"RBC" (space) message & send to 7575

کشمیر کی قسمت کے کھلاڑی اور مزاحمت

کشمیری ستم زدہ ہیں۔ آج نہیں، کئی دہائیوں، بلکہ تقریباً ایک صدی سے۔ مہاراجہ کے خلاف تحریک کا آغاز 1920ء کی دہائی میں ہوا۔ کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کا ہدف انگریزوں سے نجات سے کہیں زیادہ ہری سنگھ کی ظالمانہ حکومت کا خاتمہ تھا۔ تحریکِ آزادی سے کئی دہائیاں پہلے کشمیری مہاراجہ کی مطلق العنان بادشاہت کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے سرگرم ہو چکے تھے۔ یہ بعد کی بات ہے کہ جب آزادی کی دو متوازی تحریکیں چلیں تو کانگرس اور مسلم لیگ نے کشمیری جماعتوں کے ساتھ سیاسی اتحاد قائم کرنا شروع کر دیے۔ 
بدقسمتی سے کشمیری قیادت اپنے اندر اتحاد و یگانگت برقرار رکھنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ شیخ محمد عبداﷲ کشمیر کی جداگانہ حیثیت کے حامی تھے۔ اُنھوں نے دوقومی نظریے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ نہرو خاندان سے ذاتی دوستی کے علاوہ سیکولرازم کے حامی تھے۔ کشمیری قوم پرستی پر فخر کرتے تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ کشمیریت ریاست میں رہنے والے مسلمانوں، سکھوں، ہندوئوں اور بدھ متوں کو آپس میں جوڑ کر ایک قوم بنا سکتی ہے۔ اُن کی جماعت، نیشنل کانفرنس کا آخری دم تک یہی موقف رہا۔ اس کے برعکس مسلم کانفرنس کی قیادت نے دوقومی نظریے کو قبول کرتے ہوئے کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی عوامی سیاست کی اور عوام میں قبولیت پائی۔ 
مہاراجہ ہری سنگھ کے ذہن میں بھی خود مختار کشمیر کا نقشہ تھا۔ اس لیے اُنھوں نے تین جون کے تقسیمِ ہند کے منصوبے کے مطابق فوری طور پر کسی نئی ریاست کے ساتھ الحاق کرنے سے گریز کیا، اور مہلت مانگی۔ پاکستان نے یہ سوچتے ہوئے مہلت دے دی کہ وہ جغرافیائی حقیقت، عوامی احساسات اور تقسیم کے طے شدہ فارمولے کے خلاف کیسے جائیں گے؟ جب دونوں جانب سے، اور خصوصاً عوامی سطح پر پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ زور پکڑنے لگا تو مہاراجہ پر ایک آزاد ریاست کی سوچ غالب آنے لگی۔ اُن کا خیال تھاکہ ان حالات میں تصادم سے گریز کرتے ہوئے پاکستان اور ہندوستان آزاد کشمیری ریاست کو ایک بفر زون کے طور پر قبول کرلیں گے۔ لیکن عملی طور پر جو کچھ اُنھوں نے کیا،وہ عقل وفہم سے ماورا تھا۔ اس سے پہلے کشمیر، اور اس کے مظلوم عوام کو راجہ گلاب سنگھ نے ایک صدی قبل پچھتر لاکھ نانک شاہی روپوں میں خریدا تھا۔ تقسیم کے بعد جب فیصلے کی گھڑی آئی تو مہاراجہ نے انصاف اور حقائق کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس جنت نظیر خطے کو ایک طویل جنگ میں دھکیل دیا۔ 
تاریخ کا اصل چہرہ یا اس کے حقائق،گھنائونی سازش، سیاسی چالبازیوں اور بزور طاقت زیادہ دیر تک نہیں چھپائے جاسکتے۔ سچ ظاہر ہو کر رہتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بھارتی فوجیں کشمیر میں داخل ہو چکی تھیں۔ ابھی آنجہانی وی پی مینن مہاراجہ صاحب کے دربار میں نہیں پہنچے تھے۔ ریاست پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی پہلے سے موجود تھی۔ مہاراجہ کو ترغیبات کے ساتھ ساتھ دھمکیاں بھی مل رہی تھیںکہ کہیں وہ پاکستان کے حق میں فیصلہ نہ کر بیٹھیں۔ ملحق ریاست پٹیالہ اور کچھ دیگر علاقوں سے انتہا پسند ہندو ریاست میں داخل ہوکر جموں میں مسلم کش فسادات برپا کرنے میں مصروف تھے۔ جواباً پاکستان کی طرف سے بھی رضاکاروں کے جتھے داخل ہوئے۔ یہ مفروضہ حقائق پر مبنی نہیں کہ اگر پاکستانی رضاکار نہ جاتے تو مہاراجہ پاکستان سے الحاق کرلیتا۔ اس افراتفری کے عالم میں کیا واقعی مہاراجہ نے گھٹنے ٹیکتے ہوئے الحاق کی دستاویزات پر دستخط کردیے یا تاریخ میں سرخرو ہونے کے لیے ایسا کرنے سے معذرت کرلی تھی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے جواب میں طرفین اپنے اپنے دلائل رکھتے ہیں۔ چارلس لیمب اس خطے کی تاریخ شناسی میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق ایسی کوئی دستاویز موجود ہی نہیں، اور نہ ہی اُن سالوںمیں، جب مہاراجہ بقیدِ حیات تھے، کبھی منظرِ عام پر آئی۔ بعد میں دکھائی جانے والے دستاویز پر کئی سوال اٹھے، جن کا معقول جواب کبھی سامنے نہ آیا۔ 
بھارت کی ریاستِ کشمیر پر قبضے کی آئینی، قانونی اور سیاسی بنیادیں کھوکھلی ہیں۔ طاقت کا استعمال ہوا، دوسری جانب سے مزاحمت کی گئی۔ بیانیہ گھڑا گیاکہ اُن کا قبضہ اور فوج کشی تو قانونی ہے، مگر پاکستان کی جانب سے رضاکاروں کی جوابی کارروائی اور اُن کے ساتھ مل کر کشمیری نوجوانوں کی مزاحمت بیرونی مداخلت ہے۔ معاملہ سلامتی کونسل میں جا پہنچا۔ وہاں طے پایا کہ چلو فیصلہ کرنے کے لیے کشمیریوں سے پوچھ لیتے ہیںکہ وہ دونئی ریاستوں میں سے کس کے ساتھ الحاق کی ہامی بھرتے ہیں۔ اس کے بعد فریب کاری، دھوکہ دہی‘ جبروتشدد اور خون خرابے کی ایک طویل داستان ہے۔ بھارت نے جموں اور کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کا ہر حربہ آزما کر دیکھ لیا۔ لیکن اُس نے کشمیریوں سے رائے نہ لی، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ فیصلہ پاکستان کے حق میں ہوگا۔ 
جواہر لال نہرو اپنے وقت کے بہت پڑھے لکھے، فاضل اور مدبر انسان تھے۔ اُن سے سیاسی اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن تاریخ اور سیاست پر اُن کی گرفت کے بارے میں کوئی شک نہیں۔ تو پھر اُنھوں نے ساری دنیا کے سامنے یہ وعدہ کیوں کیا کہ وہ کشمیر میں استصوابِ رائے کرائیں گے، اور عوام کا فیصلہ قبول کیا جائے گا۔ اُس وقت کشمیر کا مسئلہ لے کر بھارت خود سلامتی کونسل میں گیا تھا۔ اُسے گمان تھا کہ شیخ عبداﷲ اُس کے ہاتھ میں ہیں، اور کشمیری عوام شیخ عبداﷲ کے۔ وہ مہاراجہ کے خلاف تحریک چلاتے ہوئے کئی مرتبہ قیدوبند کی سزا بھگت چکے تھے۔ اور ایک وقت تھا جب وہ عوام میں مقبول تھے۔ جس وقت بھارت نے کشمیر پر قبضہ کیا وہ جیل میں تھے۔ بظاہر یہ کہانی تراشی گئی کہ مہاراجہ نے بھارت سے فوجیں داخل کرنے کی درخواست کی تھی تاکہ بیرونی عناصرکی مداخلت سے کشمیر میں پیدا ہونے والے امن وامان کے مسئلے پر قابو پایا جاسکے۔ اس پر بھارت نے دومطالبات رکھے۔ پہلا یہ کہ مہاراجہ تحریریدرخواست دے، اور دوسرایہ کہ شیخ عبداﷲ کو فوری رہا کرے۔ خیال تھا کہ شیخ عبداﷲ اپنی مقبولیت کی بنا پر کشمیری عوام کا رخ بھارت کی طرف موڑ لیں گے۔ شیخ عبداﷲ نے دوقومی نظریے کی تردید کی تھی، اور وہ بھارت کے حوالے سے کچھ خوش فہمی رکھتے تھے۔ وہ اپنے نظریے اور سیاسی موقف پر قائم رہے، لیکن زمینی حقائق تبدیل ہوچکے تھے۔ وہ کسی طورپر جموں اور کشمیر کو عوامی رائے کے زور پر بھارت میں شامل نہیں کرا سکتے تھے۔ 
