی یونیورسٹی کب پاکستان آئے گی‘ یہ بعد کی بات ہے ۔ اس وقت دوباتیں ذہن میں رکھی جانی چاہئیں ۔ اول یہ کہ اُن میں داخلے کے لیے بھاری بھرکم فیس کون ادا کرے گا؟مشرق ِوسطیٰ میں قائم ایسی جامعات کے بارے میں مجھے زیادہ علم نہیں‘ مگر قطر میں ایک امریکی یونیورسٹی کے کئی سال پہلے ایک سیمینار میںمہمان تھاکہ امریکہ سے آئے ہوئے اساتذہ کی بھاری تنخواہ کون ادا کرتا ہے‘ تو معلوم ہوا کہ قطر کی حکومت ساری تنخواہ خود ادا کرتی ہے ۔
جدید تعلیم اور جامعات کا مقصد مشرق ِوسطیٰ کے معاشروں اور ریاستوں کو مغرب کے قریب لانا اور سماجی اور اقتصادی طور پر جدید سرمایہ دارانہ نظام اور مغربی منڈیوں سے جوڑنا ہے ۔ اس کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں طلبا ہر سال مغرب کی جامعات میں داخلہ لیتے ہیں‘ نا صرف مشرق ِوسطیٰ سے‘ بلکہ چین‘ جاپان ‘ ملائیشیا اوربہت سے دیگر ممالک سے بھی۔ اس تعلیم کی وجہ سے ان ممالک میں ایک متمول متوسط طبقہ پیدا ہوچکا ہے ۔ خصوصاً امریکی جامعات کا معیار ایسا ہے کہ دنیا بھر سے طلبہ اور طالبات وہاں داخلہ لیتے ہیں۔ ان جامعات کا نام‘ پہچان اور ساکھ ایسی ہے کہ اگر آپ کی تعلیمی اسناد پر ان کی مہر ثبت ہوجائے تو آپ دنیا میں کہیں بھی اپنا مقام بنا سکتے ہیں۔ہر امریکی قیادت نے جامعات پر توجہ دی‘ اوردنیا بھر کے طلبہ کے دروازے ان پر کھلے رکھے ‘ وظائف دیے۔ دس سال سے زائد عرصے سے ہر سال دوسو فلبرائٹ فیلو شپ پاکستانیوں کے لیے مختص ہیں ۔ کچھ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس سے کتنے ہزار پاکستانی مستفید ہوئے ہوں گے ۔ نظریہ ٔ سازش کے نمائندے جو بھی نتیجہ اخذ کریں‘ دوسروں کو مفت تعلیم دینا ایک قابل ِقدر انسانی جذبہ تو ہے ۔ مغرب کی جامعات کو پاکستان لانے کی ضرور کوشش کریں‘لیکن اس سے پہلے اپنی جامعات پر بھی توجہ دیں۔ جب میں اور میرے ہم عصروں نے پاکستانی جامعات میں تعلیم حاصل کی ‘تو اُس وقت دنیائے عرب‘ نیپال‘ ایران اور افریقی ممالک سے طلبا ہمارے ساتھ پڑھتے تھے۔ مشرق ِ بعید سے بھی کچھ طلبہ یہاں آتے تھے ۔ جامعہ پنجاب سے میں نے ایم کیااور بعد میں وہیں شعبہ سیاسیات میں استاد تعینات ہوا۔ تین سال بعد میں نے یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں ایم اے میں داخلہ لیا۔ بھارت سے پڑھے ایک عظیم استاد‘پروفیسر رگوان آئر میرے پاس آئے اور کہا کہ تم نے تو پنجاب یونیورسٹی سے پہلے ہی ایم اے کیا ہواہے‘ تمہیں دوسرے ایم اے کی ضرورت نہیں۔ درخواست دوکہ تمہیں پہلے ہی دن سے پی ایچ ڈی میں شمار کیا جائے اور ایسا ہی ہوا۔تب یہاں تعلیم تھی‘ اساتذہ تھے ‘ سیاست دان نہیں تھے۔ نظریاتی مکالمہ تھا‘ تکثیریت تھی‘ مگرپھر یہ سب کچھ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اور زیادہ تر ضیا الحق کے دور میں زوال پذیر ہوتا گیا۔
سرکاری جامعات میں مثبت تبدیلی آسان نہیں رہی۔ اصلاح کے عمل اور قانون کی حکمرانی میں منظم مفاد پرست ٹولے آڑے آتے ہیں۔ وائس چانسلر کا جینا حرام کردیتے ہیں۔ ایک ماہ میں نے بہت ضبط سے کام لیا ہے ‘مگر دلخراش خبر پر تبصرہ ضروری ہے کہ دل بہت اداس ہے ۔ پروفیسر طاہر امین صاحب حرکت ِقلب بند ہونے سے گزشتہ ماہ اﷲ کو پیارے ہوگئے ۔ اﷲ کی رضا‘ لیکن میرے نزدیک کچھ واقعات ہیں‘ جو اتنے اعلیٰ درجے کے استاد کی رحلت کا سبب بنے ۔ وہ میرے شاگرد بھی تھے اور دوست بھی ۔ ایم آئی ٹی‘ جو دنیا کی اعلیٰ ترین جامعات میں سے ایک ہے ‘ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی؛ اگر چاہتے تو امریکہ میں ہی قیام کرلیتے ‘ وہاں کی سند اُن کے لیے ہر دروازہ کھول سکتی تھی‘ لیکن وہ ہم جیسے سرپھروں میں سے تھے کہ وطن ِعزیز میں رہ کر وطن کی خدمت کریں گے ۔ ساری زندگی قائد ِاعظم یونیورسٹی سے وابستہ رہے۔ پتا نہیں کیا سوجھی کہ بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ‘ملتان کی وائس چانسلری کے لیے درخواست دے بیٹھے اور منتخب ہوکر اصلاح کے مشن پر ملتان جا پہنچے۔ معاملات بگڑے ہوئے تھے‘ کرپشن تھی‘ اُن کے پیشرو یونیورسٹی کی شاخ‘ لاہور میں بیچ چکے تھے اور اُس وقت جیل میں تھے۔ کئی اساتذہ نیب کی گرفت میں تھے ۔ طاہر صاحب کرپشن پر مٹی پائو والی پالیسی کے کبھی حامی نہ تھے ۔ وہاں انہوں نے دیانتداری سے کام کرنا شروع کردیا‘ جس کسی کو ملوث پایا‘اُس کے خلاف ضابطے کے مطابق کارروائی کی۔ جواباً منظم گروہوں نے اُن کا جینا حرام کردیا۔ سکینڈلز بنائے گئے ۔ وہ حساس آدمی تھے‘ دبائو برداشت نہ کرسکے ۔ گزشتہ اکتوبر انہیں ملنے ملتان گیا ‘وہ ہنس مکھ طاہر امین نہ تھے‘ جنہیں میں جانتا تھا۔ مجھے اپنا دکھڑا سنایا تو میں نے انہیں استعفیٰ دینے پر غور کرنے کا مشورہ دیا۔ چند ماہ بعد وائس چانسلری‘ جس کے لیے لوگ پتا نہیں کس کس کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں‘ کو خیر آباد کہا اور واپس اسلام آباد آگئے ۔
بہت کم وائس چانسلر ہیں‘ جو اصلاح کا بیڑا اٹھاتے ہیں۔ میرے نزدیک غیر معمولی اعصاب‘ ہمت اور قوت ِارادی کے حامل انسان ہی ایسا کررہے ہیں۔ اُن کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ جہاں کہیں کوئی اہل‘ باہمت اور ایماندار وائس چانسلر ہے‘ وہاں جامعات میں اصلاح بھی ہورہی ہے ‘ اور ترقی بھی‘ مگر اُن کے سامنے مسائل کا انبار ہے ۔سرکاری جامعات کی اصلاح کے لیے بہت اعلیٰ اور جامع رپورٹ محترم ڈاکٹر شمس لاکھا کی سربراہی میں مرتب ہوئی تھی۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر طارق بنوری اُس ٹاسک فورس کا حصہ تھے ۔ موجودہ سرکار نے بھی تعلیمی ٹاسک فورس بنائی ہوئی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ جس تعلیمی پالیسی کی خبر ہے ‘یہ اُسی ٹاسک فورس نے ترتیب دی ہو۔ گزارش یہ کرنا چاہتا ہوں کہ پالیسیاں بہت بن چکیں۔ مثبت تبدیلیوں کے لیے پالیسیوں کا انتظار نہ کریں‘ جو کچھ پہلے سے موجود ہے ‘ اُسے تو صحیح سمت جاری رکھیں۔ ہم اپنی سرکاری جامعات کا معیار بلند کرسکتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ گزشتہ بیس برسوں میں کچھ تبدیلی آئی ہے ۔ ہماری سرکاری اور کچھ نجی جامعات نے عالمی رینکنگ میں کچھ نہیں تو کم از کم اپنا نام لکھوانا شروع کردیا ہے۔
ہمارے سیاسی وڈیرے کہتے نہیں تھکتے کہ ہمیں خود کو نالج اکانومی میں ڈھالنا ہے ۔ بات تو دل کو لگتی ہے کہ ہماری 65 فیصد آبادی کی عمر سولہ سے پینتیس سال کے درمیان ہے ۔ سوچیں ‘ اگر ہمارے نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ ہنر مند اور موجودہ زمانے کے صنعتی تقاضوں کو پورا کرنے کے اہل ہو ں تو ہم کیا کچھ نہیں کرسکتے ‘ لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ نعرے سنتے سنتے ہمارے کان پک گئے ہیں۔ پارلیمانی نظام اپنی جگہ‘ مگر دنیا میں تعلیم اور دیگر اہم شعبوں کو وہ لوگ بہتر خطوط پر استوار کرتے ہیں‘ جنہیں ان کی اہمیت کا اندازہ ہے اور جو تعلیم سے عشق کی حد تک محبت کرتے ہوں۔ پالیسیاں بہت بن چکیں‘ اب کچھ کردکھانے کا وقت ہے۔ تعلیم اور جدید معیشت کے درمیان تعلق ہمیں جتنی جلدی سمجھ میں آجائے ‘ اتنا ہی اچھا ہے ‘ وگرنہ وقت تو ہاتھ سے نکلا ہی جارہا ہے ۔