یہی کمزوری تھی کہ شیخ صاحب آخرکار بھارت کے ساتھ معاملات طے کرنے پر آمادہ ہوئے۔ بہت پَر مارکر اُنھوں نے بھارت کے اندر ایک نیم خود مختار ریاست کا مطالبہ آئین کے آرٹیکل 370 کی صورت تسلیم کرایا۔ مہاراجہ ہری سنگھ کے بیٹے، کرن سنگھ ، جو اُس وقت بھارتی راجیہ سبھا کے رکن ہیں، کا کہنا ہے کہ اُن کے والد نے تین شعبے، دفاع، خارجہ پالیسی اور کرنسی، بھارت کے حوالے کیے تھے۔ شروع میںصدر ریاست کا عہدہ تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریاست کی خودمختاری پر بھارت چوٹیں لگاتا رہا، اسے محدود کرنے کی پالیسی جاری رکھی، یہاں تک کہ حالیہ پانچ اگست کو ریاست کے حصے بخرے کرکے رہی سہی خود مختاری بھی ختم کرڈالی۔ 
آج جموں اور کشمیر کی تمام سیاسی قوتیں،جنہوں نے بھارت کا ساتھ دیا تھا، شرمندہ دکھائی دیتی ہیں۔ آج وہ افسردہ بھی ہیں اور پریشان بھی۔ اگر وہ آنسو بھی بہائیںتو ایک صدی تک مزاحمت کرنے والے کشمیری اُنہیں مگرمچھ کے آنسو ہی سمجھیں گے۔ محترم عمر عبداﷲ نے واقعی تاریخ جملہ ادا کیا، ''ہم نے دوقومی نظریے کی مخالفت کرکے بہت بڑی غلطی کی‘‘۔ لیکن یہ تاسف اُس تاریک المیے کی تلافی نہیں کرتا جس سے کشمیری گزشتہ دو دہائیوں سے گزرے ہیں۔ شیخ عبداﷲ اگر تاریخ کے تیور پہچان لیتے تو کشمیریوں کا یہ حال نہ ہوتا۔ اس دوران ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب شیخ عبداﷲ نے بھارت سے مصالحت کے بعد سوچنا شروع کیا تھاکہ کشمیر کو آزاد ریاست، مگر محدود اقتدارِاعلیٰ کا درجہ مل جائے۔ اس نوعیت کی آزادی کی بات جواہر لال نہرو سے چھیڑی بھی تھی۔ پرانے خاندانی دوستوں کے درمیان کشمیر کے متعلق یہ گفتگو دہلی کے کسی خوشگوار ماحول میں ہورہی تھی۔ نہرو نے برملا کہا کہ اگر آپ نے آزادی کی بات کی تو ہم آپ کے گلے میں سونے کی زنجیر ڈال دیں گے۔ اس کا تذکرہ شیخ عبداﷲ نے اپنی سیاسی آپ بیتی، ''آتش چنار‘‘ میں کیا ہے۔ اس کے بعد جب شیخ صاحب نے ادھر اُدھر بالادست طاقت کے خلاف باتیں کیں، کشمیر کی محرومی کا رونا رویا تو کئی سال تک اُنہیں دہلی میں کسی گھر میں نظر بند کردیا گیا۔ گویا سونے کی زنجیر پہنا دی گئی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اُن پر نئے علاقائی حقائق آشکار ہوئے تو وہ پرانی تنخواہ پر واپس آگئے۔ 
بھارت کی جمہوریت، سیکولرازم اورسماجی اجتماعیت کے ڈھکوسلے کا تراشا ہوا بت کئی بار کشمیر کے انتخابات میں ٹوٹا؛ تاہم رہا سہا بھرم 1987ء کے ریاستی انتخابات نے چاک کرڈالا۔ کانگرس اور نیشنل کانفرنس کی دھاندلی سے ایسی رت بدلی کہ کشمیریوں کے مزاحمتی گروہ ابھرنے لگے۔ کشمیری نوجوانوں نے سیاست دانوں سے مایوس ہوکر معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ اس دوران عمرعبداﷲ اور محبوبہ مفتی جیسے کئی بااثر سیاست دان لین دین کی سیاست کرتے رہے۔ دوسری طرف لہو اپنی تاریخ رقم کرتا رہا۔ تقریباً بیس سال پہلے دہلی میں کشمیر سے آئے ہوئے ایک جامعہ کے استادسے ملاقات کا موقعہ ملا۔ پوچھا کہ کیا بھارت طاقت کا استعمال کرکے کشمیریوں کو دبا سکے گا۔ اُنھوں نے کہا، ''بھارت کشمیر کو کھو چکا ہے‘‘۔ یہی جملہ حالیہ تاریخ کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کو اس کا ادراک کب ہوتا ہے۔ طاقت کے استعمال، اور اس کے خلاف مزاحمت کا رشتہ روزِازل سے ہے۔ کشمیریوں کی کئی نسلیں مزاحمت کرتے ہوئے اپنا طاقتور بیانیہ رقم کرچکیں۔ اب دیکھنا ہے کہ بھارت اس حقیقت کو کب تک جھٹلاپائے گا۔ ایک طرف مودی سرکار کی طاقت کا نشہ، رعونت اور جبر ہے، دوسری طرف صرف جذبہ ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں